کیا خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت خطرے میں ہے؟بظاہرتو اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے کیونکہ قومی وطن پارٹی کے گیارہ اراکین کی علیحدگی کے بعد بھی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد کو63نشستوں کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔کوئی اور سیاسی پارٹی عددی اعتبار سے اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسمبلی میں موجود مخلوط حکومت کو چیلنج کر سکے۔تحریک انصاف کے بعد صوبائی اسمبلی میںجمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمن گروپ)دوسری بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اْبھری تھی۔لیکن اس کے کْل ارکان کی تعداد17 ہے جبکہ حکومت بنانے کیلئے کم ازکم60اراکین کی ضرورت ہے۔جہاں تک مسلم لیگ(ن)کا تعلق ہے‘ اس کی مرکزی قیادت فی الحال اس موڈ میں نہیںکہ وہ خیبر پختون خوامیں موجود حکومت کو ہٹا کر گورنر راج نافذ کرے۔
خیبر پختون خوا حکومت گرانے کی افواہوں کی وجہ دراصل عمران خان کا ایک بیان ہے جس میں اْنہوں نے وفاقی حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر خیبر پختون خوامیں اْن کی حکومت کو گرایا گیاتو وفاقی حکومت کی بھی چھٹی ہوجائے گی۔اس سے قبل تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا تھا کہ اگر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ صوبے میں عوام کو اچھی حکومت نہیں دے سکتے اور اْن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں تووہ صوبائی اسمبلی تحلیل کردیں گے۔ان بیانات نے عمران خان کے سیاسی مخالفین کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار تھمادیا ہے جس کے ساتھ وہ خان صاحب اور اْن کی پارٹی پرپے درپے وار کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پائو ہیں۔انہوں نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ مئی 2013ء کے انتخابات کے فوری بعد کئی پارٹیوں نے صوبائی حکومت بنانے کیلئے اْن سے رابطہ کیا تھالیکن اْنہوں نے تحریک انصاف کی طرف سے اتحاد کی دعوت قبول کرلی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آفتاب شیر پائو نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو تنقید کا نشانہ نہیںبنایا بلکہ اْن کی ہلکی سی ستائش کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ وہ اور پرویز خٹک دونوں ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیںاور ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ اْنہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ قومی وطن پارٹی (جناب شیر پائو کی اپنی پارٹی)کے خلاف اقدام سے قبل عمران خان نے پرویز خٹک کو اعتماد میں نہیں لیا۔ورنہ وہ(عمران خان)اْن (شیرپائو)کے بارے میں اتنے بچگانہ بیانات نہ دیتے۔
شیر پائو نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان کو پختونوں کی تکالیف اور مصائب کا کوئی احساس نہیں اور خیبر پختون خوامیں نیٹو سپلائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے منظم کرکے وہ دراصل پنجاب کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔قومی وطن پارٹی تشکیل دینے سے پہلے جناب شیر پائو جس پارٹی کے سربراہ تھے،اْس کا نام پیپلز پارٹی (شیرپائو) تھا۔اْنہوں نے جب ایک قومی سطح پر متحرک پارٹی کو تحلیل کرکے قومی وطن پارٹی بنائی تو کہا تھا کہ نئی پارٹی کے جھنڈے تلے اْن کی سیاست کا محور پختون ہوں گے جنہیں اْن کے بقول دیگر سیاسی پارٹیاں نظر انداز کررہی تھیں۔جمعہ کے روز پریس کانفرنس میں جناب شیر پائو نے جو کچھ کہا ہے اْس کا لْب لباب یہ ہے کہ خیبر پختون خواکے عوام کے مسائل تحریک انصاف کی توجہ کے مرکز نہیں ہیں بلکہ ساری توانائی ایسے ایشوز پر صرف کی جارہی ہے جن سے تحریک انصاف کو پنجاب میں پنجے جمانے کا موقع مل سکے۔قومی وطن پارٹی واحد پارٹی نہیں ہے جس نے یہ سوال اْٹھایا ہو کہ نیٹو سپلائی کے خلاف آخر خیبر پختون خوامیں ہی دھرنے کیوں دئیے جارہے ہیں۔پنجاب اور سندھ میں نیٹو سپلائی کو کیوں نہیں روکا جا رہا؟ صوبائی اسمبلی میں قومی وطن پارٹی کی صرف11نشستیں ہیں لیکن شیر پائو صاحب اپنی پارٹی اور اپنے آپ کو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پر مشتمل مخلوط حکومت کے متبادل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔اس کی دلیل اْنہوں نے یہ دی ہے کہ خیبر پختون خواکو مخلص‘ قابل اور باصلاحیت لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔اور بنی گالہ(اسلام آباد میں عمران خان کی رہائش)سے پشاور میں حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔اْنہوں نے دعویٰ کیا کہ اْن کی پارٹی صوبے کو درپیش تمام اہم مسائل جن میں امن و امان،سلامتی اور بیروزگاری بھی شامل ہے،سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شیر پائو صاحب اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہونے کیلئے کمر کس رہے ہیں۔لیکن اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے پیشِ نظر اس کی نوبت آتی دکھائی نہیں دیتی۔
البتہ جناب شیر پائو کو یقین ہے کہ یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی۔اور کچھ ہی دنوں میں نقشہ تبدیل ہونے والا ہے۔کیونکہ اْن کے مطابق تحریک انصاف سے وابستہ بہت سے لوگ،جن کے پاس موجودہ حکومت کی بے ضابطگیوں کے ثبوت ہیں،قومی وطن پارٹی میں شامل ہونے کیلئے پرَتول رہے ہیں۔اس سلسلے میں اْنہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے متعدد کارکنوں نے اْن سے رابطہ بھی کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک پر براہ راست تنقید سے احتراز بلکہ اْن کے بارے میں نرم کلمات کا اظہار ظاہر کرتا ہے کہ شیر پائو صاحب تحریکِ انصاف کی ٹاپ لیڈر شپ کو بھی اپنے دام میں پھنسانا چاہتے ہیں۔
خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت کو صرف دو طریقوں سے ہی اْس کی مرضی کے خلاف اقتدار سے الگ کیا جاسکتا ہے۔اول، اِن ہائوس تبدیلی سے، جس کا فی الحال امکان نہیں۔قومی وطن پارٹی کے دعوئوں کے باوجود تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اتحاد نہ صرف خیبر پختون خوا میں مضبوط ہے بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی یہ دونوں جماعتیں باہمی قربت کے رشتوں کو مضبوط کررہی ہیں ۔ مثلاً دونوں پارٹیوں نے کراچی میں آئندہ بلدیاتی انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔خیبرمیں حکومت کی تبدیلی کا دوسرا راستہ وفاقی حکومت کی طرف سے آئین کی ہنگامی دفعات کے تحت نکلتا ہے۔لیکن اس کے بھی کوئی آثار نظرنہیں آتے۔حالانکہ طورخم کے راستے نیٹو سپلائی میں رکاوٹ ایک سنگین ،غیر آئینی اور غیر قانونی فعل ہے۔ وفاقی حکومت نے نہ صرف اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ خیبر پختون خوا حکومت کو بھی آئین کے تحت اْس کی ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں کیا۔وفاقی حکومت آزاد جموں کشمیر کی حکومت کو بھی رخصت کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیںکیا گیا۔ ایم کیوایم سے اتحاد کے بعد یوں معلوم ہوتا تھا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی چھٹی ہونے والی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت ملک کے دیگر حصوں میں قائم کسی بھی حکومت کو عدمِ استحکام سے دوچار نہیں کرنا چاہتی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شیر پائو کس بل بوتے پر خیبر پختون خوامیں حکومت کی تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔اس سوال کا خواب بھی شیر پائو صاحب کے خود اپنے الفاظ میں تلاش کرنے سے مل جاتا ہے۔اْنہوں نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت صوبے کے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے اور دھرنوں کی سیاست یا وفاقی حکومت کے خلاف بیانات دے کر عمران خان دراصل حکومت چھوڑنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔