"DRA" (space) message & send to 7575

طالبان سے مذاکرات

اگرچہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود طالبان سے مذاکرات کی پالیسی جاری رکھی جائے گی تاہم حکومت اور تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ 9ستمبر سے اب تک طالبان نے اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کو ایک دن کے لیے بھی نہیں روکا ۔ ان کی طرف سے پولیس ، فوج ، نیم فوجی دستوں اور حتیٰ کہ معصوم شہریوں پر حملے جاری رہے۔ جس دن آل پارٹیز کانفرنس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں قرارداد منظور کی تھی اس دن بھی تحریکِ طالبان سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں نے کوہاٹ میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) کو ہلاک کرنے کی غرض سے ان کے دفتر پر ہینڈ گرنیڈ اور خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیاتھا۔ ڈی پی او خود تو بچ گئے لیکن ان کا ایک ساتھی سپاہی ہلاک اور 13دیگر افراد شدید زخمی ہوگئے تھے۔اس کے بعد 27ستمبر کو اس قسم کی ایک دہشت گردی کی کارروائی میں پشاور کے قریب چارسدہ میں ایک بس پر حملہ کیاگیا جس میں بس پر سوار19سرکاری ملازم شہید ہوگئے۔ اسی دن طالبان کے ایک نمائندے نے بیان دیا کہ حکومت کا اصرار ہے کہ مذاکرات آئین پاکستان کے دائرے میں ہوں گے جبکہ ہم اس آئین کو ہی نہیں مانتے۔اس لیے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ اس سے اگلے دن پشاور کے قصہ خوانی بازار میں خودکش حملہ کیاگیا جس میں 40افراد شہید ہوئے۔
18دسمبر کو شمالی وزیرستان ایجنسی کے میر علی سب ڈویژن کے علاقے میں ایک فوجی چوکی پر خودکش حملہ آور نے بارود سے بھرے ٹرک سے حملہ کردیا۔ کچھ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں 5جوان شہید اور 42زخمی ہوگئے۔ زخمی سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد کی حالت انتہائی نازک تھی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مقیم پاکستانی فوج کے لیے یہ حملہ ایک قدیم محاورے کے مطابق اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا ہے۔ اس لیے کہ گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ کے دوران میں طالبان کی جانب سے پے درپے حملوں کے باوجود انتہائی صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ ان کی طرف سے اپنے دفاع میں بھی جوابی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔بلکہ قومی اسمبلی میں دیے گئے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے ایک بیان کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل کیانی نے قبائلی علاقوں میں فوج کی معمول کے مطابق نقل و حرکت بھی روک دی تھی تاکہ طالبان اس سے یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ فوج ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے والی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فوج حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتی تھی بلکہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے 9ستمبر کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرکے کانفرنس میں شریک سیاسی رہنمائوں کو نہ صرف قبائلی علاقے کی صورت حال پر بریفنگ دی تھی بلکہ کانفرنس کے فیصلوں کی بھی مکمل تائید کی تھی۔ اس کا مقصد اس تاثر کو دور کرنا تھا کہ فوج طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خلاف ہے، لیکن امریکی
ڈرون حملے میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور اس کی جگہ ملا فضل اللہ کے تقرر کے بعد مذاکرات کھٹائی میں پڑگئے۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے نئے امیر نے اپنے پہلے بیان میں ہی مذاکرات کو رد کردیا ۔ اس کے علاوہ کے پی کے میں پولیو ورکرز پر حملوں میں اضافہ کردیاگیا۔ 18دسمبر کے حملے میں خودکش حملہ آور نے نہ صرف بارود سے بھرے ہوئے ایک منی ٹرک کو آرمی چیک پوسٹ سے ٹکرا دیا تھا بلکہ اس حملے کے فوراً بعد طالبان کی طرف سے چیک پوسٹ پر مامور اور اردگرد مقیم فوجی جوانوں پر خودکار ہتھیاروں اور راکٹ لانچروں سے حملہ بھی کردیاگیا تھا۔ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تحریک طالبان سے وابستہ ایک تنظیم انصارالمجاہدین کے ایک ترجمان نے دھمکی دی کہ اس قسم کے مزید حملے بھی کیے جائیں گے۔
اس صورت حال میں ملک کی سکیورٹی فورسز کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ کار رہ جاتا ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں، جو ان کی چیک پوسٹوں اور فوجی قافلوں پر حملے کرنے سے باز نہیں آتے؟ اب اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوسکیں،اگرچہ حکومت کی طرف سے اس پر برابر زور دیاجاتا رہے گا کیونکہ ایسا کرنا حکومت کی سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے لیکن اگر ہم موجودہ صورتحال کا بنظر غور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت اور طالبان امن مذاکرات سے کوسوں دور ہیں۔حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے پہلے بھی صورت حال واضح نہیں تھی اور دونوں طرف سے متضاد بیانات اور ناقابل قبول شرائط کا اعلان کیا جارہا تھا تاہم ملا فضل اللہ کے آجانے سے ان مذاکرات کے انعقاد کا امکان تقریباً معدوم ہوگیا ہے۔ ایک طرف طالبان نے مذاکرات کے لیے حکومتی پیش کش کو رد کرکے سکیورٹی فورسز پر اپنے حملے تیز کردیئے ہیں اور ان کے جواب میں سکیورٹی فورسز نے بھی فوری اور بھرپور کارروائی کااعلان کردیا ہے ،دوسری طرف حکومت کی طرف سے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے پر قدرے مختلف موقف کا اظہار کیاجارہا ہے، مثلاً 9 ستمبر کے آل پارٹیز اجلاس کے بعد حکومت کی طرف سے مذاکرات کو واحد آپشن کے
طور پر پیش کیاجارہا تھا اور دیگر آپشنز کی بات کم کی جاتی تھی، اب مذاکرات کی پیش کش دہرانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر مذاکرات کا آپشن ناکام رہا تو طاقت بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ حکومت کے لہجے میں اس تبدیلی کی غالباً تین وجوہات ہیں۔ ایک تو حکومت کا مقصد طالبان کو ان کے غیر لچکدار رویے کی وجہ سے تنبیہ بھی کرنا ہے،دوسرے فوج کے مورال کو بھی بلند رکھنا مقصود ہے اور تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں دہشت گردی کے مسئلے پر جو بحث کی گئی اور اس کے نتیجے میں جس طرح طالبان کو غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش کی گئی اس سے یہ تاثر پھیلا کہ حکومت نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک کے باہر بھی حکومت پاکستان کے اس کمزور موقف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اب جبکہ مذاکرات کی طرف بھی کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی، حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان نے اپنا موقف نہ صرف مزید سخت کردیا ہے بلکہ فوج اور شہریوں کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بھی بنانا شروع کردیا ہے تو حکومت بھی اپنے لہجے میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوچکی ہے۔ ایسا کرنا حکومت کے لیے اور بھی ضروری ہوگیا تھاکیونکہ اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر مفلوج اور کنفیوزڈ ہونے کا الزام لگایا جارہا تھا۔ان سب عوامل کو اگر ملاکر دیکھا جائے تو حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بات اب قصۂ پارینہ بنتی جارہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں