پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میںنہ صرف بتدریج اضافہ ہورہا ہے بلکہ انہیں زیادہ تباہ کْن اور بہیمانہ بنانے کیلئے دہشت گرد نت نئے ہتھکنڈے اور ٹارگٹ تلاش کر رہے ہیں۔سکیورٹی فورسز کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے اراکین،سیاسی کارکْنان اورصحافیوں کو بھی مسلسل ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس صرف خیبر پختون خوا میں دہشت گرد ی کے 830 واقعات ہوئے،جو 2012ء کے مقابلے میں 48فیصد زیادہ تھے۔ اس سال کے آغاز سے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں جس پیمانے پر ہوئی ہیں،اْن سے ڈر ہے کہ رواں سال گزشتہ سال سے بھی زیادہ خون ریز ہوگا۔مثلاً نئے سال کے پہلے مہینے کے پہلے 17دنوں میں خیبر پختون خوا میں بم بلاسٹ،خود کْش حملوں، ریموٹ کنٹرول دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے 41 واقعات ہوئے جن میں24افراد شہید ہوئے۔ان میں سے زیادہ تر کارروائیاں پشاور میں ہوئیں۔
آج کل میڈیا پر ان دوسوالات پر بحث ہورہی ہے کہ دہشت گردی میں اضافے کی وجہ کیا ہے اور ان کارروائیوں سے دہشت گرد کیا اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں؟کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر تبصروں میں جو رائے ظاہر کی گئی تھی کہ اس کے بعد تحریک طالبان اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر انحطاط کا شکار ہوجائے گی‘اس تاثر کو دور کرنے کیلئے ٹی ٹی پی زیادہ جارحانہ ہتھکنڈوں پر اْتر آئی ہے اور اپنی کارروائیوں کا دائرہ بڑھا کر اس کی نئی قیادت ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اْس کے سامنے ریاست پاکستان اور اْس کے تمام ادارے بے بس اور غیر موثر ہیں۔ وہ جہاں چاہیں ،جب چاہیں،اورجسے چاہیں ‘نشانہ بنا سکتی ہے۔ کراچی میں سینئر پولیس پولیس افسر چودھری اسلم کو حفاظتی دستے کی موجودگی کے باوجود شہید کر کے ٹی ٹی پی نے ثابت کردیا ہے کہ کوئی حصار اْس کے حملوں کے آگے روکاوٹ نہیں بن سکتااور وہ سخت سے سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود بڑ ے سے بڑے افسر کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔پشاور میں اتوار کے روز فوجی چھائونی کی حدود کے اندرایف سی کے کانوائے میں بارود سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اْڑا کر دہشت گردوں نے ریاست پاکستان کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گرد سیکورٹی فورسز کو اْن کے اپنے اڈوں اورٹھکانوں میں بھی کامیابی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
بعض لوگوں کی رائے ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ دہشت گردی کی پے در پے کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں رائے عامہ اُن کے خلاف ہوتی جارہی ہے،بلکہ دہشت گردوں کے خلاف ایک موثرجوابی کارروائی کے لیے عوام کی طرف سے حکومت پر دبائو میںمسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اس کے پیشِ نظر دہشت گردی کے خلاف ایک بڑا فوجی آپریشن نہ صرف ناگزیر ہوتا جارہا ہے بلکہ بہت جلد شروع ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں اس قسم کے آپریشن کی باتیں جس طرح عام اور کھلے بندوں کی جارہی تھیں اور تحریک طالبان کی نئی قیادت کی طرف سے مذاکرات سے انکار کے بعد
حکومت کے لہجے میں جوتبدیلی رْونما ہوئی ہے،اْس نے ایک بڑے فوجی آپریشن کے امکانات کو اور بھی قوی بنا دیا ہے۔ دہشت گرد اس ممکنہ آپریشن کو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنانا چاہتے ہیں‘ اس کیلئے اْنہوں نے ایک طرف کارروائیاں تیز کردی ہیں تاکہ عوام خوف زدہ ہوکر بددل ہوجائیں اور حکومت پر اْن کا اعتماد اْٹھ جائے اور دوسری طرف چند سیاستدانوں اور ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کے ذریعے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس صورتِ حال کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ مْلا فضل اللہ حکومت سے مذاکرات سے واشگاف الفاظ میں انکار کر چکا ہے اور اس کے ترجمان حکومت پاکستان کے سامنے ناقابل قبول پیشگی شرائط رکھ رہے ہیں،تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دفاع ِ پاکستان کونسل کے لیڈر
اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل حمید گْل مذاکرات میں تعطل کی تمام ترذمہ داری حکومت پر ڈال رہے ہیں۔
دہشت گردی میں اضافہ کی ایک اور تشریح یہ بھی ہے کہ ان کا اس سال کے آخر تک افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی سے بھی قریبی تعلق ہوسکتا ہے۔پاکستانی طالبان اور افغان طالبان کے درمیان روابط اور تعاون کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔پاکستانی طالبان ملا عمر کو اپنا نظریاتی رہنما مانتے ہیں اور اْس کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں۔افغانستان میں امریکی،نیٹو اور افغان افواج سے برسرِ پیکار حقانی نیٹ ورک نے رسد، کمک اور تربیت کیلئے شمالی وزیرستان میں محفوظ اڈے قائم کررکھے ہیں۔
2004ء میں جب جنوبی وزیرستان میں نیک محمد کی سربراہی میں طالبان نے حکومت پاکستان سے امن مذاکرات کا آغاز کیا تھا،تو دیگر شرائط کے علاوہ اْن کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اْنہیں بلاروک ٹوک افغان جہاد میں شرکت کرنے کی اجازت دی جائے۔ حالیہ دنوں میں تحریک طالبان پاکستان کے قریبی ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی طالبان اور افغان طالبان نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ باہم رابطے میں ہیں،بلکہ جنگی کارروائیوں میں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔اگر یہ صورت حال اس وقت موجود ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سال2014ء کے آخر میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے نکلنے کے بعد دونوں میں اشتراک و تعاون کا کیا حال ہوگا؟یقینا اس میں اضافہ ہوگا، بلکہ افغانستان کی فوج اور حکومت کے خلاف ایک مشترکہ حملے کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ایک غیر ملکی رپورٹ کے مطابق طالبان کو یقین ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغان حکومت اور افغان نیشنل آرمی،اْن کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوگی اور وہ باآسانی ملک پر دوبارہ قبضہ کرلیں گے۔ایسی صورت میں پاکستانی طالبان پیچھے نہیں رہیں گے بلکہ ماضی کی طرح وہ افغان طالبان کی صفوں میں اْن کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ایسا تبھی ممکن ہے کہ وہ پاکستانی حکومت اور سکیورٹی فورسز کو اپنے پے درپے حملوں سے یا تو بالکل غیر موثر بنا دیں یا مذاکرات کے ذریعے ان سے یہ شرط منوا لیں کہ افغانستان میں اْنہیں ملا عمر کی قیادت میں لڑے کیلئے کھلی اجازت دے جائے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی طالبان دہشت گردی میں تیزی لاکر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں اْن کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ دہشت گرد اپنی دہشت گردی کا لیول جتنا مرضی اُونچا کرلیں، وہ پاکستانی عوام،فوج اور پولیس کا مورال نیچا نہیں کر سکتے۔ایک آدھ مذہبی سیاسی جماعت اور انتہا پسند مہم جُو یا نہ سوچ کے حامل چند افراد کو چھوڑ کر ملک میں طالبان کی وکالت اور اْن کا دفاع کرنے والا کوئی نہیںبلکہ جوں جوں دہشت گرد اپنی کارروائیاں تیز کررہے ہیں،عوام میں اْن کے خلاف نفرت اور سخت اقدام کی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے غالباََ دہشت گرد بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں اور اس لیے ہر کس و ناکس کو بے دریغ دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اپنی بدحواسی کا ثبوت دے رہے ہیں۔