پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس‘ جناب جسٹس دوست محمد خاں نے حال ہی میں اپنے ریمارکس میں پاکستان کے شمال مغربی حصّے میں واقع قبائلی علاقوں کے بارے میں ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ‘ جس کا ذکر اور لوگ بھی عرصے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس حقیقت کی روشنی میں عملی اقدامات کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ گزشتہ 66برس سے وفاق کے زیر انتظام پاکستان کے یہ قبائلی علاقے یعنی فاٹا بے اعتنائی کا شکار چلے آ رہے ہیں اور نظرانداز ہوتے رہیں ہیں۔ اسی وجہ سے خُود کُش حملہ آوروں اور اُن کے ماسٹر مائنڈ لوگوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہ ہو گا۔ یہ علاقے پاکستان کا حصّہ ہیں‘ لیکن وہاں کے عوام کو وہ سیاسی ‘ قانونی اور سماجی حقوق اور مراعات حاصل نہیں جو پاکستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والے شہریوں کو حاصل ہیں۔ ان کی آئینی حیثیت 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 246اور 247کے تحت متعین ہے۔ ان آرٹیکلز کی رُو سے سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ایجنسیز پر مشتمل ''فاٹا‘‘ براہ راست وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہے اور کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ان کا احاطہ نہیں کرتا۔ وفاقی حکومت صوبائی گورنر کے ذریعے ان علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ مقامی طور پر ہر ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ مقرر ہے جس کے پاس نہ صرف انتظامی بلکہ عدالتی اور سیاسی اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان کے کسی علاقے میں اختیارات کے ارتکاز کی ایسی مثال نہیں ملتی۔
یہ نظام انگریزوں نے آج سے تقریباً ایک صدی پہلے یعنی 1901ء میں نافذ کیا تھا اور اس کا مقصد ایک ایسا سیاسی‘
سماجی اور معاشی نظام قائم کرنا تھا جس میں رہنے والے یہ لوگ دُنیا کے دیگر عوام کے برعکس ‘غربت‘ جہالت اور پس ماندگی کی زندگی بسر کرتے رہیں۔وہ سیاسی شعُور سے بہرہ ور نہ ہوں تاکہ اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں کا اثر نہ لے سکیں۔ وہ بے روزگار رہیں تاکہ انگریزوں اور اُن کے بعد آنے والی حکومتوں کے لیے کرائے کے فوجی اور جنگ میں کام آنے والے افراد (Cannon Fodder)کی صورت میں آسانی سے دستیاب ہوں۔ اس لیے یہ علاقے کبھی گریٹ گیم (Great Game) کی خاطر کبھی کشمیر میں جہاد کے لیے اور آج کل دہشت گرد اور خودکش حملہ آوروں کی شکل میں بیرونی آقائوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھتے آئے ہیں۔
اسی نظام کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں اوسط شرح خواندگی 40فیصد ہے‘ جبکہ فاٹا میں صرف 17.42فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ خواتین میں یہ اوسط اور بھی کم یعنی صرف 3فیصد ہے۔ ان علاقوں میں سالانہ فی کس آمدنی پاکستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں کی آمدنی سے آدھی ہے‘ یعنی جہاں قومی سطح پر ہر فرد اوسطاً 500ڈالر سالانہ کماتا ہے‘ قبائلی علاقوں میں یہ آمدنی صرف 250ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ ان علاقوں میں کوئی صنعت نہیں‘ نہ ہی وسیع پیمانے پر زراعت ہو سکتی ہے ۔ فاٹا کی 80فیصد آبادی کی آمدنی کا ذریعہ تجارت ہے‘ جسے عرف عام میں سمگلنگ بھی کہا جاتا ہے‘ جو وہ اپنے ہمسایہ مُلک افغانستان کے باشندوں سے مل کر کرتے ہیں۔ تعلیم‘ صحت اور
دیگر شہری سہولتوں کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فاٹا کے حالات میں بہتری لانے کے لیے ہر مثبت تجویز یا کوشش ہمیشہ سیاسی پارٹیوں اور سیاسی اور جمہوری حکومتوں کی طرف سے ہوتی رہی ہے۔ سب سے پہلے یہ مسئلہ خان عبدالغفار خاں نے اُٹھایا تھا۔ قیام پاکستان سے ایک سال قبل یعنی 1946ء میں دہلی میں قائد اعظم سے ملاقات میں خان عبدالغفار نے اپنی اور اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل تعاون کے عوض مطالبہ کیا تھا کہ قبائلی علاقوں کو اُس وقت کے شمال مغربی سرحد ی صوبے (NWFP) میں ضم کر دیا جائے۔ قائد اعظم نے اس کی ہامی بھر لی تھی اور تجویز دی تھی کہ اس کے لیے قبائلی عوام کی رائے لے لی جائے۔ پاکستان بننے کے بعد بلوچستان کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر قاضی عیسیٰ نے 1951ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خاں کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اس نظام کی خرابیوں اور خاص طور پر مَلک (Maliks)اور پولیٹیکل ایجنٹوں کی کرپشن کا ذکر کرتے ہوئے تجویز دی تھی کہ تمام قائلی علاقوں کی حیثیت تبدیل کر کے انہیں صوبوں کا حصہ بنایا جائے اور فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR)ختم کر کے قبائلی علاقوں میں بھی وہی قوانین رائج کئے جائیں جو مُلک کے دیگر حصوں میں رائج ہیں‘ لیکن وزیر اعظم کے سیکرٹریٹ میں ایک ڈپٹی سیکرٹری نے ایک اختلافی نوٹ لکھ کر اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ استد لال یہ تھا کہ اگر قبائلی علاقوں میں قبائلی سرداروں اور زعما کو انگریزوں کے وقت سے ملنے والے وظیفے اور مراعات بند کر دی جائیں تو یہ افغانستان کے ساتھ مِل کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں 1997ء کے انتخابات کے موقع پر قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست ووٹ دینے کے حق کے نفاذ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جب 1996ء میں پاکستان کی عبوری حکومت نے قبائلی علاقوں کے عوام کو بھی مُلک کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں کی طرح یہ بنیادی جمہوری حق دینا چاہا تو سب سے زیادہ مخالفت مَلکوں اور قبائلی زعماء کی طرف سے کی گئی۔ لیکن جب اس سسٹم کے نفاذ کے بعد ووٹ ڈالے گئے تو عوام کا ایک جم غفیر‘ جن میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے‘ پولنگ سٹیشنوں پر اُمڈ پڑا۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق بعض ایجنسیوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح 60فیصد سے بھی زیادہ تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عورتوں کے پولنگ سٹیشنوں پر بھی ووٹ ڈالنے کی شرح توقع کے برعکس انتہائی حوصلہ افزا رہی‘ حالانکہ قبائلی سرداروں نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست انتخابات کی اس بنیاد پر مخالفت کی تھی کہ قبائلی عوام کو یہ نظام پسند نہیں اور حکومتِ پاکستان اُن پر یہ نظام زبردستی ٹھونس رہی ہے ۔ لیکن قبائلی عوام نے ان انتخابات میں جوق درجوق حصہ لے کر قبائلی سرداروں کے ان دعوئوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اب بھی اُسی سوچ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اور قبائلی علاقوں کوسیاسی اور آئینی اصلاحات کے ذریعے پاکستان کے دیگر علاقوں کے برابر لانے کی کوشش کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان کی گیارہ بڑی سیاسی پارٹیوں کی ایک منتخب کمیٹی نے ''فاٹا‘‘ کے بارے میں ایک گیارہ نکاتی اصلاحات پر مبنی چارٹر کا اعلان کیا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ وہ ان اصلاحات کو بروئے کار لانے کے لیے ملک گیر مہم کا آغاز کریں گی۔ اس چارٹر میں تین اہم مطالبات شامل ہیں۔ یعنی آئین کے آرٹیکل 247میں ترمیم کر کے پاکستان کے قبائلی علاقوں کو بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی عملداری کے تحت لایا جائے۔ قبائلی علاقوں میں بھی مقامی حکومت (لوکل گورنمنٹ) کا سسٹم نافذ کیا جائے اور انتخابات کروائے جائیں اور قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے ایک وسیع اور جامع ترقیاتی منصوبہ شروع کیا جائے۔ لیکن سابق حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اس ضمن میں سست روی کا شکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدر حلقے قبائلی علاقوں کو باقی ملک سے الگ تھلگ رکھ کر انہیں ایسی حکمتِ عملی (strategies)کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں جن کا تعلق نہ تو پاکستان اور نہ ہی ان علاقوں کے عوام کے مفاد سے وابستہ ہے۔قبائلی علاقے ہماری افغانستان اور بھارت کے بارے میں حکمتِ عملی کا حصہ ہیں اور اِسی وجہ سے یہاں کے عوام جدید سہولتوں اور حقوق سے محروم ہیں۔ آج کل دہشت گردوں نے اسے اڈہ بنا رکھا ہے اور یہ سلسلہ اُس وقت چلتا رہے گا جب تک اس علاقے میں سیاسی ‘ معاشی اور آئینی اصلاحات نافذ کر کے ان علاقوں کے عوام کو پاکستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے عوام کے برابر نہیں لایا جاتا۔