خارجہ امورکے حوالے سے جن ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں مکمل ہم آہنگی، خیر سگالی، دوستی، قریبی تعاون اور اعتماد پایاجاتا ہے ان میں بلاشبہ عوامی جمہوریہ چین سرِفہرست ہے۔ ان قریبی تعلقات کا ایک نمایاں پہلو دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطح پر کثرت سے سرکاری وفود کے تبادلے اور اعلیٰ ترین قیادت کے دورے بھی ہیں۔ صدر ممنون حسین کا چار روزہ دورۂ چین اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس سے پہلے جولائی کے اوائل میں وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی چین کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسی طرح مئی میں جب چینی وزیراعظم لی کیانگ بھارت سے ہوکر پاکستان تشریف لائے تھے تو نومبر 2012ء میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ اْن کا پہلا بیرونی دورہ تھا۔
دوروں کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ 1963ء میں پاک چین دوستی کے قیام کے بعد پاکستان یا چین کا شاید ہی کوئی صدر یا وزیراعظم ایسا ہو جس نے ایک دوسرے کے ملک کا دورہ نہ کیا ہو، لیکن جو بات نئی ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی، سفارتی اور دفاعی شعبے میں قریبی تعاون کے ساتھ ساتھ اب دونوں ملکوں نے اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔ اس میں دوطرفہ تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، زراعت، انفراسٹرکچر، آبی ذخائر کی تعمیر اور دیگر شعبے شامل ہیں۔ صدر ممنوں حسین کے دورۂ چین کے دوران میں جن شعبوں میں پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کے لیے دستخط کیے گئے ہیں ان میں ان شعبوں کے علاوہ گوادر میں ایک نئے ایئرپورٹ کی تعمیر اور شاہراہ قراقرم کی کشادگی بھی شامل ہے؛ تاہم چین کی مدد سے توانائی کے بحران پر قابو پانے اور گوادر اور کاشغر کے درمیان 2000 کلومیٹر طویل تجارتی شاہراہ کی تعمیر کو اولین ترجیح دی جارہی ہے۔ اس شاہراہ کے ساتھ ساتھ بعد میں ریلوے لائن اور آئل پائپ لائن بھی تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبے اگر پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں تو ان سے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ پورے خطے کے عوام کو زبردست فائدہ پہنچے گا۔
اس کے لیے چین کو نہ صرف توانائی اور خام مال کی ضرورت ہے بلکہ تیار شْدہ مصنوعات کی برآمد کے لیے بیرونی منڈیاں بھی درکار ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ اس میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ غالباًََ اسی وجہ سے گزشتہ سال گوادر کی بندرگاہ کا انتظام وانصرام چین کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ بندرگاہ چین کی فنی اور مالی امداد سے تیار کی گئی تھی اور اب اسے مزیدگہرا اور وسیع کرنے کا کام بھی چین کو سونپا گیا ہے۔ گوادر اور سنکیانگ کے درمیان مجوزہ شاہراہ کے ساتھ ساتھ بچھائی جانے والی آئل پائپ لائن سے ایران کا تیل چین تک کم مدت میں اور کم لاگت کے ساتھ پہنچ سکتا ہے۔ اس وقت پانچ لاکھ چونسٹھ ہزار پانچ سو چھتیس بیرل یومیہ کے ساتھ چین ایران سے تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اندازہ ہے کہ ایران
سے چین کے درآمدی تیل کی مقدار میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کا براہ راست فائدہ ایران کو ہوگا کیونکہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے اس پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں، اْن کی وجہ سے اس کی تیل کی برآمدات آدھے سے بھی کم رہ گئیں تھیں جس کی وجہ سے ایرانی معیشت سخت دبائو میں ہے۔ اب جبکہ ایٹمی مسئلے پر بھی ایران اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی واقع ہو رہی ہے اور ایران پر عائد شدہ پابندیوں کو نرم کیا جا رہا ہے تو ایران کے تیل کی برآمدات میں اضافہ متوقع ہے۔ چین اور بھارت اس کے سب سے بڑے گاہک ہیں، لہٰذا چین اور پاکستان کے درمیان اکنامک کوریڈورکی تعمیر سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں زبردست اضافہ ہوگا بلکہ اس سے پورے علاقے کا معاشی، سیاسی اور سماجی جغرافیہ بدل جائے گا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان ترقیاتی شعبوں میں تعاون کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے خصوصاً تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں وسیع تعاون کے امکانات موجود ہیں۔ اس وقت دونوں ملکوں میں دوطرفہ تجارت کا کل حجم 12ارب ڈالر ہے لیکن یہ زیادہ چین کی پاکستان کو برآمدات پر مشتمل ہے۔ دونوں ملک اس عدم توازن کو دور کرنے کی کوشش کر رہے۔ اس کا علاج دونوں ملکوں نے یہ نکالا ہے کہ چین پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا اور اس طرح جو مصنوعات تیار ہوں گی یا پیداوار حاصل ہوگی اْسے چین کو برآمد کیا جائے گا۔ اس طرح دونوں ملکوں میں نہ صرف دوطرفہ تجارت کے حجم میں اضافہ ہوگا بلکہ تجارت کا توازن بھی پاکستان کے حق میں ہوجائے گا۔ لیکن پاکستان اور چین کے درمیان وسیع تر تجارتی اور اقتصادی تعاون کا خواب صرف اْس صورت پورا ہو سکتا ہے جب تین اہم امور کی طرف بھرپور توجہ دی جائے گی۔
اولاً جن معاہدات پر دستخط کیے گئے ہیں، ضروری ہے کہ اْن پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران میں چین اور پاکستان کے درمیان کھربوں ڈالر کے درجنوں معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کی رفتار بہت سْست رہی، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاشی تعاون کو فروغ دینے کے منصوبے ابھی کاغذ تک ہی محدود
ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ان منصوبوں میں سے 20فیصد پر بھی عمل درآمد ہو جاتا ہے تو پاکستان کا اقتصادی جغرافیہ بالکل مختلف ہوگا۔ منصوبوں پر عمل درآمد کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی رکاوٹ امن وامان اور سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ چینی حکام نے پاکستانی حکام کو بارہا اس مسئلے کی طرف توجہ دینے پر زور دیا ہے۔ خود حکومتِ پاکستان بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔ امن و امان اور سکیورٹی کی صورتِ حال کو بہتر بنانے اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے داخلی سلامتی سے متعلق طویل المیعاد حکمتِ عملی کا ایک منصوبہ کابینہ میں پیش کیا ہے۔ عنقریب اسے حتمی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں بھی پیش کیا جائے گا ۔ اْمید ہے کہ اس سے قومی سلامتی میں ایک عرصے سے چلے آنے والے خلا کو پْر کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعاون کو بارآوربنانے کے لیے تیسرا ضروری قدم عوام کی سطح پر رابطوں میں اضافہ اور پاکستانی تاجروں اور کاروباری لوگوں کے لیے چین کے معاشی اور مالیاتی نظام سے آگاہی کے ساتھ ساتھ چینی مارکیٹ کے محرکات کا علم بھی بہت ضروری ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں بھی ابتدائی اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے لیکن انہیں مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کے ساتھ کامیاب اور بارآور تعاون کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی علاقائی اور عالمی حکمتِ عملی کو بھی امن، تعاون، دوستی اور خیرسگالی کی بنیاد پر قائم کرے۔