شام کے بارے میں پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے متعلق گزشتہ چند روز سے ملکی ذرائع ابلاغ میں جو خبریں اور قیاس آرائیاں سامنے آ رہی تھیں‘ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مسترد کرتے ہوئے اْنہیں بے بنیاد قرار دیا ہے۔ان خبروں کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی میں ملوث ایک فریق یعنی اپوزیشن کو سعودی عرب کی درخواست پر پاکستانی ہتھیارفراہم کیے جارہے ہیں۔ان ہتھیاروں میں کندھے پہ رکھ کرچلانے والے (Shoulder Fired)اینٹی ایئر کرافٹ راکٹ اور ٹینک شکن میزائل شامل ہیں ۔ یہ خبر سب سے پہلے بیرونی میڈیا میں فرانس کی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے چھپی تھی، جسے پاکستانی میڈیا نے بھی تفصیلی تبصروں کے ساتھ نشر کیا۔اس سے قبل امریکہ کے جریدے ''فارن پالیسی‘‘ میں بھی ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کی درخواست پر پاکستان‘ صدر بشارالاسد کے خلاف برسرپیکار اپوزیشن کے مسلح دستوں کو عسکری تربیت دینے پر راضی ہوگیا ہے۔دونوں ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں اعلیٰ سطح کے جن وفود کا تبادلہ ہوا ہے، وہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ان تبادلوں میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل اور ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کا دورہ پاکستان اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا دورہ سعودی عرب شامل ہیں ۔ سعودی وزیرخارجہ اور ولی عہد کے دوروں کے موقعہ پر دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کو مضبوط اور وسیع کرنے کی غرض سے جو مشترکہ اعلامیے جاری کیے اْن میں بھی دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون پر جس انداز سے زور دیاگیا ہے اس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے۔ شام میں جاری خونریز خانہ جنگی چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہے اور اب تک اس میں ڈیڑھ
لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ نے اس جنگ کو بند کروانے کے لاکھ جتن کیے اور اس مقصد کے لیے الاخضر براہیمی کو خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا لیکن ایک تجربہ کار سفارتکار ہونے کے باوجود اْن کی کوششیں رائگاں گئیں۔گزشتہ ہفتے جنیوا میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے نمائندوں اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا جو دوسرا دور شروع ہوا تھا وہ بے نتیجہ رہا اور فریقین قیام امن کے کسی فا رمولے پر متفق نہ ہو سکے۔ اس سے جنگ میں تیزی آ چکی ہے اور فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کی بھرپو ر کو شش کر رہے ہیں ، لیکن اس لڑائی میں صدر اسد کاپلہ بھاری ہے ۔ اس کی دووجوہات ہیں ، ایک تو یہ کہ اپوزیشن بٹی ہوئی ہے اور اْس میں طرح طرح کے لوگ شامل ہیں‘ جو محض اس لیے میدان میں کْود پڑے ہیں کہ اس سے شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا مقصود ہے۔اپوزیشن کی ناکامی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نے شروع سے ہی بیرونی عناصر کی امداد کا سہارا لیا۔ پہلے اسے امریکہ کی امداد خصوصاً سرکاری فوجوں کے ٹھکانوں پر امریکی فضائی حملوں کی اْمید تھی۔اب ایک طرف سعودی عرب،اْردن،قطر،متحدہ عرب امارات اور تْرکی کے اشتراک ِعمل سے وجود میں آنے والے ایک غیر اعلان شْدہ اتحاد کی طرف سے مددمل رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان کو بھی اس خانہ جنگی میں گھسیٹا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت اور دنیا کی چھٹی بڑی فوج کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں سرکاری فوجوں کے ساتھ مل کر تامل باغیوں کو شکست دینے میں پاکستان نے جو تجربہ اور شہرت حاصل کی اْس کی وجہ سے بھی پاکستان کی ریٹنگ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
لیکن اس سمت کوئی قدم اْٹھانے سے پہلے پاکستان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ شام کی خانہ جنگی محض مقامی یا علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے بین الاقوامی سطح پر دوبڑی طاقتوں یعنی رْوس اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی سے بھی ملتے ہیں۔اس کا سبب شام کا مخصوص جغرافیائی محلِ وقوع اور مشرقِ وسطیٰ کی جدید تاریخ میں اس کا اہم کردار ہے۔امریکہ کے سابق وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ مصر اور امن شام کے بغیر ممکن نہیں۔ شام اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور جنگ کا خطرہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ اور عدمِ استحکام کا سب سے بڑا سبب ثابت ہوسکتا ہے۔ جون1967ء میں تیسری عرب اسرائیل جنگ شام اور اسرائیل کے درمیان شدید کشیدگی کے باعث ہی شروع ہوئی تھی۔اب بھی گولان پر اسرائیل کے مستقل قبضے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تصادم کا ہروقت خطرہ موجود رہتا ہے ،اس لیے شام میں صدراسد کی حکومت کا تختہ اْلٹنے سے جو ملک سب سے زیادہ خوش ہوگا وہ یقیناً اسرائیل ہے۔ صدراسد حکومت کی مخالفت میں اسرائیل اس حد تک آگے جاچکا ہے کہ اْس نے شام کی اپوزیشن سے بھی رابطہ قائم کر رکھا ہے ، لیکن صدراسد کی مخالفت اور اْن کے خلاف لڑنے والی اپوزیشن کو امداد فراہم کرنے میں اصل کردار سعودی عرب ادا کررہا ہے۔ سعودی عرب نے اس کوشش میں قطر،اْردن اور متحدہ عرب امارات کو ساتھ ملایا ہے،اب وہ پاکستان سے بھی اپوزیشن کے لیے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے ؛ بلکہ سعودی عرب نے مصر کو بھی اس میں براہ راست ملوث کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔اس مقصد کے لیے سعودی وزیرداخلہ اور انسدادِ دہشت گردی مہم کے انچارج شہزادہ محمد بن نائف نے گزشتہ دنوں مصر کا دورہ کیا تھا ، اطلاعات کے مطابق مصری حکام نے تعاون پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔
دراصل شام میں خانہ جنگی محض صدر بشار الاسد اور اْن کے مخالفین کی آپس میںلڑائی نہیں ہے،بلکہ اس میں علاقائی سطح پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی اور تہذیبی مسابقت اور محاذ آرائی بھی شامل ہے اور عالمی سطح پر امریکہ اور رْوس سرد جنگ کے دوسرے دور کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ سعودی عرب کو ڈر ہے کہ ایران کی مدد سے صدراسدکی کامیابی سے مشرقِ وسطیٰ کے ایک اہم خطے یعنی عراق‘ شام اور ملحقہ علاقے ہی نہیں بلکہ خلیج فارس میں ایران کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوگاکیونکہ عراق میں پہلے ہی ایران کی حامی حکومت قائم ہے اور ایٹمی سمجھوتہ ہونے کے بعد جس تیزی سے ایران کے تعلقات امریکہ اور مغربی دنیا سے بہتر ہورہے ہیں،اْس سے ایران کی پوزیشن اور بھی مضبوط ہوجائے گی۔اسی صورت میں مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں سعودی عرب کو جو ممتاز مقام حاصل تھا، وہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ شام میں ایران کے حمایت یافتہ صدر بشارالاسد کی کامیابی سے نہ صرف عراق میں موجودہ حکومت کے قدم مضبوط ہونگے بلکہ بحرین اور سعودی عرب کے مشرقی حصے میں شیعہ آبادی بھی اپنے حقوق کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم ہوسکتی ہے۔
اس لیے شام میں اس وقت پراکسی وار لڑی جارہی ہے جس میں اصل سٹیک ہولڈرز کا تعلق شام سے نہیں بلکہ باہر سے ہے۔ اس میں وہ عناصر بھی شامل ہیںجو صدر بشارالاسد کی سیکولر حکومت کا تختہ اْلٹ کر بنیاد پرست حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور ایسی طاقتیں بھی ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر ایران،شام،عراق اور حزب اللہ پر مشتمل سیاسی اتحاد کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور آزمائش بھی۔ایک طرف عرب ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ ہمارے پْرانے اور قریبی تعلقات ہیں اور دوسری طرف ایک پرائے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خطرات ہیں ۔ خلیجی ممالک کے ساتھ ہمارے عسکری تعلقات بھی عرصے سے چلے آرہے ہیں۔ پاکستان نے عرب ممالک کی افواج اور داخلہ سکیورٹی پر مامور دستوں کی تربیت کے لیے ان ممالک میں ملٹری مشن قائم کررکھے ہیں ، لیکن ان تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔ پاکستان کے یہ فوجی مشن اور ان کے ذریعے عسکری تربیت کا اہتمام دوطرفہ معاہدوں کی بنیاد پر کیاگیا ہے جو بین الاقوامی تعاون کے لیے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے عین مطابق ہے ، لیکن شام کے باغیوں کو ہتھیار وں کی فراہمی یا عسکری تربیت بالکل مختلف مسئلہ ہے۔اگر پاکستان اس سمت کوئی قدم اْٹھاتا ہے تو یہ شام کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہوگی۔اس کا مطلب مشرقِ وسطیٰ میں جاری محاذ آرائی میں ایک دھڑے کے مقابلے میں دوسرے دھڑے کاساتھ دینا ہوگا جوکسی بھی لحاظ سے پاکستان کے قومی مفاد کے حق میں نہیں ، اس لیے حکومت کو اس سے ہرقیمت پر اجتناب کرنا چاہیے۔