ابھی وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے فخریہ بیان کے یہ الفاظ ہوا میں ہی گونج رہے تھے کہ جب سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔ ملک میں دہشت گردی یا خود کْش حملے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو کہ 9اپریل کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان بائونڈری لائن پر واقع فروٹ اور ویجی ٹیبل مارکیٹ میں بم دھماکہ ہوگیا۔24معصوم شہری شہید اور120سے زائد شدید زخمی ہوئے۔اس بم دھماکے سے وزیرداخلہ چودھری نثار کا یہ دعوی دھرے کا دھرا رہ گیا کہ وہ طالبان کو گفت وشُنید کی میز پر لاکر ملک میں اور خاص طور پر اسلام آباد کے علاقے میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔لوگ پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیسا امن ہے؟بڑی منت سماجت اور تعریفوں کے پْل باندھنے اور حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے کے بعد حکومت طالبان کو بات چیت پر آمادہ کرنے میں کامیاب تو ہوگئی لیکن جس امن کی تلاش تھی وہ کہیں نظر نہیں آتا۔سبزی اور پھلوں کی منڈی میں دھماکے سے صرف ایک روزقبل بلوچستان میں سبی کے ریلوے سٹیشن پر جعفر ایکسپریس کی ایک بوگی میں بم دھماکے سے17افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ اندرونِ سندھ بھی تشدد کی ایک نئی لہرجنم لے چکی ہے۔اگروفاقی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی بلیک میلنگ سے مجبور ہوکر نام نہاد امن مذاکرات سے ملک کو دہشت گردی اور تشدد سے پاک کیا جاسکتا ہے تو راولپنڈی کا یہ بم دھماکہ اور کراچی،بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات حکومت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔
اسلام آباد سبزی منڈی بم دھماکے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس دفعہ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ اس واقعہ کے ساتھ طالبان نے سبی کے ریلوے سٹیشن پر جعفر ایکسپریس کی بوگی میں ہونے والے بم دھماکے کی بھی مذمت کی ہے۔اور ان دونوں واقعات میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کو اسلام کے منافی قرار دیا ہے۔البتہ ایک گْم نام اور نئی تنظیم ''یونائیٹڈ بلوچ آرمی‘‘نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس سے قبل یہی تنظیم جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری کا اعلان کر چکی ہے۔اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اْس نے دہشت گردی کی ان دونوں کاروائیوں کا ارتکاب سوموار یعنی7اپریل کو بلوچستان کے خضدار اور قلات کے علاقوں میں ایف سی کی کاروائی کے خلاف ردِعمل کے طور پر کیا ہے۔اس آپریشن میں ایف سی نے 30اور40کے قریب بلوچ ''شرپسندوں‘‘کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔اس آپریشن کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی قیادت ایف سی کے انسپکٹر جنرل،میجر جنرل اعجاز شاہد خود کر رہے تھے۔ایف سی کے ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے جنگجوئوں کا تعلق کالعدم بلوچ ری پبلکن آرمی اور بلوچ لبریشن آرمی سے تھا اور وہ ٹارگٹ، کلنگ،اغواء برائے تاوان،سکیورٹی فورسز پر حملوں اور دیگر تخریبی کاروائیوں میں ملوث تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن کالعدم بلوچ تنظیموں کے ارکان کے خلاف کارروائی کا دعویٰ کیا گیا ہے،اُن میں سے کسی نے بھی راولپنڈی اسلام آبادسبزی منڈی کے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔بلکہ ایک نئی تنظیم ''یونائیٹڈ بلوچ آرمی‘‘کے نام سے سامنے آئی ہے۔تاہم ذمہ دار حلقوں میں جن میں وزارتِ داخلہ بھی شامل ہے،اس بلوچ تنظیم کے دعوے پر یقین ظاہر نہیں کیا جارہا۔یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ دہشت گردی کی اس واردات کے پیچھے کالعدم تحریک طالبان کے کسی ناراض دھڑے کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کے عمل کا مخالف ہو۔یہ قیاس آرائی کسی حد تک صداقت پر اس لیے مبنی نظر آتی ہے کہ ماضی میں بھی طالبان کے ایک دھڑے نے مرکزی قیادت کی واضح ہدایات کے برعکس دہشت گردی کی وارداتوں کا ارتکاب کیا تھا اور کھلے عام اعلان کیا تھا کہ وہ حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات سے متفق نہیں،بلکہ اسے اسلام کے منافی سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ صرف تحریک طالبان پاکستان میں ہی اس مسئلے پر اختلافات نہیں بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں ''فاٹا‘‘میں سرگرم عمل طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی ہے۔اور فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر مسلح حملے جاری ہیں۔ان حملوں میں شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔جن میں طالبان کے اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔اس لیے اسلام آباد سبزی منڈی میں بم دھماکے میں طالبان کے کسی ایک دھڑے کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ جنگ بندی کو نہ صرف مسترد کرتا ہو بلکہ سرے سے ہی بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کے خلاف ہو۔
اگر یہ بات درست ہے تو ہمارے سامنے دہشت گردی کے مسئلے کا ایک اور خطر ناک پہلو آکھڑا ہوتا ہے جسے غالباً حکومت نے دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی میں ابھی تک کوئی جگہ نہیں دی۔حکومت کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ صرف تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ گفت و شْنید کی میز پر بیٹھ کر اور اس کی ہر جائز اور ناجائز شرط تسلیم کر کے نہ تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملک میں دیرپا اور مستقل بنیادوں پر امن استوار کیا جاسکتا ہے۔اس کیلئے حکومت کو دہشت گردی کے مسئلے کو ایک وسیع تر تناظر میں رکھ کر ایک مکمل اور جامع حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی۔اس حکمتِ عملی میں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گردی صرف نائن الیون کے واقعہ اور افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی،ڈرون حملوں یا مشرف کی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔سب سے بڑھ کرایک مسلسل،جامع او رثابت قدمی کے ساتھ ساتھ وضع کردہ پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔