برطانوی سراغ رساں ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ نے ایم کیو ایم کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے مبینہ قاتلوں کے نام اور خاکے جاری کیے ہیںاور ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اْن کی اطلاع کے مطابق یہ دونوں ملزم پاکستان میں ہیں۔ان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے برطانوی حکام پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔قتل یا دہشت گردی جیسے جرائم کے مرتکب افراد کے پاکستان میں پائے جانے کے بارے میں یہ واحد یاپہلا الزام نہیں ہے اس کے علاوہ بھی اس ضمن میں کئی افراد کے نام لیے جاتے رہے ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟تشدد اور دہشت گردی نہ تو ہماری تاریخ کا حصہ ہے اور نہ ہی ہمارا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔ہماری دھرتی تو رحمان بابا،میاں محمد بخش،شاہ حسین،سلطان باہو،بْلھے شاہ،شہبازقلندر اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کے صلح کْن اور محبت بھرے کلام سے گونجتی ہے۔پھر پاکستان پر دہشت گردوں اور قاتلوں کی پناہ گاہ ہونے کا الزام کیوں عائد کیا جاتا ہے۔کیایہ پاکستان دْشمن حلقوں کی سوچی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد ملک کو بدنام کرنا ہے یا کیا واقعی ہم اپنے گردوپیش سے اتنے بے خبر ہیں یا بعض وجوہ کی بنا پر بے بس ہیں کہ یہاں جو بھی آئے اور جہا ں سے بھی آئے، بلاخوف و خطر اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے اور اپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں آزاد ہے۔نہ تو ان کیلئے سرحدوں پر روک تھام کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی ملک میں ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔نتیجہ کے طور پرقوم کو مختلف الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دنیا میں پاکستان کی پہچان بطوردہشت گردی کے مرکز (Epi-Centre of Terrorism)قائم کی جارہی ہے۔مثلاً ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو یقین ہے کہ1990ء کی دہائی میں ممبئی میں بم دھماکوں میں ملوث دائود ابراہیم نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔
مئی2011ء سے قبل جب غیر ملکی میڈیا میں چھپنے والی اطلاعات میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد اْسامہ بن لادن پاکستان میں چھپا ہوا ہے تو سرکاری حلقوں کی طرف سے پْر زور تردید کی جاتی تھی۔سابق فوجی آمر پرویز مشرف کا تو یہ دعویٰ تھا کہ اْسامہ بن لادن گردوں کے مرض میں مبتلا ہوکر اس جہانِ فانی سے رْخصت ہوچکا ہے اور اس سلسلے میں کہا کرتے تھے کہ اْسامہ کی طبعی موت کا اْنہیں سو فیصد نہیں بلکہ چار سو فیصد یقین ہے۔ پھر اچانک ایبٹ آباد میں امریکہ کے کمانڈو آپریشن کی خبر آتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اْسامہ تقریباََ9سال سے پاکستان میں مقیم تھا،پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں سویلین اور ملٹری قیادت اس سے آگاہ نہ تھی۔افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کے بارے میں افغان اور امریکی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں موجودہے لیکن ہمارا دوٹوک جواب یہ ہے کہ ملا عمر پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان کے اندر کسی مقام سے افغان طالبان کی کمان کررہے ہیں۔
سب سے تشویش ناک وہ اطلاعات ہیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیرستان میں غیر ملکی جنگجوئوں کی موجودگی اور اْن کی سرگرمیوںکے بارے میں موصول ہورہی ہیں،لیکن جب پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور اہم ٹھکانوں پر پاکستانی طالبان کے حملوں میںغیر ملکی جنگجوئوں کی موجودگی بھی پائی گئی تو حکام نے پہلی مرتبہ معاملے کی نزاکت کو محسوس کیا۔ غیر ملکی جنگجوئوں میں سب سے زیادہ ذکر اْزبک جنگجوئوں کا کیا جاتا تھا جن کے بارے میں ابتدائی طور پر صرف یہ معلوم تھا کہ وہ القاعدہ کے حلیف ہیں اور افغان طالبان کے ساتھ مل کر امریکی اور نیٹو افواج پر حملے کرتے ہیں۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اْزبک جنگجو ازبکستان کی اسلامی تحریک کے اراکین ہیںجو ازبکستان میں حکومت مخالف کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔اسی طرح قبائلی علاقوں میں موجود غیر ملکی جنگجوئوں میںچیچنیا سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی موجود ہیں۔چیچنیا مسلم اکثریت کا حامل،روس کا ایک حصہ ہے جہاں گزشتہ ایک دہائی سے روس سے علیحدگی کی تحریک جاری ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے خلاف سرگرمِ عمل جنگجوئوں کی موجودگی کو پاکستان کی سرزمین پر نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ اْنہیں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی تمام سہولتیں حاصل ہیں۔
دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اگر پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہوسکے تو اْس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی سرزمین پر ان جنگجوئوں کی موجودگی اور اْنہیں اپنی کاروائیاں جاری رکھنے کی کھلی چھٹی ہے۔
اس ضمن میں چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ میں گزشتہ کئی برس سے علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔چینی حکام کا الزام ہے کہ یہ علیحدگی پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کر کے گلگت بلتستان کے ساتھ ملنے والی چینی سرحد کو عبور کر کے سنکیانگ میں داخل ہوتے ہیں۔ایک سال قبل جب چینی وزیراعظم پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر خصوصی بات چیت ہوئی تھی۔چین کی طرف سے پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے ان تربیتی اڈوں کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ پاک چین سرحد پر بھی کنٹرول سخت کرے۔چنانچہ دونوں ملکوں میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت شمال میں پاک چین بارڈر پر کنٹرول مینجمنٹ کا ایک نظام قائم کرنے پر اتفاق کیاگیا تھا۔دونوں ملکوں نے سرحد کے آرپار آمدورفت پر کڑی نگاہ رکھنے کیلئے سرحدی چوکیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سے مشترکہ طور پر سرحدی آمدورفت پر نگاہ رکھی جائے گی۔لیکن سنکیانگ میں تشدد آمیز کارروائیاں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔چند دن پیشتر صوبائی دارلحکومت اْرمچی میں پانچ خود کْش حملوں کے نتیجے میں31افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔چینی حکام نے کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے دو درجن گروپوں کے ارکان کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔جن سے اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ان معلومات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سنکیانگ میں دہشت گردی میں ملوث ''ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ(ETIM) ‘‘نے پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اڈے قائم کررکھے ہیں جہاں سے وہ تربیت حاصل کرکے سنکیانگ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔
کچھ ذرائع کے مطابق 21مئی کو شمالی وزیرستان میں جنگجوئوں کے جن ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا کر تباہ کر دیا تھا اْن میں ETIMاور اْزبکستان کے جنگجوئوں کی پناہ گاہیں بھی شامل تھیں۔ان فضائی حملوں میں پاکستان میں مقیم غیرملکی جنگجوئوں کے ٹھکانوں کو یقینا نقصان پہنچا ہوگا لیکن مسئلے کے دیر پا اور مستقل حل کیلئے ہمیں ان کے بارے میں واضح اور دوٹوک پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔