"DRA" (space) message & send to 7575

بدلتی سیاسی صورتِ حال

جون کے آغاز کے ساتھ ہی وفاقی حکومت نے اگلے ما لی سال کیلئے قومی اسمبلی میں اپنا دوسرا بجٹ پیش کر دیا۔اس پر بحث جاری ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اسے منظور کروانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔اسی طرح پنجاب ‘سندھ اور خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومتیں اپنا اپنا بجٹ پیش کر چکی ہیں اور اْمید ہے کہ آئندہ چند دنوں میں بلوچستان حکومت بھی اپنا بجٹ پیش کردے گی۔
پارلیمانی جمہوریت میں کسی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں فنانس بل یا بجٹ کو پیش کرنا اور اْسے کامیابی سے منظور کروالینا،حکومت پر اسمبلی کے اعتماد کا ہی مظہر نہیں ہوتا بلکہ ملک میں سیاسی استحکام کا بھی عکاس سمجھا جاتا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مرکزاور چاروں صوبوں میں تو اِن ہائوس سیاسی تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور نہ پارلیمنٹ سے باہر کسی ایسی سیاسی بے چینی،خلفشار یا بحران کے اشارے ملتے ہیں جن کی روشنی میں ملک میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی یا دیگر الفاظ میں حکومت کی رخصتی کو ناگزیر سمجھاجائے۔لیکن گزشتہ تقریباًایک ماہ سے ملک میں افواہوں،تبصروں اور پیشین گوئیوں کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے کہ موجودہ سیاسی سیٹ اَپ جو مئی2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوا تھا، دھڑام سے نیچے گرنے والا ہے ۔ لوگوں کو باور کروایا جارہا ہے کہ حکومت کی بس چْھٹی ہونے والی ہے۔ان افواہوں اور قیاس آرائیوں کی بنیاد ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ریلیوں اور احتجاجی جلسوں کا سلسلہ ہے اور دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ(ق)اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے درمیان سیاسی اتحاد کا 10نکات پر مشتمل ایک چارٹر آف ڈیمانڈ ہے۔ تیسری طرف عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رْکن شیخ رشید احمد کے بیانات ہیں جن میں اْنہوں نے آئندہ تین ماہ کے اندر پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومت کے خاتمہ کی پیشین گوئی کی ہے ۔یہ حکومت کیسے ختم ہوگی؟اس سوال کا شیخ صاحب نے مختلف مواقع پر مختلف جواب دیا ہے۔پہلے وہ سمجھتے تھے کہ تحریک انصاف اور اْن کی کال پر لوگ باہر سڑکوں پر آکر حکمرانوں کو زبردستی ایوانِ اقتدار سے بے دخل کردیں گے لیکن جب عوام نے اْن کی اپیلوں پر کان نہ دھرا اور نہ اْن کی دلیلوں سے متاثر ہوئے تو وہ حالیہ دنوں میں حکومت اور اداروںکے درمیان تنائو کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے۔اْن کا استدلال ہے کہ یہ تنائو ابھی جاری ہے اور فریقین میں پْر امن بقائے باہمی کا کوئی امکان نہیں۔لیکن شیخ صاحب بھول جاتے ہیں کہ اندرونی اور علاقائی سطح پر حالات اتنی تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو لازماً ایک ہی صف میں کھڑا ہونا پڑے گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنی احتجاجی تحریک کاآغاز 11مئی کو اسلام آباد میں ایک ریلی سے کیاتھا۔اس کے بعد اْس نے اِس قسم کی ریلی فیصل آباد اور سیالکوٹ میں بھی نکالی ہے اور اسی ماہ کے تیسرے ہفتہ میں ویسی ہی ریلی بہاولپور میں نکالنے کا اعلان کیا گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ان جلسوں میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ہے۔حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے اْمیدواروں کے حق میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد سے ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف ایک اہم سیاسی قوت بن کر اْبھری ہے اور اْس نے صوبے میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ لے لی ہے۔اس کے باوجود اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ پنجاب میں اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی کے باوجود،عمران خان صوبے کے مختلف شہروں میں جلسے منعقد کر کے وفاقی حکومت کے خلاف کسی بڑی تحریک کا آغاز کرسکتے ہیں یا ایسے حالات پیدا کر سکتے ہیں کہ ملک میں مڈٹرم انتخابات ناگزیر ہوجائیں۔اس کی تین بڑی وجوہ ہیں۔اول:عمران خان نے اپنی تقاریر میں خود کہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو عدم استحکام کا شکار نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی مڈٹرم الیکشن چاہتے ہیں۔وہ صرف انصاف چاہتے ہیں جس سے اْن کی مراد قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے ذریعے چھان بین ہے کیونکہ اْن کا دعویٰ ہے کہ ان حلقوں میں تحریک انصاف کے اْمیدواروں کو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا ہے۔بہت سے مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے میں عمران خان کا اصل ٹارگٹ مڈٹرم انتخابات ہیں۔اس وقت وہ اس کا اعلان اس لیے نہیں کرتے کہ اْنہیں دوسری سیاسی پارٹیوں سے حمایت کی توقع نہیں۔لیکن ان چارحلقوں میں مبینہ دھاندلی کے ثبوت پکے کرنے کے بعد وہ تمام انتخابی عمل کو مشکوک قرار دے کر مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ پیش کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔
لیکن عمران خان کے ارادے کی تکمیل کے راستے میں ایک اہم اور دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ اس وقت ملک کی کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی مڈٹرم انتخابات کے حق میں نہیں۔قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد کے اعتبار سے حکمران پاکستان مسلم لیگ(ن)کے بعد سب سے بڑی سیاسی پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔حتیٰ کہ تحریک انصاف کی حلیف جماعت اور صوبہ خیبر پختون خوا میں صوبائی حکومت میں اْس کے ساتھ شریک جماعت اسلامی نے بھی تحریک انصاف اور عمران خان کے پروگرام سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا ہے۔جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر اور صوبہ پختون خوا کی مخلوط حکومت میں سینئر وزیرسراج الحق نے اپنے ایک حالیہ بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ جماعتِ اسلامی حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک میں شامل نہیںہوگی۔بلکہ اْن کے خیال میںموجودہ حکومت کو اْس کی پوری پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
تیسرے پاکستان مسلم لیگ(ق)اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک عمران خان کا دست و بازو نہیں بن سکتیں۔خان صاحب کو بھی اس بات کا علم ہے اسی لیے اْنہوں نے اعلان لندن میں شرکت سے احتراز کیا تھا لیکن چونکہ ٹارگٹ مشترک ہے یعنی پاکستان مسلم (ن)کی حکومت کو گرانا اس لیے خان صاحب ان سے زیادہ دور بھی نہیں رہتے۔جہاں تک ان دونوں سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے ،ق لیگ کی قوت کا اندازہ اْس کی گزشتہ انتخابات میں پرفارمنس سے لگایا جاسکتا ہے اور جہاں تک پاکستان عوامی تحریک کا تعلق ہے،اْس نے تو انتخابات میں حصہ ہی نہی لیا تھا کیونکہ ماضی کی طرح مئی کے انتخابات میں بھی اس پارٹی کو ووٹ ملنے کی بہت کم اْمید تھی۔ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن)کی پوزیشن مضبوط ہے۔اس کا ثبوت حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کی صورت میں موجود ہے۔یہ صحیح ہے کہ مسائل موجود ہیں اورمتعدد شعبوں میں حکومت کی کوتاہیاںنمایاں ہیں ان کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا اور حکومت کی عدم توجہی یا سْست روی کو ہدفِ تنقید بنانا اپوزیشن کا حق ہی نہیں بلکہ فرض ہے لیکن آج تک کوئی حکومت ایسی نہیں گزری جسے اپنی کوتاہیوں اور بے عملی کے باعث اپوزیشن کی تنقید کے وار نہ سہنے پڑے ہوں۔لیکن اس کا کوئی جواز نہیں کہ حکومت کو موقع دیئے بغیر اس کے خاتمے کا بغل بجادیا جائے۔لیکن اگر ایسا ہو رہا ہے تو کہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کچھ قوتوں کو مستحکم سیاسی حکومتیں محض اس لیے قبول نہیں کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق ملک کو نئی نہج پر چلانا چاہتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں