جوں جوں 14اگست کی تاریخ قریب آ رہی ہے ،تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے ''آزادی مارچ‘‘اور اسلام آباد کے ڈی چوک میں 10لاکھ افراد کے اجتماع کی کال مختلف حلقوں میں زیر بحث آ رہی ہے۔سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یہ اجتماع اور احتجاجی جلسہ قاہرہ کا تحریر سکوائر بن سکتا ہے؟جس کے نتیجے میں آج سے ساڑھے تین سال قبل مصر کے صدر حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔عمران خان کے قریبی اتحادیوں یعنی راولپنڈی کے شیخ رشید اور گجرات کے چودھریوں کو تو اس میں کوئی شبہ نہیں بلکہ انہوں نے تو اس سلسلے میں باقاعدہ ڈیڈ لائنز دے رکھی ہیں‘لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا انحصار تین باتوں پر ہے۔اسلام آباد کے اجتماع کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیسے ہینڈل کرتی ہے‘ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلابی دستے عمران خان کے متوالوں کے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں یا نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج کا ردعمل کیا ہو گا۔
غور سے جائزہ لیا جائے تو مذکورہ بالا تینوں صورتوں کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔جہاں تک وفاقی حکومت کا تعلق ہے اس نے سیاسی اور انتظامی‘ دونوں محاذوں پر عمران خان کے ''آزادی مارچ‘‘کا توڑ نکالنے کی کوشش کی ہے۔اگرچہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ ان کے لیے کافی پریشان کن ہے‘ خصوصاً ایسے موقع پر جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی قومی اسمبلی کے چار انتخابی حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی حمایت کی ہے؛ تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے بڑھا کر انہیں عمران خان کی تحریک کی حمایت سے دور کر دیا ہے‘ حتیٰ کہ جماعت اسلامی‘ جو صوبہ خیبر پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی حلیف جماعت ہے‘ عمران خان کے مڈٹرم الیکشن کے مطالبے کی حمایت سے ہچکچارہی ہے۔ اس کے امیر سراج الحق واضح طور پر اعلان کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت اس موقف کی حامی ہے کہ موجودہ حکومت کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنی چاہیے۔عمران خان کا ابتدا میں سب سے بڑا مطالبہ انتخابی عمل کو صاف اور شفاف بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات کا نفاذ تھا۔اس سلسلے میں حکومت نے جس 33رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا تھا ،اس کے لیے قومی اسمبلی سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کے نام سپیکر قومی اسمبلی کو موصول ہو چکے ہیں۔امید ہے جلد سینیٹ سے بھی ارکان کی حتمی فہرست تیار ہو جائے گی۔پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل مکمل ہونے سے عمران خان کا ایک اہم مطالبہ پورا ہو جائے گا اور اس سے موجودہ صورت حال کے بارے میں حکومت کے موقف کو تقویت حاصل ہو گی۔
جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کا عمران خان کے احتجاجی جلسے میں شرکت کا سوال ہے تو اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔اس کی وجہ دونوں میں موجود نظریاتی بُعد ہے۔ علامہ طاہر القادری موجودہ سیٹ اپ کے سرے سے ہی مخالف ہیں جبکہ عمران خان اس کے اندر رہتے ہوئے سیاسی تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں اور اس کے لیے انہوں نے مڈٹرم الیکشن کا راستہ تجویز کیا ہے۔ ڈاکٹرطاہر القادری اس پر اکتفا کرنے کو تیار نہیںبلکہ ان کی منزل اس سے کہیں آگے ہے جسے وہ موجودہ کرپٹ‘جابرانہ اور غیر منصفانہ نظام کا خاتمہ یعنی انقلاب کا نام دیتے ہیں۔اس سے کم از کم ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ عمران خان کے مڈٹرم الیکشن کے مطالبے کو کسی بڑی سیاسی پارٹی کی حمایت حاصل نہیں۔
شیخ رشید صاحب کی باتوں پہ جائیں تو اب تک اس ملک میں فوج اقتدار سنبھال چکی ہوتی‘ لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہونے کی امید ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف علاقائی اور عالمی صورتحال بلکہ قومی سطح پر بھی حالات اس کے حق میں نہیں۔پاکستان میں عدم تحفظ ‘فرقہ وارانہ تشدد‘لسانی اختلافات‘ دہشت گردی اور لوگوں کی معاشی مشکلات کی وجہ سے حالات اس قدر خراب ہیں کہ فوج سمجھتی ہے‘ انہیں درست کرنا اس کے بس کی بات نہیں اور اس کے لیے سیاسی حکومت ہی کا رآمد ثابت ہو سکتی ہے۔فوج کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت پاکستان کے لیے دنیا بھر میں جو خیر سگالی پائی جاتی ہے ‘ وہ صرف اس لیے ہے کہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت برسر اقتدار ہے۔ویسے بھی افغانستان سے لے کر بھوٹان‘بنگلہ دیش‘سری لنکا اور مالدیپ تک جنوبی ایشیا میں جمہوریت کے راج میں ‘پاکستان کے اندر ایک غیر جمہوری سیٹ اپ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
قاہرہ کے تحریر سکوائر میں لاکھوں افراد کا اجتماع کسی ایک سیاسی پارٹی کی کال کا نتیجہ نہیں تھابلکہ اس میں مصر کی پولیٹیکل اور سول سوسائٹی کے تمام دھڑوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رضا کارانہ طور پر جمع تھے۔ان کا ہدف صدر حسنی مبارک تھے‘ جنہوں نے گزشتہ تیس برسوں سے آمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا تھا۔پاکستان میں اس قسم کی کوئی صورتحال موجود نہیں بلکہ ایک جمہوری آئین کے تحت منتخب حکومت ایک مقررہ مدت کے لیے برسر اقتدار ہے‘ جسے صرف ایک برس بعد اقتدار سے الگ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔تحریر سکوائر میں دوسرا احتجاجی اجتماع اخوان المسلمین کے صدر محمد مرسی کے خلاف تھا۔اس احتجاج کی بنیاد صدر مرسی کی حکومت کی وہ پالیسیاں تھیں‘ جن کے تحت انہوں نے مصر کی ملٹی کلچرل سوسائٹی کو نظر انداز کر کے یک طرفہ طور پر ملک کی سیاست اور معاشرت کو اپنی جماعت کے نظریے کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) اگرچہ رائٹ آف دی سنٹر(Right of the Centre)سیاسی جماعت ہے؛ تاہم مئی 2013ء انتخابات کے نتیجے میں ابھرنے والے قومی سیاسی نقشے میں اس پارٹی نے جس قدر لچک اور فراخ دلی دکھائی ہے‘ وہ پاکستان کی تاریخ میں واحد مثال ہے۔بلوچستان میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے صوبائی حکومت کی سربراہی نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کے سپرد کردی۔ سندھ میں عوامی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو کراچی کے حالات سدھارنے کا پورا اختیار دے رکھا ہے۔ماضی میں اس کے برعکس مثالیں پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں موجود ہیں جہاں مخالف سیاسی جماعتوں کی صوبائی/ریاستی حکومتوں کو مختلف بہانوں سے صدارتی راج نافذ کر کے ختم کر دیا جاتا تھا۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں آئند ہ چند ماہ کے دوران متوقع حالات و واقعات پاکستان میں ایک سیاسی تبدیلی کے متقاضی نظر آتے ہیں۔ان میں فوج کے کچھ سینئر جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ‘ضرب عضب فوجی آپریشن اور افغانستان سے امریکہ کی اپنے سازو سامان کے ساتھ پاکستان کے راستے بحفاظت واپسی شامل ہیں۔ کالم نویسوں کی رائے میں یہ امور ایک فوجی حکومت زیادہ احسن اور موثر طریقے سے سرانجام دے سکتی ہے اور امریکہ تو خاص طور پر ایسی حکومت کا خیر مقدم کرے گا تاکہ اس کے قافلوں پر طالبان حملہ نہ کر سکیں‘ لیکن یہ استدلال محض قیاس آرائیوں پر مبنی ہے اور اس مذموم مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے جس کے تحت سیاست‘سیاست دانوں اور سیاسی اداروں کو ایک خاص مقصد کے تحت نااہل‘کرپٹ اور خود غرض ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی؛ تاہم مئی2013ء کے انتخابات میں نامساعد حالات کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت نے حصہ لے کر جمہوریت پر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ۔اس کی بنیاد پر یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ 14اگست کو اسلام آباد کا ڈی چوک قاہرہ کا تحریر سکوائر ثابت نہیں ہو گا۔