نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان 25 اگست کو ہونے والے مذاکرات ملتوی کردیے۔ التواء کی وجہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کے ساتھ کشمیر حریت کانفرنس کے رہنمائوں کی‘ جن میں سید شبیر شاہ ‘میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی شامل ہیں ‘ ملاقات‘ بتائی جاتی ہے۔بھارتی حکومت نے اس پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اس ملاقات کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ مودی حکومت کے اس اقدام پر پاکستان اور کشمیری حلقوں میں ہی نہیں بلکہ خود بھارت میں بھی حیرت کا اظہار کیا گیا کیوں کہ پاک بھارت مذاکرات کے ہر رائونڈ سے پہلے‘نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر اور کشمیری رہنمائوں کے درمیان مشاورت کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔سابق وزرائے اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بھی دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں اور کشمیری رہنمائوں کے درمیان اس نوعیت کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی وزیر اعظم نے حکومتی سطح پر مذاکرا ت کو منسوخ نہیں کیا۔یہی موقف کشمیری رہنمائوں نے اختیار کیا ہے۔ انہوں نے نریندر مودی کی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عاید کیا کہ وہ اپنی پیشرو واجپائی حکومت کی کشمیر پالیسی سے انحراف کر رہی ہے۔بھارتی میڈیا میں بھی مودی حکومت کے اس اقدام پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ بعض اخبارات نے بھارتی حکومت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے۔ مودی حکومت نے یہ غیر متوقع اور یک طرفہ اقدام کیوں کیا اور اس کے مستقبل میں پاک بھارت مذاکرات خصوصاً دو طرفہ مذاکراتی عمل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس سوال کے جواب میں تین چار عوامل کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ بھارتی حلقوں کے مطابق اس فیصلے کا تعلق ریاست جموں و کشمیر میں آئندہ اکتوبر ‘نومبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے ہے۔ مودی حکومت کی خواہش ہے کہ یہ انتخابات نہ صرف مکمل امن و سکون کی فضا میں منعقد ہوں بلکہ ان میں بی جے پی کو واضح کامیابی بھی حاصل ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے یا پُرتشدد بنانے والے عناصر کو سخت پیغام جائے کہ مودی حکومت کشمیر میں انتخابی عمل میں رُخنہ ڈالنے کی کوشش برداشت نہیں کرے گی۔بھارت کے ہی کچھ حلقوں کے مطابق نریندر مودی نے یہ فیصلہ آر ایس ایس کے دبائو کے تحت کیا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں کی یہ تنظیم شروع سے ہی کشمیر بارے سخت گیر پالیسی کے حق میں رہی ہے ۔انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد آر ایس ایس نے حکومت پر اپنا دبائو بڑھا دیا تھا۔اسی دبائو کے تحت وزیراعظم مودی نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ملک میں اور خصوصاً کشمیری قیادت کی طرف سے سخت مخالفت کے سبب مودی حکومت اس پر عمل درآمد نہ کر سکی۔تاہم آر ایس ایس نے اپنا دبائو جاری رکھا اور اسے موثر بنانے کے لیے نریندر مودی کو یاد بھی دلایا کہ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی ان کی ذات یا قیادت کی نہیں بلکہ آر ایس ایس کی مرہون منت ہے‘ جس کے ہزاروں کارکنوں نے ملک کے
طول و عرض میں بی جے پی کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔نریندر مودی چونکہ خود آر ایس ایس کے رکن رہے ہیں اور کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370کی تنسیخ کے لیے چلائی جانے والی سابق تحریکوں میں سرگرم حصہ لے چکے ہیں‘اس لیے ان کی طرف سے کشمیر پر سخت گیر پالیسی اختیار کرنا باعث حیرت نہیں۔بعض حلقوں کے مطابق کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے سرحدی محافظوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے بھی مودی نے پاکستان کے بارے میں سخت موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں لداخ میں ان کے دوسرے دورہ کشمیر کے دوران تقریر کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔اس تقریر میں انہوں نے پاکستان پر کشمیر میں پراکسی وار شروع کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔یاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم کے اس دورہ کے موقع پر بھارتی سرحدی فوج بی ایس ایف کے ایک قافلے پر مجاہدین کے حملے میں 8بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ مودی کا پاکستان کے بارے میں یہ بیان اس واقعہ پر ردعمل کا اظہار ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود مودی حکومت کی طرف سے 25اگست کو خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کی تنسیخ نے خود بھارت کے اندر سنجیدہ اور معتدل سوچ رکھنے والے حلقوں کو ششدر کر دیا ہے؛ کیوں کہ جس طرح نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کے ساتھ کشمیری رہنمائوں کی ملاقات اور مشورہ روایتی طور پر ایک عرصہ سے چلا آ رہا تھا اور مودی سے پہلے کسی بھارتی وزیراعظم نے اس کو بہانہ بنا کر‘ امن مذاکرات معطل نہیں کیے تھے‘ اسی طرح لائن آف کنٹرول کے آر پار فائرنگ کے واقعات نئی بات نہیں اور ان واقعات کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔
25اگست کے مذاکرات اس لیے خصوصی اہمیت کے حامل تھے کہ یہ بات دونوں ملکوں میں امن مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے کیے جا رہے تھے‘ جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے معطل چلا آ رہا ہے۔بھارت کے بااثر انگریزی روزنامہ ''دی ہندو‘‘ میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے مئی 2014ء کے انتخابات سے قبل مارچ میں آر ایس ایس کے ایک اہم رہنما کو اپنے نمائندہ کے طور پر پاکستان بھیجا تھا‘ جنہوں نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ملاقات میں نریندر مودی کی طرف سے یہ پیغام دیا تھا کہ اگر انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہو گئی اور وہ وزیر اعظم بن گئے ‘ تو وہ اپنے لیڈر اٹل بہاری واجپائی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھیں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ممبئی2008ء جیسا دہشت گردی جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو‘ ورنہ بھارت کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کے مبینہ اڈوں پر حملہ ناگزیر ہو جائے گا۔اس پیغام میں دھمکی کا عنصر ہونے کے باوجود پاکستان کے سیاسی اور عسکری حکام نے اس یقین دہانی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ جب منتخب وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریب حلف برداری کی تقریب میں سارک کے رہنمائوں کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو بھی مدعو کیا اور ان کے ساتھ پرتپاک مصافحہ کر کے خوشگوار ماحول میں ملاقات کی ‘ تو پاکستانی حکام نریندر مودی کے خلوص نیت کے اور بھی قائل ہو گئے تھے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 15اگست کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے سے احتراز کیا تھا اور پاکستان کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون کے رابطوں کو بڑھانے کے لیے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان بلکہ نیپال اور چین کو بھی شامل کر کے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں بچھانے کا ذکر کیا تھا۔لیکن 25اگست کے مذاکرات منسوخ کر کے‘ نریندر مودی نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ دس سال سے جاری امن مذاکرات کا کیا مستقبل ہے؟اگرچہ سیکرٹریوں کی سطح پر بات چیت کا التوا سنگین دھچکا ہے۔لیکن مذاکرات کے اس عمل کی گزشتہ دس برس کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے کئی دھچکوں کے باوجود یہ عمل بحال ہوتا رہا ہے۔ پاکستان‘بھارت اور پورے خطے کے موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہ عمل دوبارہ جلد بحال ہو؛ تاہم اس کے لیے دونوں ملکوں کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ محنت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔