پاکستان تحریک انصاف کے ''آزادی مارچ‘‘ اور پاکستان عوامی تحریک کے ''انقلاب مارچ‘‘ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو اگر ایک بہت بڑے پزل (Puzzle) کا نام دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں احتجاجی تحریکوں نے گزشتہ تقریباً 50سے زائد دنوں میں اپنے گول پوسٹ اتنی تیزی سے تبدیل کئے ہیں کہ یہ کہنا محال ہے‘ ان کے حتمی اہداف کیا ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ ان کا مقصد نہ تو حکومت کو گرانا ہے‘ نہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنا اور نہ سسٹم کی بساط ہی الٹانا ہے۔ ان کا مقصد صرف انصاف کا حصول ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتا ہے کہ متنازعہ انتخابی حلقوں کی مکمل چھان بین کی جائے‘ دھاندلی کی تحقیقات کی جائیں اور اگر دھاندلی ثابت ہو جائے تو مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔لیکن جب حکومت نے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تو عمران خان نے اسے مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کا مطالبہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کا استعفیٰ ہے۔وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ پیش کرنے کے بعد وہ اس پر اتنے بضد تھے کہ انہوں نے اسے اپنے دیگر مطالبات میں سب سے پہلے اسے منظور کرنے کی شرط عائد کی۔ لیکن جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرار داد اور چیف آف دی آرمی سٹاف سے ملاقات کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ یہ تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے ‘ تو کنٹینر سے اچانک سول نافرمانی کی کال جاری کر دی گئی۔ اس کال کا جو حشر ہوا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ نہ صرف عجلت میں بلکہ بغیر کسی منصوبہ بندی اور مشاورت کے کیا گیا تھا۔سول نافرمانی کی کال کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک کے ساتھ مل کر وزیر اعظم ہائوس‘ پارلیمنٹ اور پاکستان ٹیلی ویژن پر دھاوا بول دیا۔ وہ تو شکر ہے کہ پولیس نے ضبط سے کام لیا اور زیادہ جانی نقصان نہ ہوا‘ ورنہ ملکی سیاست کا کچھ اور ہی نقشہ ہوتا۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ تحریکِ انصاف نے عوامی تحریک کے رہنمائوں کی ان تحریری یقین دہانیوں کے خلاف کیا گیا‘ جن کے تحت ان دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے اپنے احتجاجی مظاہرے نہ صرف پُرامن بلکہ مقررہ مقامات تک محدود رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔
اسی دوران جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں‘ جن میں پاکستان پیپلز پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم بھی شامل تھیں‘ کی کوششوں سے ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ حکومت کی بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے مطابق مذاکرات کے تقریباً پندرہ دور ہوئے‘ اور حکومتی رویے میں لچک کے نتیجے میں اہم پیش رفت بھی ہوئی‘ لیکن مذاکرات کے دوران عمران خاں کنٹینر سے اعلان کرتے رہے کہ مذاکرات سے قطع نظر ان کا یہ مطالبہ قائم ہے کہ جب تک وزیر اعظم مستعفی نہیں ہوتے‘ ان کا دھرنا جاری رہے گا۔دھرنے جاری ہیں لیکن اپنے اعلان کردہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے تحریکِ انصاف اور اس کی پیروی کرتے ہوئے عوامی تحریک نے ملک کے دیگر شہروں میں جلسے کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔تحریکِ انصاف اب تک کراچی‘ لاہور‘ میانوالی اور ملتان میں جلسے کر چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بڑے کامیاب جلسے تھے اور ان سے تحریکِ انصاف کی مقبولیت اور طاقت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ان جلسوں سے دیگر سیاسی جماعتوں کے پر کھڑے ہو گئے ہیں اور انہوںنے بھی سٹریٹ پاور کے اس قسم کے مظاہرے کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہے۔18اکتوبر کو پیپلز پارٹی کا کراچی کا جلسہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان جلسوں کی کامیابی نے حکومت اور اپوزیشن کے اس اتحاد کی بنیادیں ہلا دی ہیں جس کا مظاہرہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کیا گیا تھا۔ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کے حالیہ بیانات اور قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کے مڈٹرم الیکشن کے حوالے سے بیان کو بطور ثبوت پیش کیا جا رہا ہے۔
لیکن اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو سید خورشید شاہ کے بیان میں کوئی نئی بات نہیں ۔وہ اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مڈٹرم انتخابات آئین کے خلاف نہیں‘ نہ ان کا مطالبہ غیر آئینی ہے‘ لیکن ان کا انعقاد وزیر اعظم کی صوابدید پر ہے۔ گن پوائنٹ پر وزیر اعظم کو مجبور کر کے ایسے انتخابات منعقد کروائے گئے تو یہ انتخابات قابل قبول نہیں ہوں گے‘ لیکن چونکہ یہ بیان تحریک انصاف کے کامیاب جلسوں سے پیدا ہونے والی صورتحال میں دیا گیا تھا‘ اس لیے ذرائعِ ابلاغ میں بحث اور تبصروں میں اسے پیپلز پارٹی کی پالیسی میں تبدیلی کے آثار سے تعبیر کیا گیا۔ابھی سید خورشید شاہ کے بیان کے مضمرات اور سیاق و سباق پر بحث جاری تھی کہ عمران خان نے ایک اور کوآنٹم (quantum) جمپ لیا اور ایک ٹی وی انٹرویو میں اعلان کیا کہ اب وہ مڈٹرم نہیں بلکہ ری الیکشن چاہتے ہیں۔
مڈٹرم کی بجائے ری الیکشن کا مطالبہ عمران خان کے اندازِ سیاست کی روشنی میں تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہاں ایک اہم سوال ابھرتا ہے کہ موصوف طویل دھرنوں سے وزیر اعظم کا استعفیٰ تو لے نہ سکے‘ اب ری الیکشن پر حکومت کو کیسے مجبور کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ جب تک مئی 2013ء کے انتخابات کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا ری الیکشن کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔جہاں تک مئی 2013ء کے انتخابات کا تعلق ہے‘ الیکشن کمیشن نے واشگاف الفاظ میں کسی بھی بڑے پیمانے پر دھاندلی کو مسترد کر دیا ہے۔اسی طرح کا سرٹیفکیٹ بین الاقوامی آبزرور ٹیموں نے بھی دیا۔ جہاں تک باقی سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے‘ وہ محدود پیمانے پر دھاندلی کا الزام تو عائد کرتی ہیں ‘ لیکن ری الیکشن کے حق میں نہیں۔حتیٰ کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی
حلیف جماعت اسلامی بھی مڈٹرم یا ری الیکشن کے حق میں نہیں‘ بلکہ اس کے امیر سراج الحق صاحب کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت چاہتی ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت پانچ سال کی اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ عمران خان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور سابق جج سپریم کورٹ جسٹس خلیل الرحمن رمدے پر دھاندلی میں ملوث ہونے کے جو الزامات لگائے ہیں‘ انہیں ثابت کرنا ہنوز باقی ہے۔ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ 2013ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے اور نئے انتخابات لازمی قرار نہیں دیے جاتے‘ ری الیکشن کے امکانات معدوم رہیں گے۔
البتہ عمران خان اور ان کی پارٹی اگر حکومت کے تجویزکردہ سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل انکوائری کمیشن سے تعاون کریں اور یہ کمیشن اپنی رپورٹ میں عمران خان کے دھاندلی کے الزامات کو درست قرار دے‘ تو ری الیکشن ہو سکتے ہیں کیونکہ حکومت نے پیشکش کر رکھی ہے کہ ایسی صورت میں وہ خود اقتدار چھوڑ دے گی اور ری الیکشن لازمی ہو جائیں گے۔
لیکن عمران خان مئی 2013ء کے الیکشن کے کالعدم ہوئے بغیر اگر ری الیکشن چاہتے ہیں تو ان کے اس مطالبے کا وہی حشر ہو گا جو ان کی سول نافرمانی کی کال اور وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے کا ہوا ہے‘ کیونکہ جس طرح قوم سول نافرمانی کے لیے تیار نہ تھی اور نہ وزیر اعظم پر مستعفی ہونے کے لیے درکار پریشر پیدا کیا جا سکا‘ اسی طرح ری الیکشن کے لیے کوئی اور سیاسی پارٹی ان کا ساتھ دینے کے لیے نہ تو تیار ہے اور نہ وہ جلسے جلوسوں سے ایسی تحریک منظم کر سکتے ہیں جو بالآخر موجودہ حکومت کو بوریا بستر گول کرنے پر مجبور کر سکے۔