بی جے پی کے رہنما اور بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کا خیال تھا کہ جس طرح انہوں نے بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور میڈیا کی مدد سے مئی2014ء کے انتخابات ملک میں ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے،اْسی طرح اُن کی پارٹی کشمیر پر بھی چھا جائے گی۔گزشتہ برس نومبر، دسمبر میں مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے قبل بی جے پی نے اپنی کامیابی کے بڑے بڑے دعوے کیے تھے۔ صدر امیت شاہ جنہیں شمالی بھارت میں بی جے پی کی انتخابی کامیابی کا معمار کہا جاتا ہے، دعویٰ کیا تھا کہ اْن کی پارٹی مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی87سیٹوں میں سے 44حاصل کر کے سری نگر میں بی جے پی کی حکومت بنائے گی۔خود وزیراعظم نریندر مودی بھی مقبوضہ کشمیر میں ہر قیمت پر بی جے پی کی حکومت چاہتے تھے اور اس کے لیے اْنہوں نے انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے متعدد بار ریاست کا دورہ کیا۔اْنہوں نے آرایس ایس سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی حکومت قائم کر کے دکھائیں گے بلکہ ریاست کو داخلی خود مختاری دینے والے آئین کی دفعہ 370کو بھی ختم کر دیں گے، لیکن مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کو سب خواب چکنا چور ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو وادی کے کشمیریوں نے انتخابات میں جوق در جوق حصہ لے کر مفتی سعید کی پارٹی،پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو ووٹ دے کر بی جے پی کی اْمیدوں پر پانی پھیردیا۔ یہ درست ہے کہ ان انتخابات میں بی جے پی کو بھی پہلے کے مقابلے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی،لیکن اْس کی حاصل کردہ 25سیٹیں ریاست کے ہندو اکثریتی علاقے یعنی جموں،کھٹوعہ اور اودھم پور تک محدو د ہیں۔ اس کے مقابلے میں وادی میں28نشستیں حاصل کر کے پی ڈی پی ایک اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی۔ اس طرح نہ صرف بی جے پی کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی حکومت بنانے میں ناکامی ہوئی بلکہ اْسے پی ڈی پی کو ساتھ ملاکر ایک مخلوط حکومت پر اتفاق کر
کے آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی واپس لینا پڑا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی ناکامیاں اور مایوسیاں یہیں ختم نہیں ہوئیں۔ پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کر کے بی جے پی کی یونین سرکار یعنی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میںر سوائے زمانہ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کو بتدریج واپس لینے کا بھی وعدہ کرنا پڑا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اْسے ریاست کے نئے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید جن کی تقریب حلف برداری میں وزیراعظم نریندر مودی نے خود شرکت کی تھی،کی کڑوی باتوں کو بھی سننا اور برداشت کرنا پڑا۔حلف اْٹھانے کے بعد مفتی محمد سعید نے ایک بیان میں مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کے پْرامن انعقاد کا کریڈٹ حریت کانفرنس، پاکستان اور آزادی کے لیے لڑنے والے کشمیری مجاہدین کو دیا تھا۔اس بیان پر بی جے پی کے ریاستی حلقے اور مرکزی رہنما سخت سیخ پا ہوئے۔ ابھی اس بیان سے بھارت کے زخموں پر نمک پاشی کا اثر ختم نہیں ہوا تھا کہ ریاست میں مفتی سعید کی حکومت نے ایک اور دھماکہ کر دیا۔ مسارت عالم جو مقبوضہ کشمیر میں مسلم لیگ کے رہنما ہیں اور جنہوں نے 2010ء میں مقبوضہ کشمیر کی ایجی ٹیشن میں نمایاں کردار ادا کیا تھا،کو ریاست کی حکومت نے رہا کردیا۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے جیل میں بند تھے۔اْن پر کوئی الزام نہیں تھا اور اس وجہ سے بھارتی حکام نے اْنہیں خصوصی قوانین کے تحت قید کر رکھا تھا۔ مفتی سعید نے عہدہ سنبھالتے ہوئے اْن تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا جو بغیر کسی جْرم کے کئی برسوں سے جیلوں میں بند تھے۔ اْن میں مسارت عالم بھی شامل ہیں، لیکن اْن کی رہائی سے پوری بھارتی حکومت اور بی جے پی بوکھلا گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی قیادت نے تو اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے
گلہ کیا کہ مسارت عالم کو رہا کرتے وقت وزیراعلیٰ مفتی سعید کی حکومت نے اْنہیں اعتماد میں نہیں لیا۔ انتہا پسند ہندوتنظیم اور بی جے پی کی ایک اتحادی پارٹی شیو سینا نے تو مفتی سعید کو ایک علیحدگی پسند قرار دے دیا۔ خود یونین حکومت نے بھی اس اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔
مقبوضہ کشمیرکی حکومت میں شامل ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر اب یہ سوال نمایاں طور پر اْٹھایا جارہا ہے کہ کیا ریاست کی مخلوط حکومت قائم رہ سکے گی؟مقبوضہ کشمیر میں منتخب حکومتوں کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کرنے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں اور بھارت کی مرکزی حکومت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اکثرایسے اقدامات کیے ہیں۔ اس لیے اگر بی جے پی مخلوط حکومت سے علیحدہ ہوکر مفتی سعید کی حکومت کو ختم کر دیتی ہے تو یہ ایک نئی یا حیران کْن بات نہیں ہوگی۔لیکن ایسے اقدامات کے بڑے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دفعہ مقبوضہ کشمیر میں ووٹ ڈالنے کا تناسب بہت بلند تھا اور بھارت نے اسے پوری دنیا کے سامنے کشمیریوں کی طرف سے ریاست میں امن،استحکام اور بھارت کے ساتھ الحاق کی حمایت کے طور پر پیش کیا تھا۔ اب اگر بی جے پی بھارت میں مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے یا گورنر راج کا نفاذ کرتی ہے تو پوری دنیا میں اْس کی نہ صرف سْبکی ہوگی بلکہ خود ریاست جموں کشمیر میں حالات اْس کے قابو سے باہر ہوسکتے ہیں اس لیے کہ اس قسم کے انتہائی اقدام سے کشمیریوں کا یہ یقین اور بھی پختہ ہوجائے گا کہ جمہوریت کے بارے میں بھارتی رہنمائوں کے دعوے مکمل طور پر کھوکھلے ہیں اور وہ کسی صورت بھی کشمیریوں کو اْن کے بنیادی حقوق دینے پر آمادہ نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات بھارت کی طرف سے محض ڈرامہ ہیں اور اْسے کشمیریوں کی رائے کا کوئی احترام نہیں بلکہ بی جے پی کی حکومت ہر صورت میں کشمیریوں کی آوازکو دبانا چاہتی ہے؛ حالانکہ حالیہ انتخابات اور بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت کی تشکیل سے ریاست میں امن کے قیام بلکہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ مخلوط حکومت میںپی ڈی پی اور بی جے پی کی شمولیت کو بیشتر حلقوں نے اس لحاظ سے خوش آئند قرار دیا تھا کہ اس سے ریاست کے مسلم اور ہندو اکثریتی علاقوں میں بڑھتے ہوئے فاصلوں میں کمی کی اْمید پیدا ہوگئی تھی۔ انتخابات کے نتا ئج نے یہ تقسیم بڑی واضح کردی ۔ ہندو اکثریت کے اضلاع میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی اور اس طرح مسلم اکثریتی علاقوں سے پی ڈی پی نے بیشتر نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس طرح مقبوضہ کشمیر میںبرسوں کی لڑائی کی وجہ سے پیدا ہونے والا کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ تھا جنہیں وادی میں اپنے گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر جموں اور ہندو اکثریت کے دیگر علاقوں میں پناہ لینی پڑی تھی، اْن کی اپنے گھروں کو واپسی ایک اہم تنازع تھی۔ مفتی سعید کی حکومت نے اس تنازع کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔اس طرح ریاست جموں و کشمیر میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے لوگوں کی ایک ایسی بڑی تعداد موجود ہے جن کے قیام کو قانونی شکل دینے میں دقت پیش آرہی تھی۔ سب سے اہم معیشت کی بحالی کا مسئلہ ہے، گزشتہ پچیس برس سے جاری جنگ نے مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاحت جو کہ لوگوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی، تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ بھارتی فوج اور مجاہدین کے درمیان آئے دن کی جھڑپوں کے نتیجے میں سیاحت کی صنعت سخت بحران کا شکار رہی ہے۔ اب پْرامن انتخابات اور ایک مخلوط حکومت کے قیام سے ایسے حالات پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے جن میں معیشت اور خصوصاً سیاحت بحال ہوسکتی ہے۔ پی ڈی پی کے لیے معیشت کی بحالی اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے ریاست سے بے روزگاری ختم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت میں اضافہ بھی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے۔معیشت کے علاوہ سیاسی محاذ پر بھی اچھے نتائج کی توقع کی جارہی تھی کیونکہ پی ڈی پی کی رہنما اور مفتی سعیدکی بیٹی محبوبہ مفتی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک پْل کا کام دے سکتی ہے۔خود مفتی سعید نے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ اْنہوں نے بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت اس شرط پر تشکیل دی تھی کہ بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرے گی۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ جے شنکر کے حالیہ دورۂ پاکستان کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
اس لیے اگر وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں وزیراعلیٰ مفتی سعید کی حکومت کے جائز اور درست اقدامات کی حمایت کرنے کی بجائے اْن سے جھنجھلاکر مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے یا ریاست میں گورنر راج نافذ کرتی ہے تو اس سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں حالات اور بھی ابتر ہوں گے بلکہ پاک بھارت مصالحت کے ذریعے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے امکانات کو بھی ایک شدید دھچکا لگے گا۔