"DRA" (space) message & send to 7575

کیا 2015ء الیکشن کا سال ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزاد کشمیر میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ2015ء الیکشن کا سال ہے۔یہ پہلا موقعہ نہیں کہ عمران خان نے سالِ رواں کو الیکشن کا سال قرار دیا ہو۔چند روز قبل اسلام آباد میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ موجودہ حکومت کے دن ختم ہونے کو ہیں‘ کارکن نئے انتخابات کیلئے تیار ہوجائیں جو اسی سال منعقد ہوں گے۔لیکن آزاد کشمیر کے جلسہ میں تازہ ترین بیان کی اہمیت اس لحاظ سے بڑھ جاتی ہے کہ یہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے مجوزہ جوڈیشل کمیشن پر اتفاق رائے کے اعلان کے بعد دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ)پرویز مشرف کی جانب سے غیر معمولی سرگرمیاں شروع کرنے کی وجہ سے بھی عمران خان کے بیان کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔عمران خان کی طرح پرویز مشرف نے بھی اپنی پارٹی کو نئے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری طرف حکومت نے قبل ازوقت مڈٹرم یا اس سال الیکشن کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔وفاقی وزیراطلاعات و نشریات اور قانون پرویز رشید نے عمران خان کے دعوے کے جواب میں کہا ہے کہ عمران خان کی پیش گوئی ایک دفعہ پھر غلط ثابت ہوگی اور حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی۔حکومت کے دیگر ارکان‘ جن میں وزیراعظم جناب محمد نوازشریف بھی شامل ہیں، قوم کو طویل المیعاد ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کی خوش خبری سناتے ہوئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ حکومت ہر حال میں اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرے گی‘ مثلاً وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے2017ء میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی نوید سنائی ہے۔
اسی طرح وزیراعظم بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاکستانی معیشت کی پرفارمنس پر اطمینان کے اظہار کے بعد قوم کو مزید خوش خبریاں سنانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ویسے بھی حکومتی کیمپ میں ایسی کوئی سرگرمی اور ہلچل نظر نہیں آتی جس کی بنیاد پر نئے انتخابات کا گمان کیا جاسکے۔حکومت نہ صرف اپنی کارکردگی سے مطمئن ہے بلکہ قومی اسمبلی میں بھی اس کی پوزیشن مستحکم ہے۔نہ تو اس کی کسی حلیف پارٹی نے مخلوط حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے اور نہ ہی حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے اپنی پارٹی کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔قبائلی علاقوں میں گذشتہ جون میں شروع کیا گیا فوجی آپریشن ضرب عضب بھی کامیابی سے جاری ہے بلکہ اب بے گھر ہونے والے افراد کی اپنے گھروں کو واپسی کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔اسی طرح کراچی میں صورت حال پوری طرح پولیس اور رینجرز کے قابو میں اور کراچی کے حالیہ دورہ کے دوران وزیراعظم نے اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ ان حالات میں نئے الیکشن کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔
اس کے باوجود نئے انتخابات کی باتیں کیوں ہورہی ہیں اور اسی سال ان کے انعقاد کے بارے میں دعووں کی کیا حقیقت ہے؟بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نئے انتخابات کے بارے میں تازہ ترین افواہوں کا حال ہی میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان طے پا جانے والے سمجھوتے سے براہ راست تعلق ہے۔دھرنوں اور گھیرائو کی سیاست کو خیر باد کہنے کے بعد عمران خان کی جانب سے حکومت پر کوئی ایسا دبائو نہیں تھا جس سے مجبور ہوکر اسے جوڈیشل کمیشن کے دائرہ اختیار کے بارے میں پی ٹی آئی کی شرائط کو تسلیم کرنا پڑتا۔بلکہ بعض حلقے توجوڈیشل کمیشن کو ٹائم بار قراردے چکے تھے اور اس یقین کا اظہار کیا جارہا تھا کہ اس قسم کے کمیشن کی تشکیل کا اب کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
لیکن چند دن پیشتر وفاقی وزیراسحاق ڈار نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے ہمراہ پریس کانفرنس میں فریقین کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے بارے میں اختلافی امور پر اتفاق کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو حیران کر دیا۔جوڈیشل کمیشن پر اتفاق سے زیادہ اہم پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی باڈی لینگوئج تھی‘ جس کے ذریعے وہ حکومت اور برسرِ اقتدار پارٹی کی تعریف کررہے تھے۔اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جوڈیشل کمیشن پر اتفاق ''مقتدر حلقوں‘‘کی طرف سے دبائو کا نتیجہ ہے۔یاد رہے کہ جوڈیشل کمیشن پر اتفاق کے اعلان سے قبل عمران خان نے اپنی احتجاجی تحریک دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس دفعہ وہ حکومت کو مفلوج کر دیں گے۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام‘ خصوصاً شہروں میں عمران خان کی ہر دلعزیزی برقرار ہے اور پی ٹی آئی کے ورکرز کے جوش و خروش اور اپنے لیڈر کے کہنے پر سب کچھ کر گزرنے کا جذبہ ابھی ختم نہیں ہوا‘ اس لیے عمران خان کی طرف سے ایجی ٹیشن کی نئی کال اگر گذشتہ ایجی ٹیشن سے زیادہ نہیں تو کم شدید بھی نہیں ہوسکتی‘ اور یہ پہلے کی طرح حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کراچی میں جاری آپریشن کے پیش نظر عمران خان کی طرف سے ایجی ٹیشن کا اعلان حکومت کیلئے ایک سنگین مسئلہ پیدا کر سکتا تھا۔ خیال یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ عمران خان سے احتجاجی تحریک مؤخر کرنے کے عوض اسی سال یا حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر نئے پارلیمانی انتخابات کا وعدہ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال اگست میں عمران خان کی طرف سے اسلام آباد میں ہزاروں افراد جمع کرنے اور دھرنا دینے کی وجہ سے ملک میں جو شدید سیاسی بحران پیدا ہوا تھا،اسے حل کرنے کیلئے جو مختلف تجاویز پیش کی جارہی تھیں،ان میں ان ہائوس تبدیلی کے ساتھ قبل از وقت یا اسمبلیوں کے تین یا چار سال مکمل ہونے کے بعد نئے انتخابات کروانے کا فارمولا بھی شامل تھا‘ لیکن وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت نے ایسی تمام تجاویز کو مسترد کردیا تھا۔
اب بھی زیادہ امکان اس امر کا ہے کہ حکومت قبل ازوقت یا مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ مسترد کردے گی‘ کیونکہ ملک میں کوئی ایسا بحران نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے حکومت وقت سے پہلے اپنی مدت ختم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ہمارے ہمسایہ ملک بھارت اور خود ہمارے ہاں سیاسی تاریخ سے بھی یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت لاکھ دبائو کے باوجود قبل از وقت انتخابات پر آمادہ نہیں ہوتی۔بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت اپنی دونوں مدتوں یعنی UPA-Iاور UPA-IIمیں اتحادی پارٹیوں کی مددسے چل رہی تھی‘ کیونکہ کانگرس 2004ء اور نہ2009ء میں لوک سبھا کے انتخابات میں اکثریت حاصل کر سکی تھی۔ ان دونوں مدتوں کے دوران اپوزیشن یعنی بی جے پی کی طرف سے مڈٹرم انتخابات کیلئے سخت دبائو تھامگر ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اس پر مجبور نہ کیا جاسکا۔ حکومت کی مغرب نواز اقتصادی پالیسیوں پر اختلاف کی وجہ سے کمیونسٹ ارکان ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت سے علیحدہ ہوگئے لیکن حکومت نہ گری۔ کانگرس دوسری پارٹیوں کی مدد سے حکومت چلاتی رہی۔اسی طرح پاکستان میں 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بارے میں آئے دن پیش گوئیاں کی جاتی رہیں۔کبھی کہا جاتا کہ یہ حکومت زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قائم رہ سکتی ہے اور کبھی مڈٹرم کے انتخابات کی ڈیڈ لائن دی جاتی تھی‘ لیکن قومی اسمبلی میں اکثریت کی مالک نہ ہونے کے باوجود،دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی نے پانچ سال مکمل کر لیے۔موجودہ حکمران جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن)کی پوزیشن تو پیپلز پارٹی سے بہتر ہے کیونکہ اسے ایوان میں اکثریت حاصل ہے اور وہ اکیلے بھی حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔رہا عمران خان کا یہ دعویٰ کہ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے دھاندلی ثابت ہوجائے گی جس کے بعد نئے انتخابات ناگزیر ہوجائیں گے تو حلقہ 122میں دھاندلی کے مسئلہ پر سماعت کے دوران الیکشن ٹربیونل میں بھی انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تھیلے کھولنے سے دھاندلی ثابت ہوجائے گی۔تھیلے کھولے گئے لیکن دھاندلی کے کوئی ثبوت نہ مل سکے۔ ممکن ہے یہی نتیجہ جوڈیشل کمیشن سے برآمد ہو۔ اس طرح نہ دھاندلی ثابت ہوگی نہ عمران خان کا نئے انتخابات کے بارے میں دعویٰ پورا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں