گذشتہ برس اگست سے دسمبر تک پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی تحریک کا اہم مقصد نئے الیکشن کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جن میں اسلام آبادمیں126دن کے دھرنے کے علاوہ پنجاب میں بڑے بڑے شہروں میں سڑکیں بلاک کرنا، جلسے اور جلوس شامل تھے۔لیکن ان میں قومی اسمبلی اور خیبر پختون خوا کے علاوہ باقی صوبوں‘ جہاں کہیں پارٹی رکنیت تھی ،کی اسمبلیوں سے مستعفی ہونا سب سے اہم اور نازک اقدام تھا۔اس لیے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد سب سے بڑی پارٹی تھی اور جہاں تک الیکشن مئی2013ء کا تعلق ہے،حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے پی ٹی آئی نے پی پی پی کو بھی پیچھے چھوڑ دیاتھااور ن لیگ کے بعد اس نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پی ٹی آئی اپوزیشن بنچوں پر براجمان تھی اور اس کے جوشیلے اراکین وزیراعلیٰ شہباز شریف کو ٹف ٹائم دے رہے تھے۔ بالفاظ دیگر مرکز اور پنجاب دونوں میں پی ٹی آئی کو ایک ایسی پوزیشن حاصل تھی جہاں سے وہ نہ صرف ملک کی سیاست میں ایک موثر کردار ادا کر سکتی تھی،بلکہ اْسے خود اپنے سیاسی پروفائل کو بلند کرنے کا بھی ایک سنہری موقع حاصل تھا۔اس لیے جب پی ٹی آئی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا تو اسے نہ صرف موجودہ سیاسی ڈھانچے کیلئے ایک زبردست دھچکا سمجھا گیا،بلکہ اس اقدام کو پی ٹی آئی کی طرف سے بھی ایک ایسے دائو سے تعبیر کیا گیا جو خودپارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا لیکن پی ٹی آئی نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔اْسے قوی اْمید تھی کہ اس کے ممبران کے مستعفی ہونے کے بعد کچھ دیگر سیاسی
جماعتوں کے نمائندے بھی اسمبلیوں میں اپنی نشستوں کو چھوڑ دیں گے۔ان میں پاکستان مسلم لیگ(ق)‘ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ اور کچھ آزاد اراکین کو بھی شمار کیا جاتا تھا۔اگر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے بعد کچھ اور سیاسی پارٹیوں کے نمائندے بھی اپنی نشستوں سے مستعفی ہوجاتے،تو موجودہ حکومت کا برقرار رہنا یقینا محال ہوجاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ استعفوں کے مسئلے پر خود پی ٹی آئی کی صفوں میں دراڑیں پڑنی شروع ہو گئیں۔چند ایک نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا اور باقی اْس وقت کے منتظر تھے،جب حکومت کی طرف سے اْن کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بعد اْن کا اسمبلیوں میں واپس جانا ممکن ہوتا۔بالآخر وہ موقع آگیا۔ یکم اپریل کو انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان تمام اختلافی نکات پر سمجھوتہ ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے اسمبلیوں میں اپنی نشستیں دوبارہ سنبھالنے کا فیصلہ کر لیا۔
پاکستان میں جمہوری عمل کے تسلسل اور سیاسی استحکام کے وسیع تر تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ ایک مفید اور دانشمندانہ کے علاوہ جرأت مندانہ فیصلہ بھی ہے۔کیونکہ اسمبلیوں کو لٹیروں اور ٹیکس چوروں کا ٹولہ قرار دینے کے بعد پی ٹی آئی کیلئے دوبارہ اْن اسمبلیوں میں بیٹھنا مشکل تھا۔اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اس فیصلے کو مزید التوا میں رکھنا چاہتے تھے لیکن کور کمیٹی ارکان کی اکثریت اس فیصلے کے حق میں تھی کیونکہ پی ٹی آئی کے منتخب اراکین کا بھی یہی موقف تھا۔اگرچہ وسیع تر ملکی مفاد میں پی ٹی آئی کی اسمبلیوں میں واپسی کو ایک کی جیت اور دوسرے کی ہار کہنا مناسب نہیں،تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے اور نئے انتخابات کروانے کیلئے جو حکمت عملی پی ٹی آئی نے استعمال کی وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی اور حکومت نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے جس حکمت عملی کو استعمال کیا،وہ کامیاب رہی۔ پی ٹی آئی کی حکمت عملی کے غیر موثر ہونے کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں لیکن ایک اہم وجہ عمران خان کی سولوفلائٹ تھی۔ اْنہوں نے جو تحریک شروع کی‘ اْس میں حزب مخالف سے تعلق رکھنے والی اہم پارٹیوں میں سے کوئی بھی اْس کے ساتھ نہیں تھی۔ق لیگ اور شیخ رشید کی مسلم لیگ نے بے شک عمران خان کا ساتھ دیا لیکن یہ بہت ہلکے وزن کی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ان کی شمولیت سے عمران خان کا سیاسی پلڑا بھاری نہیں ہوا۔جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کا تعلق ہے،اْس کے سیاسی اور انتخابی کریڈینشلز اتنے کمزور تھے،کہ وہ عمران خان کی تحریک کو تقویت نہ پہنچا سکی۔
اس کے مقابلے میں وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت نے جو حکمت عملی اپنائی‘ وہ کامیاب رہی۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے اشتعال انگیزیوں کے باوجود طاقت کے استعمال سے گریز کیا۔اسی طرح پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرنے میں تاخیر بھی مفید ثابت ہوئی۔حالانکہ بعض سیاسی پارٹیاں مثلاً عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)اور ایم کیو ایم ان استعفوں کو فوری طور پر منظور کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ اور خاص طور پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کردار قابل ستائش ہے جنہوں نے سپیکر قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے نہ منظور کرنے کی درخواست کی۔ سراج الحق جس سیاسی جرگہ کی صدارت کر رہے تھے اْس کی جانب سے نہ صرف سپیکر سے درخواست کی کہ وہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرنے میں غیر معمولی عجلت سے احتراز کریں بلکہ پی ٹی آئی قیادت سے بھی اپیل کرتے رہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور جوڈیشل کمیشن کی ساخت اور دائرہ کار پر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان سمجھوتہ ہونے کے بعد اْن کا اصرار تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی میں اپنی نشستیں دوبارہ سنبھال لیں۔ پی ٹی آئی کے اس فیصلے پر سنجیدہ حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ اس سے ملک میں گذشتہ سات ماہ سے جاری سیاسی محاذ آرائی،کشیدگی اور غیر یقینی کی صورت حال ختم ہوگئی ہے۔تاہم اصل فتح پارلیمنٹ کی ہے اور وہ لوگ جو ملک کے سب سے معزز ادارے کو بیکار،فضول اور بدعنوان عناصر پر مشتمل ٹولہ قرار دے کر اسے بے توقیر کرنا چاہتے تھے،اْنہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔پاکستان میں پارلیمانی طرزِ جمہوریت کا نظام رائج ہے اور اس میں پارلیمنٹ کو سب سے اْونچا مقام حاصل ہے لیکن یہاں جب بھی جمہوریت کا دور آتا ہے،پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ تنقید اور مخاصمانہ پراپیگنڈا کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا واحدمقصد پارلیمنٹ کو اْس کے مقام سے گرا کر جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہوتا ہے۔یہ مہم 2008ء کے انتخابات کے بعد ہی شروع کر دی گئی تھی اور اس میں چند سیاسی پارٹیاں یا سیاسی رہنما ہی شامل نہیں تھے،بلکہ کئی ایسے دانشور بھی شامل رہے ہیں جن کا سارا زورِ قلم جمہوریت اور جمہوریت کے سمبل پارلیمنٹ کو نشانہ بنانے پر صَرف ہوتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلیوں کی واپسی سے بحیثیت ایک ادارے کے پارلیمنٹ کے وقار میں اضافہ ہوا ہے ۔اسی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ جمہوریت کی فتح ہے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس فتح کے حصول میں جہاں حکومت کی دانشمندانہ حکمت عملی اور پی ٹی آئی کے اس اقدام کو بڑا دخل ہے‘ وہاں پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتحاد پر مبنی مشترکہ اجلاس کی اْس قرارداد کا بھی بڑا ہاتھ ہے جس میں ادارے کے تقدس کے دفاع کا مصمم ارادہ کرتے ہوئے وزیراعظم کو کسی قسم کے دبائو کے تحت اپنے عہدے سے مستعفی نہ ہونے کی درخواست کی گئی تھی۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں جمہوریت کے دفاع کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1954ء میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی،لیکن گورنر جنرل غلام محمد کے تحلیلی آرڈر کے سامنے بے بس ثابت ہوئی۔ 1988ء اور پھر 2002ء میں دو فوجی آمروں یعنی جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بالترتیب آٹھویں اور سترھویں آئینی ترامیم کو من و عن منظور کرکے پارلیمنٹ نے اپنے ہی ہاتھ پائوں باندھنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی لیکن ستمبر2014ء میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کی یلغار کے سامنے سینہ سپر ہو کر پارلیمنٹ نے ایک جمہوری اور منتخب حکومت کا دفاع کرنے کا جو فیصلہ کیا،وہ ہماری سیاسی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔