سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ اگر انہیں بیرونی دبائو اور خوف کے بغیر کام کرنے کا موقعہ دیا جائے تو قوم کو درپیش مشکل سے مشکل اور پیچیدہ ترین مسائل کا بھی ایسا حل ڈھونڈ سکتے ہیں جو سب فریقوں کیلئے نہ صرف قابل قبول بلکہ سود مند بھی ہو۔اس کی تازہ ترین مثال پاک‘ چائنا اکنامک کاریڈور پر آل پارٹیز کانفرنس کی کامیابی ہے۔اس کانفرنس میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی قیادت کے علاوہ ان تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے شرکت کی‘ جنہوں نے پاک‘ چین اکنامک کاریڈور کے مجوزہ روٹ پر نہ صرف اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا بلکہ اپنے مطالبات کے حق میں تحریک چلانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ملک کے تینوں چھوٹے صوبے یعنی سندھ،بلوچستان اور کے پی کے تحفظات کا اظہار کرنے والوں میں شامل تھے۔ان کا موقف تھا کہ پنجاب کو فائدہ پہنچانے کیلئے اکنامک کاریڈور کا روٹ تبدیل کیا جارہا ہے۔وفاقی حکومت اور خصوصاً وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کی جانب سے بار بار یقین دہانی کے باوجود خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کا اصرار تھا کہ وفاقی حکومت ان کے موقف اور مفادات کو نظر انداز کر کے اکنامک کاریڈور کے ابتدائی روٹ میں یک طرفہ تبدیلی کر رہی ہے۔ اس تحریک میں اگرچہ عوامی نیشنل پارٹی پیش پیش تھی مگر 30مئی کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کیلئے پاکستان تحریک انصاف بھی اس احتجاج میں شامل ہوگئی؛ حتیٰ کہ بلوچستان کی حکومت اور صوبے کی دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اے این پی کی ہاں میں ہاں ملا کر اکنامک کاریڈور کے ابتدائی روٹ کو‘ جو کہ ملک کے مغرب میں واقع دو صوبوں یعنی بلوچستان اور کے پی کے میں سے گزرتا ہے، بحال کرنے کا مطالبہ کر دیا۔اس طرح نہ صرف46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فقید المثال چینی منصوبہ خطرے سے دوچار نظر آرہا تھا،بلکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں دراڑیں بھی پڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ کیونکہ ملک کے تین چھوٹے صوبوں نے تنازع کی تمام تر ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال دی تھیں جو بقول ان کے پنجاب کو فائدہ پہنچانے کے درپے تھی۔
اس نازک مرحلہ پر نہ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بلکہ تمام اہم سیاسی پارٹیوں نے بھی بالغ نظری اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورتِ حال کو سنبھال لیا اورتمام شرکاء نے حکومتی وضاحت کو تسلیم کرتے ہوئے منصوبے کو شروع کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ پی ٹی آئی، اے این پی اور جے یو آئی(ایف) کے جن رہنمائوں نے اس آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی،انہوں نے بعد میں بتایا کہ حکومتی وضاحت کے بعد ان کے تحفظات اور خدشات ختم ہوگئے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس اہم قومی اتفاقِ رائے کو ممکن بنانے میں بلاشبہ وزیراعظم محمد نوازشریف کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور کانفرنس میں شرکت کرنے والے سیاسی رہنمائوں نے ان کے فراخدلانہ اور لچک دار رویے کی تعریف بھی کی‘ لیکن اس کامیابی کا کریڈٹ ہماری تمام سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنمائوں کو جاتا ہے جنہوں نے وسیع تر قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اتفاقِ رائے کو ممکن بنایا۔کانفرنس کے شرکاء نے اس قومی اتفاقِ رائے کو دیرپا اور مزید مستحکم بنانے کیلئے اقدامات کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ دراصل عوام اور جمہوریت کی فتح ہے‘ کیونکہ اس عظیم منصوبے پر عمل درآمد کیلئے جمہوری اداروں کے کردار میں اضافہ کر دیاگیاہے‘ مثلاً اس منصوبے کی نگرانی کیلئے ایک سپیشل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں حکومت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کو شامل کیا جائے گا۔ اس اقدام سے پارلیمنٹ کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ چونکہ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین بھی شامل ہوں گے اس لیے اس اکنامک کاریڈور پر قومی اتفاق رائے کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔اس کمیٹی کی تشکیل سے یہ تاثر ختم ہوجائے گا کہ حکومت اس منصوبے کے ذریعے کسی خاص علاقے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسی طرح حکومت نے ایسے جائنٹ ورکنگ گروپ قائم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے جن میں تمام صوبوں کے نمائندوں کو شامل کیا جائے گا تاکہ اکنامک کاریڈور کے ساتھ ساتھ جو صنعتی اور کاروباری یونٹ لگاتے جائیں گے،ان کی تنصیب میں صوبوں کی رائے اور مشورہ شامل ہو۔ اس طرح پاکستان میں اکنامک کاریڈور کے نتیجے میں جو صنعتی اور کاروباری عمل شروع ہوگا،اس میں تمام صوبوں کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ دیگر الفاظ میں قومی ترقی کے اس عظیم منصوبے میں تمام صوبوں کے احساسِ شرکت کو فروغ حاصل ہوگا۔اس اقدام سے وفاق مضبوط ہوگا اور قومی یک جہتی کے عمل کو تقویت ملے گی۔
وزیراعظم کی طرف سے بلائی گئی اس کل جماعتی کانفرنس میں ان تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں اور نمائندوں نے شرکت کی جنہیں موجودہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے۔ان میں پاکستان پیپلز پارٹی،پی ٹی آئی،اے این پی،جماعت اسلامی،ایم کیوایم، جمعیت علمائے اسلام (ف)، بی این پی پی ایم ایل(ق)پختون خوا ملی عوامی پارٹی،نیشنل پارٹی،قومی وطن پارٹی،مسلم لیگ(ضیاء)اور جمعیت اہل حدیث شامل ہیں۔ان پارٹیوں کے رہنمائوں نے کانفرنس کے اختتام پر اپنے بیانات میں کہا ہے کہ پاک چین اکنامک کاریڈور پر ان کے تحفظات کو کافی حد تک دور کردیا گیا ہے اور جو تحفظات رہ گئے ہیں،ان کو دور کرنے کیلئے حکومت نے جو میکانزم قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے ،وہ اس پر پوری طرح مطمئن ہیں۔
پاکستان کے سیاسی رہنمائوں اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے متنازع امور پر باہمی بات چیت اور کچھ لواور کچھ د و کے اصول کی بنیاد پر سمجھوتہ یا قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کا یہ پہلا موقعہ نہیں ہے۔اس سے قبل 1956ء میں ملک کے پہلے آئین کو تشکیل دے کر وہ اپنی بالغ نظری اور سیاسی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔پاکستان کے مخصوص جغرافیائی اور سماجی حالات کے پیشِ نظر ایک متفقہ آئین تشکیل دینا اس قدر مشکل اور پیچیدہ کام تھا کہ اس پر9برس صرف ہوئے اور پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ کے ایک ماہر جی ڈبلیو چودھری کے مطابق1950ء کی دہائی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آپہنچا تھا کہ لوگ مایوسی کے عالم میں سوال پوچھنے لگ گئے تھے کہ اس ملک کا آئین بنے گا بھی یا نہیں؟لیکن یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے قوم کو اس مایوسی سے نکالااور ایک متفقہ آئین دیا‘ لیکن بدقسمتی سے تقریباً دوسال بعد ہی جنرل ایوب خان نے اس آئین کو ختم کرکے فوجی آمریت قائم کردی۔1973ء کے آئین کی تشکیل اور بھی مشکل ٹاسک تھا۔ملک حکمرانوں کی کوتاہ اندیشی سے دولخت ہوچکا تھا‘فوج شکست خوردہ تھی اور90ہزارجنگی قیدی بھارت کی تحویل میں تھے۔قوم کا مورال ڈائون اور پاکستان کے دشمنوں کے حوصلے اور عزائم بلند تھے۔ان حالات میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے قوم کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا۔اس طرح پاکستان کے صوبوں کے درمیان پانی کا تقسیم کا تنازع ایک سنگین نوعیت کا مسئلہ رہا ہے۔خصوصاً
پنجاب اور سندھ میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کے پانی کی تقسیم پر سخت اختلافات پائے جاتے تھے۔اس مسئلے کو کامیابی اور تسلی بخش طریقے سے حل کرنے کا سہرا ایک سویلین حکومت کے ہی سر جاتا ہے۔1991ء میں میاں محمد نوازشریف کی حکومت نے پاکستان کے ان دونوں بڑے صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ کے علاوہ کے پی کے (اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ) اور بلوچستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو متفقہ طور پر حل کیا۔1991ء کے اس معاہدے کو ابھی تک صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کیلئے سنگِ میل کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔
''پاک چین اکنامک کاریڈور‘‘پر قومی اتفاقِ رائے کا حصول اسی سپرٹ کا نتیجہ ہے جس کے تحت ماضی میں بھی سیاستدانوں نے اہم قومی امور پر مصالحت اور مفاہمت کا مظاہرہ کیا۔جس طریقے سے وفاقی حکومت خصوصاً وزیراعظم محمد نوازشریف نے قومی ترقی کے اس منصوبے پر مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کو دور کرنے کیلئے فوری اقدامات کیے اور ناراض حلقوں نے بھی جس مثبت طریقے سے تعاون کیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاستدانوں نے اپنی پچھلی غلطیوں سے سبق سیکھنا شروع کر دیا ہے۔مخالفت برائے مخالفت اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کی روش کو ترک کر کے ہمارے سیاستدانوں نے باہمی بات چیت اور کچھ لو اور کچھ دو پالیسی کے تحت متنازع امور کو سلجھانے کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔یہی جمہوریت کی روح ہے اور اسی میں قومی اتحاد اور ترقی کا راز مضمر ہے۔اس وقت مرکز اور دو صوبوں یعنی سندھ اور خیبر پختون خوا میںالگ الگ سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے۔اس کے باوجود مرکز اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعلقات خوشگوار ہیں۔اس کا کریڈٹ بھی سیاستدانوں کو جاتا ہے کہ ماضی کی محاذ آرائی کی پالیسی کو ترک کر کے وہ وفاق کے مختلف یونٹوں کے درمیان تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔