اگرچہ سیاسی مسائل کے کامیاب اور حتمی حل کے لئے سیاسی ذرائع ہی کارآمد ثابت ہوتے ہیں؛ تاہم فریقین اگر قانون کی بنیاد پر کسی حل پر راضی ہو جائیں تو یہ نہ صرف ملک و قوم بلکہ جمہوری اور آئینی اداروں کے لئے ایک نیک شگون ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی بات وزیراعظم نوازشریف نے جوڈیشل کمشن کی رپورٹ پر اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہی ہے کہ اس رپورٹ کے بعد نہ صرف جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم ہوں گے بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں آئین اور آئینی ادارے اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ پُختہ اور بالغ نظر ہو گئے ہیں۔ گزشتہ برس 14 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جو احتجاجی تحریک شروع کی تھی، وہ ایک سیاسی تحریک تھی۔ اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دینے اور پاکستان کے چند بڑے شہروں کو بلاک کرنے کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا لیکن حکومت نے نہ صرف اس دباؤ کا مقابلہ کیا بلکہ 14 اگست سے 17 دسمبر 2014ء تک کے تمام عرصہ کے دوران میں انتہائی اشتعال انگیز تقریروں اور ہتھکنڈوں کے مقابلے میں جس قدر صبر، تحمل، بردباری اور سمجھ سے صورتِ حال کو خراب ہونے سے روکا، وہ اپنی مثال آپ ہے اور اسے سیاسی ایجی ٹیشن پر قابو پانے کے لیے ایک ٹیکسٹ بک کیس کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس تمام عرصہ کے دوران میں حکومت نے طاقت کے استعمال سے گریز کیا اور صورتِ حال کو قابو میں رکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ''تھرڈ امپائر‘‘ کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملا اور اسی وجہ سے عمران خان کو حکومت کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمشن کے قیام کی تجویز تسلیم کرنا پڑی۔
دیکھا جائے تو جوڈیشل کمشن کے ذریعے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی تفتیش عدلیہ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھی کیونکہ بنیادی طور پر یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا، جسے حل کرنے میں ناکامی پر سیاستدان اپنے گلے کا بوجھ اتار کر عدلیہ کے گلے میں ڈال رہے تھے۔ انفرادی دھاندلیوں کی شکایات سننے کے لئے آئین میں دفعہ 225 موجود ہے، جس کے تحت الیکشن ٹربیونل امیدواروں یا امیدواروں کی طرف سے اپنے مدِمقابل کے خلاف دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں اور ثابت کرنے پر انصاف چاہتے ہیں لیکن یہاں پورے الیکشن کو چیلنج کیا گیا تھا، جس کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا کہ کیا یہ صاف اور شفاف تھے؟ اور کیا ان سے حاصل کردہ حکومت کا عوامی مینڈیٹ صحیح اور درست تھا؟
یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی کمشن نے، جس کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے تھے، شب و روز محنت اور باریک بینی کے ساتھ قانون اور انصاف کے تمام تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام فریقین کو اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا موقع دیا اور جو شہادتیں اُن کے سامنے رکھی گئیں، اُن کی بنیاد پر اُنہوں نے فیصلہ دیا۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عدلیہ نے سیاسی معاملات میں مداخلت کر کے قانون اور آئین کی روشنی میں حکومت اور قوم کی رہنمائی کی۔ 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کیا اور اس کے بعد ملک جس آئین اور قانونی بحران سے دوچار ہوا، اُس سے باہر نکالنے میں اعلیٰ عدلیہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ واقعات کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا کہ عین اُس وقت جب ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی سات سال کی محنت، بحث اور سمجھوتے کے بعد پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل کا کام مکمل کر چکی تھی اور باقاعدہ نفاذ سے پہلے اسمبلی کی صرف رسمی منظوری ہی باقی تھی کہ گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954ء کو اسمبلی تحلیل کر دی۔ گورنر جنرل کے اس اقدام کو اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین خاں نے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسمبلی بحال کر دی۔ اس پر وفاقی حکومت یعنی گورنر جنرل نے سپریم کورٹ میں سندھ اسمبلی کے فیصلے کے خلاف اپیل کر دی۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے گورنر جنرل کے اقدام کو اس بنیاد پر برقرار رکھا کہ سندھ ہائیکورٹ نے جس قانون کا سہارا لے کر اسمبلی کو بحال کیا تھا، وہ سرے سے ہی قانون نہیں تھا کیونکہ اسے گورنر جنرل کی منظوری حاصل نہیں تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس قسم کے درجنوں قوانین ایسے ہیں جنہیں صرف اسمبلی کی منظوری حاصل ہونے کے بعد گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر نافذ کر دیا گیا تھا اور عدالتوں نے اِن قوانین کی بنیاد پر اہم فیصلے بھی صادر کر رکھے تھے۔ اِن مقدمات میں ایک مقدمہ راولپنڈی سازش کیس کا بھی تھا جس میں کچھ فوجی افسروں کے ہمراہ فیض احمد فیض کو بھی سزا ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ تمام قوانین غیر موثر ہو گئے اور اِن کے تحت ہونے والے فیصلے بھی کالعدم ہو گئے۔ اِس کے نتیجے میں پاکستان میں ایک ایسا زبردست آئینی اور قانونی بحران پیدا ہوا کہ بقول جی ڈبلیو چودھری ملک کی بقاء خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اِس پر سپریم کورٹ ہی حکومت کی مدد کو آگے آئی اور متعدد گائیڈ لائنز کے ذریعے دوسری آئین ساز اسمبلی کی تشکیل کی گئی، جس نے 1956ء کا آئین منظور کر کے ملک میں آئینی اور قانونی نظام کو بحال کیا۔
2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی چھان بین کرنے والے کمشن کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں اس لئے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس سے قبل کئی معاملات میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کا کردار متنازع رہا تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو کیس کی شکل میں موجود ہے۔ اِس کے علاوہ 1955ء میں گورنر جنرل کے ہاتھوں پہلی آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کو نظریہ ضرورت کے ساتھ جائز قرار دینے کا فیصلہ آج تک متنازع سمجھا جاتا ہے بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اِس فیصلے نے پاکستان میں آئندہ مارشل لاء کی راہ ہموار کی تھی کیونکہ اسی نظریۂ ضرورت کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ نے ایوب خان کے مارشل لاء، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء اور جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے قیام کو جائز قرار دیا تھا۔
تاہم جوڈیشل کمشن نے کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جس طرح قانون اور آئین کی روشنی میں آزادانہ فیصلہ دیا ہے، اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ سابقہ سپریم کورٹس سے مختلف ہے۔ اِس کی وجہ 2007ء کی ملک گیر وکلاء تحریک ہے جس کا بظاہر مقصد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی تھا لیکن اِس تحریک نے ملک میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لئے راستہ ہموار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی موجودہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے بلاخوف و خطر اور بغیر کسی دباؤ کے اہم امور کو قانون اور آئین کے مطابق طے کرنے کا مظاہرہ اُسی تاریخی عمل کا حصہ ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر جوڈیشل کمشن کے فیصلے کا پاکستان کی سیاست پر گہرا اور دوررس اثر پڑے گا۔ اِس فیصلے سے اُن کروڑوں ووٹرز کا جمہوری سیاسی عمل پر اعتماد مضبوط ہوا جنہوں نے دہشت گردوں کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود پولنگ سٹیشنوں پر پہنچ کر اپنی پسند کے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اِس سے پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل نہ صرف مضبوط ہو گا بلکہ اب اِس کا تسلسل بھی قائم رہے گا کیونکہ کمشن کی رپورٹ کے مطابق پیش کردہ شواہد قومی اسمبلی کے 272 میں سے کسی حلقے میں بھی نہ تو منظم دھاندلی کا منصوبہ سامنے آیا ہے اور نہ کسی امیدوار پر دھاندلی کا الزام ثابت ہوا ہے۔ کمشن نے الیکشن کمشن کی طرف سے چند کوتاہیوں کے باوجود 2013ء کے انتخابات کو آئین اور قانون کے مطابق صاف‘ شفاف اور عوامی مینڈیٹ کا آئینہ دار قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن انتخابات کے بارے میں ایسی ہی رائے بین الاقوامی مبصرین نے‘ جن میں یورپی یونین کے مبصرین بھی شامل تھے، دی تھی۔ اِس طرح کمشن کی رپورٹ سے نہ صرف اندرون ملک انتخابی عمل کی ساکھ بحال ہوئی ہے بلکہ ایک جمہوریت پسند ملک کی حیثیت سے پاکستان کا وقار بیرونی دُنیا میں بھی بلند ہوا ہے۔