پشاور میں صوبہ خیبر پختونخوا اپیکس کمیٹی کے ایک اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق جن متعدد اْمور کا جائزہ لیا گیا‘ اْن میں آپریشن ''ضرب عضب‘‘سے متاثرخاندانوں کی اپنے گھروں کو واپسی کی رفتار میں تشویشناک حد تک تاخیر بھی شامل ہے۔اجلاس‘ جس کی صدارت چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کی اور اْس میں سبکدوش ہونے والے گورنر کے پی کے‘ وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر بھی شریک ہوئے تھے،میں اس تاخیر پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا اور وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس سلسلے میں مناسب اور فوری اقدامات کریں کیونکہ گزشتہ اڑھائی سال سے زائد عرصہ سے لاکھوں بے گھر افراد ابھی تک اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے۔اور جو شمالی وزیرستان کے علاقوں میں واپس پہنچنے میں کامیاب ہوچکے ہیں،اْن کی مناسب آبادکاری اور بحالی کے لیے تسلی بخش انتظامات نہیں کیے جاسکے۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی موجودگی اور اْن کے ٹھکانوں کے خلاف جون2014ئمیں ''ضرب عضب‘‘کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا۔آپریشن سے پہلے شمالی وزیرستان کی آبادی کو اپنے علاقے خالی کرنے کیلئے کہا گیا تھا تاکہ عسکری کارروائی کے نتیجے میں جانی نقصان نہ ہوسکے۔حکام کی اس ہدایت کے بعد لاکھوں افراد پر مشتمل ہزاروں کنبے اپنے سازوسامان اور مال مویشی کے ساتھ‘ شمالی وزیرستان سے ملحقہ قبائلی ایجنسیوں اور کے پی کے کے شہری علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ان میں سے کچھ اپنے رشتہ داروں کے پاس بطور مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں اور باقی کرائے کی جگہوں یا حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رہائشوں‘ جن میں مسجد اورسکول بھی شامل ہیں،میں رہ رہے ہیں لیکن بیشتر تعداد عارضی طور پر قائم کردہ کیمپوں میں مقیم ہے۔اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے ان افراد سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ''ضرب عضب‘‘کے مقاصد حاصل کرنے کے بعد فوری طور پر اْن کو واپس اپنے گھروں کو لوٹ جانے میں مدد دی جائے گی اور اس سلسلے میں نہ صرف اْن کو مالی امداد دی جائے گی بلکہ شمالی وزیرستان میں فورسز کی کارروائیوں اور گولہ باری کی وجہ سے اْن کے مکانات اور دیگر جائدادوں کو پہنچنے والے نقصانات کا معاوضہ بھی دیاجائے گا۔اْن سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس میںتاخیر نہیں ہوگی اور بے گھر افراد جلد اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔
حکومتی دعووں کے مطابق اگرچہ چالیس فیصد بے گھر افراد اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں؛ تاہم ابھی 60فیصد بے گھر افراد اپنے علاقوں سے دْور کیمپوں اور دوسرے مقامات پر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں‘ اور دوسری طرف جو افراد اپنے اپنے علاقوں میں پہنچے ہیں ، حکومت کی طرف سے اْن کی بحالی اور آبادکاری کیلئے کیے گئے انتظامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ان کے مکانات اور دیگر رہائشی سہولیات تباہ ہوچکی ہیں اور یہ افراد بدستور سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ملٹری حکام کی طرف سے اس ضمن میں سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کیونکہ اْن کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے90فیصد سے زائد علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کردیا گیا ہے‘لیکن اس آپریشن کے دوسرے مرحلے کی تکمیل باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ متاثرین کی اپنے گھروں کو باعزت اور بحفاظت واپسی یقینی بنائی جائے جس کیلئے کئی ضروری اور پیشگی اقدامات لازمی ہیں۔ان میں سڑکوں کی تعمیر،ہائوسنگ سبسڈی،کاروبار اور دیگر معاشی اور سماجی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں امداد کی فراہمی،تعلیم اور صحت کی سہولیات مہیا کرنا اور قبائلی علاقوں میں تعمیرِ نو اور بحالی کے عمل کو تیز کرنا جیسے معاملات شامل ہے۔
اس عمل کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کیلئے وفاقی حکومت نے رواں مالی سال میں80 ارب روپے مختص کررکھے ہیں۔ان میں سے 30 ارب روپے اگلے تین برسوں میں تعمیرِ نو اور بحالی کے طویل المیعاد منصوبوں پر خرچ کرنے کیلئے ہیں اور باقی ماندہ رقم متاثرین کو ہائوسنگ سبسڈی، نقصانات کے ازالے کیلئے معاوضہ اور بے گھر افراد کی بحالی کے سلسلے میں نقدامداد کے طور پر وقف ہے‘لیکن خود حکومتی ذرائع کے مطابق مختص کی گئی کل رقم یعنی 80ارب روپے سے ابھی تک صرف 15سے20فیصد ریلیز کیا جاسکا ہے۔اور اس کی وجہ دفتری قواعد و ضوابط بتائے جاتے ہیں۔کچھ کارروائی کی یعنی پروسیجرل رکاوٹیں ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے رولز اور ریگولیشنز میں ترمیم کی ضرورت ہے لیکن اگر صورتِ حال یہ ہے تو اس میں بہتری لانے کیلئے فوری اقدامات ہونے چاہیے‘ خواہ اس کیلئے پارلیمنٹ سے رجوع کیا جائے یا صدارتی آرڈیننس جاری کیا جائے۔متاثرین تو انتظار نہیں کرسکتے ۔اُنہیں تو فوری طور پر ریلیف کی ضرورت ہے۔
ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہورہی ہے۔اب تک قبائلی عوام نے بے مثال قربانی اور برداشت کے جذبے کا ثبوت دیا ہے۔اْنہوں نے دہشت گردوں کی دھمکیوں سے مرعوب ہونے کے بجائے پاکستانی حکام کا ساتھ دیا ہے۔اڑھائی برس سے زائد عرصہ سے وہ کسمپرسی اور مناسب روزگار سے محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں اْن کے بچوں کی تعلیم کا حرج ہوا ہے اور کئی بیماریوں اور غیر صحت مند ماحول کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ان مشکلات کے باوجود قبائلی عوام نے فورسز کا ساتھ دیا اور دہشت گردوں کو اپنے علاقوں سے بھاگ نکلنے پر مجبور کیا۔
مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتیں رولز اور ریگولیشنز کا سہارا لے رہی ہیں لیکن اس سمت مزید تاخیر کے تشویشناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔مثلاًدہشت گرد متاثرین میں پائے جانے والے عدم اطمینان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں اور اس طرح وہ نہ صرف اپنے سابقہ ٹھکانوں پر واپسی کا راستہ ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ بے گھر نوجوانوں کو گمراہ کرکے اپنی صفوں میں شامل کرنے میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔افغانستان میں خانہ جنگی کی موجودہ صورت حال اور ''داعش‘‘کی صورت میں ایک نئے خطرے کے ظہور سے دہشت گردی کے جو نئے چیلنج سامنے آچکے ہیں،اْن کے پیشِ نظر پاکستان کی سول انتظامیہ کو متاثرین کی اپنے گھروں کو فوری واپسی اور مستقل بنیادوں پر اْن کی بحالی اور امداد کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہیے‘ ورنہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کے تحت اب تک حاصل ہونے والی نہ صرف کامیابیاں رائیگاں جائیں گی بلکہ دہشت گردوں کو قبائلی علاقوں میں اپنی موجودگی اور سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔
کے پی کے کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اس موضوع پر اظہار کردہ خیالات سے آگاہ ہونے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان نتائج سے لاپروا ہوکر بدستور سْست روی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سیاسی قیادت،دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صرف عسکری قیادت کی ذمہ داری سمجھتی ہے۔یہ سوچ اور رویہ ہر لحاظ سے ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد اور جمہوریت کی بقا کیلئے نقصان دہ ہے کیونکہ جیسا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کیلئے ایک جامع،دْور رس اور مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ایسی حکمتِ عملی کی تشکیل اور اْس پر عمل درآمد کیلئے وسائل کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اگر حکومت اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی،بلکہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام نے گزشتہ انتخابات میں ایک جمہوری اور بھاری مینڈیٹ دے کر حکومت پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے یہ روش اْس کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ دہشت گردی بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی ذرائع سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔