ایم کیو ایم کے رہنما اور کراچی کے سابقہ میئر مصطفی کمال نے اپنے ایک اور ساتھی انیس قائم خانی کے ہمراہ چند روز قبل کراچی میں دھواں دھار پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے چیف الطاف حسین پر ایسے الزامات عائد کیے ہیں جن میں سے بعض واقعی چونکا دینے والے ہیں۔اْن کی پریس کانفرنس سْننے کے بعد بیشتر مبصرین کی رائے میں الطاف حسین کی قیادت کو اب تک جتنے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے،اْن میں سے یہ سب سے بڑا ہے۔ اور دیکھنا یہ ہے کہ گزشتہ 25برسوں سے زائد عرصہ سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے الطاف بھائی اس نئے اور بھر پور وار سے کس طرح نمٹتے ہیں۔مصطفی کمال نے اپنی پریس کانفرنس میں جتنی بھی باتیں کہیں،اْن میں سے بیشتر کا تعلق الطاف حسین کی لیڈرشپ کے سٹائل،کراچی کے حالات اور ایم کیو ایم کارکنوں کو الطاف حسین کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے موقف کی وجہ سے درپیش مسائل سے تھا۔تاہم اس پریس کانفرنس میں اْنہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانے جا رہے ہیں۔اس کیلئے اْنہوں نے قومی پرچم کو بطور فلیگ بھی پیش کیا اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ پاکستان میں موجودہ پارلیمانی طرزِ حکومت کی بجائے صدارتی نظامِ حکومت رائج کیا جائے۔قیام پاکستان کے بعد جب ملک کیلئے نئے آئین کی تشکیل پر پہلی آئین سازاسمبلی میں بحث کا آغاز ہوا،تو اْس وقت بھی پاکستانی ریاست اور طرزِ حکومت کے بارے میں مختلف آراء پیش کی گئی تھیں۔مذہبی حلقوں کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں خلافت کا نظام رائج کیا جائے جس میں نہ تو سیاسی پارٹیوں اور نہ انتخابات کی گنجائش ہو۔کچھ حلقے اْس وقت بھی صدارتی نظام کے حق میں تھے لیکن مارچ1949میں آئین ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کرکے پاکستان کے آئندہ کے سیاسی نظام کیلئے دوبنیادی اصولوں کو طے کر لیا۔ایک یہ کہ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہوگااور دوسرے یہ کہ ملک کا حکومتی نظام پارلیمانی بنیادوں پر استوار ہوگا۔پہلی قانون اسمبلی کے اس فیصلے کی بنیاد پر1956ء کا آئین تشکیل دیا گیا تھا۔
اْس وقت سے لے کر آج تک پاکستان میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت پر مکمل قومی اتفاق رائے چلا آرہا ہے اور جب بھی اس قومی اتفاق رائے سے ہٹ کر پاکستان میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی یا نیم صدارتی نظامِ حکومت رائج کرنے کی کوشش کی،قوم نے اْسے مسترد کر دیا۔مثلاً پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ایوب خان نے1958ء میں1956ء کے آئین کو منسوخ کرکے جب1962ء میں صدارتی نظام ِ حکومت پر مبنی نیا آئین نافذ کیاتو قوم نے سات سال کے بعد ایک عوامی تحریک کے ذریعے ایوب خان کے آئین کو مسترد کر دیا۔یحییٰ خان نے اسے منسوخ کرکے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا اور1970ء کے انتخابات کے بعد نئے یعنی 1973ء کے آئین کو ایک دفعہ پھر پارلیمانی اصولوں پر استوار کر دیا گیا۔جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ اْلٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تھا۔ لیکن وہ 1973ء کے آئین کو منسوخ نہ کرسکا۔اس کی وجہ آئین کا آرٹیکل 6تھا‘ جس کے تحت آئین کی منسوخی کی سزاموت مقرر کی گئی تھی لیکن اْس نے اس جرم کا ارتکاب کیے بغیر 1985ء میں آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے1973ء میں دیے گئے پارلیمانی نظام کو تقریباً صدارتی نظامِ حکومت میں تبدیل کر دیا۔کیونکہ تمام اہم تقرریوں کے اختیارات جن میں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار بھی شامل تھا،اپنے ہاتھ میں لے لیا۔اسی آئینی ترمیم کے تحت صدر غلام اسحاق خان نے1990ء اور1993ء میں باالترتیب وزیراعظم بے نظیر اور وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت کو برطرف کیا۔اور اپنے پیشرو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے صدر فاروق لغاری نے1996ء میں بے نظیر کی دوسری حکومت کو برخاست کیا۔جنرل ضیاء الحق کی آٹھویں ترمیم کو پاکستان
کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے بھی قبول نہیں کیا تھا اور وہ1973ء کے آئین کو اْس کی اصلی حالت یعنی اس میں درج پارلیمانی نظام کو بحال کرنے پر متفق تھیں‘ لیکن 1991ء،1988ء اور1993ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی کسی سیاسی جماعت کو پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل نہ ہوسکی جوکہ آئین میں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظامِ حکومت کی بحالی کیلئے ضروری تھی۔تاہم 1997ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کوقومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے تین ماہ کے اندر آئین میں ترمیم کرکے آٹھویں ترمیم کو حذف کردیا اور پارلیمنٹ کو اْس کے کھوئے ہوئے اختیارات واپس مل گئے۔لیکن اکتوبر1999ء میں اْس وقت کے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم محمد نوازشریف کی حکومت کو برطرف کرکے ملک میں فوجی حکومت قائم کردی جس میں چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اْنہوں نے تمام حکومتی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔2002ء میں جنرل مشرف نے آئین تو بحال کردیا لیکن ایسا کرنے سے پہلے اْس نے پارلیمنٹ سے17ویں آئینی ترمیم منظور کروالی جس کے تحت1973ء کے آئین کی نوعیت ایک دفعہ پھر صدارتی ہوگئی کیونکہ 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جنرل مشرف اْن تمام اختیارات کے مالک بن گئے،جوآٹھویں آئینی ترمیم کے تحت جنرل ضیاء الحق کو حاصل تھے۔2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ جنرل مشرف کی 17ویں ترمیم کو منسوخ کرکے1973ء کے آئین کو اْس کی اصلی صورت میں بحال کرسکے کیونکہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے ممبران کی تعداد کم تھی۔اور مذہبی سیاسی جماعتیں،بشمول جماعتِ اسلامی اور مسلم لیگ(ق)مشرف کے قائم کردہ آئینی ڈھانچے کی حمایت کررہی تھی لیکن 2008ء کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی قومی اسمبلی نے2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملک میں ایک دفعہ پھر پارلیمانی نظام رائج کردیا۔ایسا کرنااس لیے ممکن ہوا کیونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ(ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی 17ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کرناچاہتی تھیں۔
پاکستانی عوام کی طرف سے صدارتی نظامِ حکومت کے خلاف اور پارلیمانی طرزِ حکومت کے حق میں باربار فیصلہ دینے کے باوجود آخر وقتاً فوقتاً صدارتی نظامِ حکومت کے حق میں کیوں آوازیں بلند ہوتی ہیں؟مصطفی کمال صدارتی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے واحد یا پہلے شخص نہیں ‘ان سے قبل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اپنی سیاسی پارٹی کے اعلان کے موقعہ پر پاکستان میں پارلیمانی نظام کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیکر صدارتی نظام کے حق میں آواز بلند کر چکے ہیں۔اْن سے قبل جنرل مشرف کے ایک قریبی ساتھی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمان بھی انگریزی زبان کے ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والے مضامین میں پارلیمانی نظام کے خلاف اور صدارتی نظام کے حق میں دلائل دے چکے ہیں۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں حضرات نے اپنے موقف کی تائید میں قائداعظم کی کسی نا معلوم تحریر کا سہارا لیا ہے جو کہ مشہور قانون دان ایس ایم ظفر کے مطابق نہ تو کسی سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے اور نہ ہی مورخین یا محققین اْس سے واقف ہیں۔اس کے باوجود نہ صرف یہ دونوں حضرات اپنے موقف پر مْصر ہیں بلکہ مصطفی کمال کی طرح نئے لوگ بھی اْن کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں ۔آخر ایساکیوں ہے؟پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ قوم صدارتی نظام حکومت کے خلاف اور پارلیمانی نظام حکومت کے حق میں ہے۔اس کے باوجود مختلف حلقوں کی طرف سے صدارتی نظام حکومت کے حق میں کیوں آوازیں بلند کی جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدارتی نظام حکومت بھی ایک جمہوری نظام ہے اور کئی ملکوں میں وہ کامیابی سے بھی چل رہا ہے اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کے حق میں آواز بلند کرنے والے متعدد افراد خلوصِ نیت سے اسے پاکستان کیلئے بہتر سمجھتے ہوں گے۔اس کے باوجود سیاسی تجربے کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کیلئے پارلیمانی ہی بہترین نظامِ حکومت ہے۔اس کی متعدد وجوہات ہیں۔یہ نظام ایک طویل ارتقائی عمل سے گزر کر موجودہ مرحلے پر پہنچا ہے اور اس کے ارتقا ء میں متحدہ ہندوستان کی قومی سیاسی تحریک اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی جدو جہد اور اِن پْٹ شامل ہے۔یہ واحد نظام ہے جس کا نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ عوام کو بھی تجربہ ہے اور وہ اس کے اصولوں سے واقف ہوتے جارہے ہیں ۔نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے سیاسی تجربات کی روشنی میں پارلیمانی نظام صدارتی نظام کے تحت آمریت یا شخصی حکمرانی کے خلاف سب سے زیادہ موثر ضمانت ہے۔یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک طویل عرصہ تک صدارتی نظام رائج رہنے کے بعد بالآخر 1991ء میں پارلیمانی نظام کو بحال کردیا گیا۔اور اس فیصلے میں بنگلہ دیش کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور بیگم خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی آپس میں متفق تھیں۔نیپال میں بادشاہت کے خاتمہ کے بعد پارلیمانی نظام کا ہی چنائو کیا گیا کیونکہ ملک میں مطلق العنان بادشاہت سے قبل 1950ء میں آئینی بادشاہت اور پارلیمانی نظامِ حکومت ہی رائج تھا۔اب تو سری لنکا میں بھی نئے آئین کے تحت صدارتی نظام کی جگہ پارلیمانی نظام رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ خطے میں پارلیمانی نظام کے حق میں پائے جانے والی فضاء کے باوجود پاکستان میں صدارتی نظامِ حکومت کی باتیں ہورہی ہیں۔اور آخر میں ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ پاکستان کو دوٹکڑے کرنے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایوب خان کے صدارتی نظام کا بڑا ہاتھ ہے۔کیونکہ پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس محمد منیر کے مطابق1962ء کے آئین کے تحت پاکستان میں وفاقی ڈھانچہ عملی طور پر ختم ہوگیا تھا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند رجحانات پروان چڑھے۔