"DRA" (space) message & send to 7575

سارک وزرائے داخلہ کانفرنس

علاقائی تعاون کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے جنوبی ایشیا کے ممالک نے 1985ء میں سارک (SAARC) کے نام سے تنظیم قائم کی تھی۔ ابتدا میں اس کے رُکن ممالک کی تعداد سات تھی‘ لیکن افغانستان کی شمولیت سے یہ تعداد آٹھ ہو چکی ہے۔ دنیا کی دیگر علاقائی تعاون کی تنظیموں مثلاً یورپی یونین(EU) اور آسیان(ASEAN) سے موازنہ کیا جائے تو سارک کے تحت علاقائی تعاون برائے ترقی کے شعبے میں کارکردگی کا ریکارڈ تسلی بخش نہیں ہے۔ مثلاً 30 برس گزر جانے کے بعد بھی سارک ممالک کی بیرونی تجارت کا تقریباً 94فیصد خطے سے باہر ممالک کے ساتھ تجارت پر مبنی ہے۔ گزشتہ دس برس سے سارک ممالک ''سیپٹا‘‘ (SAPTA) کے نام سے ایک آزاد تجارتی علاقہ قائم کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں‘ لیکن اس سمت کامیابی کا یہ حال ہے کہ ابھی تک نہ تو پاکستان اور بھارت کے درمیان آزاد تجارت قائم ہو سکی ہے اور نہ افغانستان کو پاکستان کے راستے بھارت اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بلا روک تجارت کی اجازت ہے۔ بہت سے ماہرین کے نزدیک دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی غربت، پسماندگی، ناہموار اقتصادی ترقی اور اس کے نتیجے میں سماجی مسائل کی ایک بڑی وجہ اس خطے میں علاقائی تعاون کا فقدان ہے اور علاقائی تعاون میں پیش رفت نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مدتوں سے چلے آنے والے اختلافات اور تنازعات ہیں‘ جن میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ ہے۔ اس کا کھلا مظاہرہ 4اگست کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ''سارک‘‘ وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں اس وقت ہوا جب پاکستان اور بھارت کے وزرائے داخلہ کے درمیان تلخی کے بعد بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلے گئے۔ اس سے قبل اسلام آباد اور لاہور میں بھارتی وزیر داخلہ کی پاکستان میں آمد کے خلاف مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی تھیں‘ جن میں زیادہ تر مذہبی جماعتوں کے کارکنان شریک تھے۔ ان کا
مطالبہ تھا کہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر بھارتی وزیر داخلہ کو اسلام آباد کانفرنس میں شرکت سے روکا جائے۔ اسلام آباد میں سارک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس اپنی نوعیت کی ساتویں کانفرنس تھی۔ اس سے پہلے یعنی چھٹی وزرائے داخلہ کانفرنس نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منعقد ہوئی تھی۔ سارک کے تحت منعقد ہونے والی وزرائے داخلہ کانفرنس دیگر شعبوں مثلاً توانائی، ثقافت، اطلاعات اور تجارت میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لیے وزارتی سطح پر منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں سے ایک ہے‘ اور اس کا مقصد رکن ممالک کو درپیش دہشت گردی، نشہ آور اشیا کی سمگلنگ، کرپشن اور اس قسم کے دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے باہمی تعاون کو آگے بڑھانا اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنا ہے لیکن وزرائے داخلہ کی سطح پر کانفرنس کے ایجنڈے میں سب سے اہم آئٹم رکن ممالک کے درمیان سفری سہولتوں کو فروغ دینے کا کام ہے۔ اس کی اشد ضرورت اس لیے محسوس کی جاتی ہے کہ سارک کے رکن ممالک خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان سفری سہولتوں پر سخت پابندی ہے۔ ویزا کے حصول میں دشواریاں نہ صرف عوامی سطح پر رابطوں کے راستے میں رکاوٹ ہیں بلکہ ان کی وجہ سے سارک ممالک کے درمیان تجارت اور معاشی تعاون‘ جو کہ اس تنظیم کے قیام کا اصل مقصد تھا‘محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لیے سارک کے ہر اجلاس میں خواہ وہ سربراہی سطح پر ہو یا وزارتی‘ رکن ممالک پر ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی پابندیوں کو نرم کرنے پر خصوصی زور دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اسلام آباد کی وزارتی کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں سارک ممالک کے درمیان ویزے کی پابندیوں کو نرم کرنے کی سفارش کی تا کہ تجارت اور کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے میں
آسانی ہو۔ اس مقصد کے لیے سارک وزرائے داخلہ کی کانفرنس کے تحت رکن ممالک کے سیکرٹری داخلہ پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ اس کمیٹی کی نگرانی میں رکن ممالک کے امیگریشن حکام پر مشتمل ایک سب کمیٹی کے ذمہ ویزا نظام میں اصلاح اور ترامیم کے لیے سفارشات مرتب کرنا ہے۔ ان سفارشات کو داخلہ سیکرٹریوں کی کمیٹی میں آخری شکل دی جاتی ہے اور اس کے بعد وزرائے داخلہ کی سالانہ کانفرنس میں انہیں حتمی طور پر منظور کیا جاتا ہے۔ وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں منظوری کے بعد ان سفارشات کو ''سارک‘‘ سربراہی کانفرنس کے اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے جہاں انہیں تنظیم کے متفقہ طور پر منظور کیے گئے فیصلوں کی شکل میں جاری کر دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کانفرنس میں بھی یہ سفارشات اہم ایجنڈا آئٹم تھیں۔ خاص طور پر ویزے کے اجرا میں حائل دشواریوں اور پیچیدگیوں کو دور کر کے اسے آسان بنانے کے لیے سارک ممالک کے امیگریشن حکام نے بڑی محنت کے ساتھ اہم سفارشات تیار کی ہیں۔ امیگریشن حکام کے یہ اجلاس بھی اسلام آباد میں منعقد ہوئے تھے اور سارک ممالک کے سیکرٹری داخلہ کی کمیٹی نے امیگریشن حکام کی اس کاوش کو بہت سراہا تھا۔ امید تھی کہ وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں ان سفارشات کی من و عن منظوری کے بعد ''سارک‘‘ ممالک خصوصاً پاکستان اور بھارت کے عوام کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہو گی کہ ویزے کے حصول میں انہیں جو دقتیں پیش آتی ہیں اور مہینوں نہیں بلکہ سالوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے‘وہ سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی نے یہ امید پوری نہ ہونے دی۔ بھارتی وزیر داخلہ کی طرف سے پاکستان کی کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت ‘اور بھارت کی جارحانہ کارروائیوں کی مذمت پر ناراضگی کے اظہار نے ماحول کو خراب کر دیا۔ جب بھارت کے وزیر داخلہ نے آزادی کے لیے لڑنے والے کشمیریوں کو''دہشت گرد‘‘ کہنے پر اصرار کیا اور پاکستان کی طرف سے کشمیری مجاہدین کی حمایت پر نکتہ چینی کی تو پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو بھی ترکی بہ ترکی جواب دینا پڑا۔ اس پر بھارتی وزیر داخلہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں شرکت کیے بغیر واپس وطن چلے گئے۔ اسلام آباد کانفرنس میں پیدا ہونے والی تلخی اور اس کے نتیجے میں بھارتی وزیر داخلہ کا وقت سے پہلے چلے جانا اس حقیقت کی غماضی کرتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں نہ صرف علاقائی تعاون بلکہ امن اور سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ رکن ممالک خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان حل طلب دیرینہ تنازعات ہیں‘جن میں سب سے نمایاں کشمیر کا مسئلہ ہے۔ ماضی میں اس مسئلے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگیں اور ایک محدود جنگ ہو چکی ہے۔ موجودہ کشیدگی کا سبب بھی مسئلہ کشمیر ہے اس لیے نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ عالمی رائے عامہ بھی اس مؤقف کی حامی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو پُرامن طریقے اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے دونوں ممالک 2004ء سے دو طرفہ بات چیت کے ایک فریم ورک ''کمپوزٹ ڈایالاگ‘‘ کے تحت باہمی مذاکرات میں مصروف ہیں؛ اگرچہ مذاکرات کے اس سلسلے کے نتیجے میں دو طرفہ تنازعات خصوصاً کشمیر کے حل کی طرف کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود عالمی برادری کی رائے ہے کہ پاکستان اور بھارت کو دو طرفہ باہمی مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ پاکستان بھی اس رائے سے متفق ہے اور حکومت پاکستان نے متعدد بار اس مؤقف کو دہرایا ہے کہ مذاکرات کے لیے پاکستان کے دروازے کھلے ہیں‘ بشرطیکہ یہ مذاکرات غیر مشروط ہوں اور ان میں دیگر مسائل سمیت کشمیر پر بھی بحث ہو۔ لیکن کشمیر کی موجودہ صورتِ حال نے پاک بھارت براہ راست مذاکرات کے امکان کو اور بھی کم کر دیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف تو ایک بیان میں یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حالات میں پاک بھارت دوطرفہ مذاکرات کی بحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘کیونکہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارت کی سکیورٹی فورسز کی ظالمانہ کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام میں سخت غم و غصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ اس ماحول میں پُرامن اور دوستانہ ماحول میں بات چیت کے امکانات واقعی معدوم ہو جاتے ہیں لیکن ''سارک‘‘ کے تحت مذاکرات اور کانفرنس ایک الگ مسئلہ ہے۔ ان کا تعلق صرف پاکستان اور بھارت سے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے چھ اور ممالک کے مفادات اور ترجیحات سے بھی ہے۔ یہ ممالک ''سارک‘‘ کے عمل کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں‘ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ علاقائی تعاون کے ذریعے وہ اپنے مسائل یعنی غربت، پسماندگی، دہشت گردی اور کرپشن پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس لیے ان ممالک کی شروع سے ہی یہ شدید خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت ''سارک‘‘ کے اجتماعی عمل کو اپنے باہمی تنازعات کی بھینٹ نہ چڑھائیں بلکہ انہیں ایک طرف رکھتے ہوئے ''سارک‘‘ عمل کو آگے کی طرف بڑھنے میں مدد فراہم کریں‘ کیونکہ جنوبی ایشیا کے دیگر خصوصاً چھوٹے ممالک کی ''سارک‘‘ سے زیادہ امیدیں وابستہ ہیں لیکن بدقسمتی سے ''سارک‘‘ پر شروع سے ہی اختلافات کا سایہ منڈلاتا رہا ہے جس کی وجہ سے اہم اور شدید نوعیت کے حامل مسائل کے حل کی طرف بھی پیش قدمی نہیں ہو سکی۔ اسلام آباد میں ''سارک‘‘ وزرائے داخلہ کانفرنس میں پاک بھارت تلخی اس کی ایک مثال ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں