"DRA" (space) message & send to 7575

کشمیر اور بین الاقوامی برادری

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے حق میں عوام کی جدوجہد دوسرے مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اس بات پر سراپا حیرت اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہے کرفیو، پکڑ دھکڑ اور لاٹھی، گولی کے استعمال کے باوجود کشمیری عوام نے ہار نہیں مانی۔ کرفیو توڑ کر‘ مظاہرین سڑکوں پر آ کر بھارتی سکیورٹی فورسز کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ جلوسوں میں پاکستانی جھنڈا لہرا رہے ہیں اور ظلم و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہو کر قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کو سمجھ نہیں آتی کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کے اس مرحلے کو کس طرح دبایا جائے۔ پچھلے دنوں مودی حکومت نے اس سلسلے میں دو کوششیں کیں۔ مگر دونوں ناکام رہیں۔ ایک تو حریت کانفرنس اور دیگر کشمیری رہنمائوں سے مذاکرات کی پیشکش اور دوسرے مقبوضہ کشمیر میں ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا اعلان۔ مؤخرالذکر پیشکش کا مقصد کشمیری نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنا تا کہ ریاست کا نوجوان طبقہ جدوجہد کا راستہ چھوڑ کر اس طرف مائل ہو سکے لیکن کشمیر کے عوام اور ان کی سیاسی قیادت نے ان دونوں پیشکشوں کو مسترد کرتے ہوئے بھارتی حکومت پر کشمیریوں کے بنیادی حق یعنی حق خود اختیاری تسلیم کرنے پر زور دیا اور یہ واضح کر دیا کہ انکار کی صورت میں جدوجہد جاری رہے گی۔ کشمیریوں کے اس ردِعمل پر بوکھلا کر نریندر مودی نے پاکستان پر مداخلت اور دراندازی کا الزام عاید کیا ہے اور اس بوکھلاہٹ میں بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے بارے میں اپنے مضحکہ خیز دعوے کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن اس سے مودی سرکار کو فائدے کی بجائے، الٹا نقصان ہوا۔ بلوچستان کے مختلف شہروں میں عوام کے تمام طبقات پر مشتمل لوگوں نے نہ صرف مودی کے اس دعوے کو مسترد کر دیا بلکہ پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی اور محبت کا والہانہ انداز میں اظہار کیا۔ اس طرح جولائی کے اوائل سے اب تک کشمیر کے مسئلہ پر مودی سرکار کو ہر محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس سلسلے میں تازہ ترین شکست بین الاقوامی سطح پر ہے۔ ویسے تو بین الاقوامی برادری نے کشمیر پر بھارت کے اس مؤقف کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کہ ریاست جموں و کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور بڑی طاقتوں مثلاً امریکہ، برطانیہ، چین اور یورپ نے بھی کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ سمجھا ہے، لیکن کچھ عرصہ سے بھارت کی طرف سے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک خالصتاً دو طرفہ مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے اور اس کی طرف سے اس بات کی سختی سے مخالفت کی جاتی رہی ہے کہ اقوام متحدہ یا کوئی اور ملک کشمیر کے مسئلہ میں کسی قسم کی مداخلت کرے؛ چنانچہ جب بھی امریکہ یا جنوبی ایشیا کے امن میں دلچسپی رکھنے والے کسی ملک کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی جاتی تھی، بھارت اسے ردّ کرنے میں ذرہ بھر بھی دیر نہیں کرتا تھا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ یا امریکہ کی طرف سے مداخلت یا ثالثی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ پاکستان کی یہ پالیسی بھارت کے ساتھ اس کے تجربات پر مبنی ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے زیادہ عرصہ سے پاکستان بھارت کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ 
مئی 2014ء میں بھارت کے پارلیمانی انتخابات کے بعد نریندر مودی کی سرکردگی میں بی جے پی کی حکومت کی تشکیل کے بعد اس بات کی امید پیدا ہو گئی تھی کہ نئی حکومت بی جے پی کے سابق رہنما اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف وہ قدم اٹھائے گی‘ جو اب تک نہیں اٹھائے جا سکے تھے لیکن جولائی 2014ء میں مودی سرکار نے پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مابین مذاکرات کو محض اس بنا پر منسوخ کر دیا کہ نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے کشمیری رہنمائوں سے کیوں ملاقات کی تھی، بھارتی حکومت کے اس اقدام سے پاکستان کو بھارت سے جو تھوڑی بہت امید تھی‘ وہ بھی ختم ہو گئی۔ اس کے بعد پاکستان نے کشمیر پر اپنا مؤقف بدلا، اور اسے محض دو ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بجائے بین الاقوامی برادری کی مداخلت یا دیگر معنوں میں ثالثی کے لیے بھی کوشش کرنا پڑی؛ چنانچہ گزشتہ برس جب وزیر اعظم محمد نواز شریف امریکہ کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل میں تیسرے فریق کے کردار کی بات بھی کی اور اس سلسلے میں خصوصاً امریکہ سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔ اس بارے جہاں تک امریکہ کے باقاعدہ اور سرکاری مؤقف کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ کشمیر کو بھارت کے مؤقف سے برعکس ایک طے شدہ تنازع نہیں تسلیم کرتا بلکہ اس کا مؤقف یہ ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حتمی حل ابھی باقی ہے۔ امریکہ اس مسئلے کے حل میں مدد دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس کا انحصار فریقین یعنی پاکستان اور بھارت کی رضا مندی پر ہے‘ چونکہ بھارت تیسرے فریق کی کسی بھی قسم کی مداخلت کے سخت خلاف رہا ہے‘ اس لیے پاکستان کی خواہش اور دیگر ملکوں کی طرف سے پیش کش کے باوجود مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر نہیں کیا جا سکا۔ لیکن اب اس محاذ پر بھی برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات اور خبر رساں ایجنسیاں کشمیر میں جاری 
موجودہ تحریک آزادی کے بارے میں خبریں اور تبصرے جاری کر رہی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ خود بھارت اور اس کی طرف سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی موجودہ لہر کو تیس برس ہونے کو ہیں۔ اس عرصہ کے دوران جان کا نذرانہ پیش کرنے والے کشمیریوں کی تعداد کئی ہزار ہے، انہیں بغیر کسی مقدمے یا عدالتی کارروائی کے قتل کیا گیا۔ عورتوں کی عصمت دری کی گئی، ہزاروں افراد کو قید کیا گیا۔ اجتماعی قبروں کی دریافت سے بدترین بھارتی بربریت سامنے آئی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی اس وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کے باوجود بھارت کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو محض پاکستان کی طرف سے مداخلت کا نتیجہ قرار دیتا آیا ہے اور یہی تاثر اس نے بین الاقوامی سطح پر بھی پھیلایا ہے لیکن اب بین الاقوامی برادری جس میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے پر مجبور ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتوں کو خط لکھا ہے جس میں نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ آزاد جموں و کشمیر میں بھی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ٹیم بھیجنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ حکومتوں کی طرف سے ضروری اجازت کی درخواست کی گئی ہے؛ اگرچہ پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر کو مقبوضہ کشمیر سے نتھی کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے کمیشن کی جانب سے حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے ایک وفد بھیجنے کے فیصلے کو سفارتی سطح پر پاکستان کی ایک بڑی کامیابی قراردیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کی یہ ہمیشہ سے کوشش تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی طرف بین الاقوامی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کی توجہ مبذول کروا سکے لیکن پاکستان کو اس میدان میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی تھی۔ اس سے نہ صرف پاکستان میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہو رہا تھا بلکہ بھارت کو کشمیر میں اپنی ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھنے پر شہ مل رہی تھی لیکن گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری پاکستان کی کوششیں آہستہ آہستہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم بھیجنے کا اعلان اس سلسلے میں ایک کڑی ہے۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی پیش کش کے جواب میں جو بھارت کا ردعمل سامنے آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اس پر بہت فکر مند ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر دن بدن بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکزبنتا چلا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں بھارتی حکمرانوں پر پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مل بیٹھنے پر دبائو میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے وزیر اعظم نواز شریف کے ایک خط کے جواب میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اب کشمیریوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بن کر نہیں رہے گی۔ عالمی تنظیم کے سربراہ نے کشمیر میں اس وقت خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ اس کی مذمت کی ہے اور خطے کے امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کو لازمی قرار دیتے ہوئے پاکستان اور بھارت دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد اور قوت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ سیکرٹری جنرل کے خط کے مندرجات سے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے کیونکہ پاکستان نے بھی کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی مسئلہ قرار دے کر اس پر بھارت کو بات چیت کی دعوت دی ہے‘ مگر بدقسمتی سے بھارت کی طرف سے پاکستان کی تجویز پر جو رد عمل آیا ہے‘ وہ مثبت نہیں۔ اس سے نہ تو کشمیر کی موجودہ صورت حال میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور نہ کشمیر کے مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی ہو سکتی ہے۔ بھارت کی جوابی تجویز سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مذاکرات سے بھاگ رہا ہے لیکن ایسا کر کے وہ بین الاقوامی برادری کی نظروں میں اپنے مؤقف کو اور بھی کمزور کرے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں