"DRA" (space) message & send to 7575

الطاف حسین‘ ایم کیو ایم اور کراچی کی سیاست

24 اگست کو کراچی میں آمد کے موقع پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد الطاف حسین کے بارے میں اگر کوئی ابہام تھا تو وہ اب باقی نہیں رہا۔ ہر چیز واضح ہو گئی ہے اور ان حقائق کی روشنی میں حکومت الطاف حسین اور مختلف جرائم میں ملوث ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ معلوم نہیں چوہدری نثار کس ابہام کی بات کرتے ہیں۔ جہاں تک الطاف حسین کی سیاست‘ ان کی حکمتِ عملی اور مختلف ہتھکنڈوں کا تعلق ہے تو صرف کراچی اور سندھ ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں کوئی ابہام تھا اور نہ ہے۔ اس لیے کہ 2004ء میں بھارت جا کر پاکستان کے خلاف الطاف حسین نے جو ہرزہ سرائی کی‘ لوگ اسے ابھی تک نہیں بھولے۔ ایم کیو ایم اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے درمیان رابطوں سے ہماری خفیہ ایجنسیاں اچھی طرح واقف تھیں‘ اور 1992ء کے آپریشن سے قبل یہ بات کھلے عام کہی جا رہی تھی کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں بھارت براہ راست ملوث ہے۔ اسی لیے 1990ء کی دہائی میں کراچی میں بھارتی قونصلیٹ بند کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے الطاف حسین نے چند برس قبل برطانوی وزیر اعظم کو جو خط لکھا تھا‘ پاکستان کے عوام اس سے بھی واقف ہیں۔ ان تمام حقائق اور واقعات کی روشنی میں عوام کے ذہنوں میں الطاف حسین کا ملک دشمن کردار کافی عرصہ سے واضح ہے؛ البتہ جو چیز واضح نہیں‘ وہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان الطاف حسین پر ہاتھ ڈالنے اور اسے پوری طرح گرفت میں لینے سے کیوں ہچکچاتی رہی ہے۔
کراچی کی پریس کانفرنس میں چوہدری نثار نے اعلان کیا تھا کہ حکومتِ پاکستان الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے مندرجات پر مشتمل ریفرنس برطانیہ کے حوالے کرے گی۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ نے اس جانب بھی اشارہ کیا تھا کہ حکومت پاکستان برطانیہ سے الطاف حسین کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت نے الطاف حسین کے خلاف جو ریفرنس برطانیہ بھیجا تھا‘ اس کے بارے میں برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو کا کہنا ہے کہ الطاف کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان نے ٹھوس شواہد فراہم نہیں کئے۔ الطاف حسین کے خلاف موثر اور فیصلہ کن اقدامات سے ہچکچاہٹ کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث دو افراد برطانیہ سے فرار ہو کر پاکستان پہنچے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں حکومت نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ موجودہ حکومت سے جب سکاٹ لینڈ یارڈ اور لندن میٹروپولیٹن پولیس نے ان دو افراد کو ان کے حوالے کرنے کی درخواست کی تاکہ تفتیش کو سرے چڑھایا جا سکے تو وفاقی وزارت داخلہ نے اس بنا پر معذرت کی کہ چونکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ نہیں ہے‘ اسی لیے مبینہ ملزمان محسن علی اور کامران کو برطانیہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا میں چھپنے والی خبروں کے مطابق ان دو ملزمان کو اس لیے بھی برطانوی حکام کے حوالے نہ کیا جا سکا کہ پاکستان ان کے بدلے لندن میں بیٹھ کر بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چلانے والے قوم پرست رہنما براہمداغ بگٹی اور حربیار مری کی حوالگی چاہتا تھا‘ لیکن برطانیہ اس پر راضی نہ ہوا کیونکہ ایسا کرنے کے لیے اس کے قانون میں گنجائش نہیں تھی۔ اسی طرح منی لانڈرنگ کیس میں بھی برطانوی تفتیشی حکام کو پاکستان سے مطلوبہ مواد نہ مل سکا‘ جسے بنیاد بنا کر الطاف حسین کے خلاف برطانوی پولیس عدالت میں چالان پیش کر سکتی۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں پاکستان اور پاکستان کے اداروں کے خلاف جو غلیظ اور بے ہودہ زبان استعمال کی ہے اس پر حکومت اور عوام کا ردعمل بالکل جائز ہے‘ لیکن عوام کے ذہنوں میں ایک سوال گھومتا ہے کہ الطاف حسین کی ملک دشمن سرگرمیوں اور دشمن ملک سے رابطوں کے بارے میں معلومات تو حکام کے پاس 1990ء کی دہائی کے اوائل سے ہی موجود تھیں‘ پھر کیوں ان کے خلاف اقدام نہیں کیا گیا؟ بلکہ اس دوران ایم کیو ایم پر حکومتی نوازشوں کی بارش ہوتی رہی۔ جنرل مشرف کا دور اس لحاظ سے ہمیشہ یاد رہے گا۔ اسی دور میں 12 مئی 2007ء کا سانحہ رونما ہوا۔ اس وقت کراچی کے حال ہی میں منتخب ہونے والے میئر وسیم اختر سندھ کے داخلہ امور کے انچارج تھے۔ اس میں ملوث تمام افراد کی نشاندہی کی جا چکی ہے‘ لیکن پیپلز پارٹی کی سابق اور مسلم لیگ نون کی موجودہ حکومت کو اس واقعہ کے ذمہ دار افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہمت نہ ہوئی اور اس کی وجہ سب پر عیاں ہے کیونکہ اسی میں سابق صدر 
جنرل مشرف کے خلاف اقدام بھی ناگزیر ہو جاتا ہے جنہوں نے اس روز اسلام آباد میں مکے لہرا کر کراچی میں مسلح افراد کے ہاتھوں پچاس سے زائد افراد کے قتل کو فخریہ طور پر اپنی طاقت کے مظاہرے کے طور پر پیش کیا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور (2013-2008) میں کراچی کے حالات بہت بگڑ گئے تھے۔ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اس تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا تھا کہ سپریم کورٹ کو کراچی میں امن و امان کے قیام اور تحفظ کے مسئلے پر ازخود نوٹس لینا پڑا۔ سپریم کورٹ کے اس اقدام کے نتیجے میں کراچی میں ستمبر 2013ء میں رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن شروع کرنا پڑا تھا۔ اس سے قبل ذوالفقار مرزا‘ جن کے پاس سندھ کی وزارتِ داخلہ کا قلمدان تھا‘ نے بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں ایم کیو ایم کے ارکان کے ملوث ہونے کے اعداد و شمار پیش کئے تھے‘ لیکن اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کا نوٹس لینے کی بجائے ذوالفقار مرزا کی چھٹی کروا دی کیونکہ زرداری ایم کیو ایم کے تمام نخروں‘ اور اس کے خلاف پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی شکایات کے باوجود اس کے ساتھ سیاسی اتحاد کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے خلاف الطاف حسین کو ہرزہ سرائی اور بدزبانی کی ہمت اس لیے بھی ہوئی کہ ماضی میں اس قسم کی پے در پے کارروائیوں کے باوجود کسی حکومت کو ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف اقدام کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔ سیاسی ہوں یا فوجی حکومتیں‘ سب نے اس سلسلے میں مصلحت اختیار کی۔ یہ کریڈٹ رینجرز کو جاتا ہے کہ انہوں نے ہر قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کی۔ ان کارروائیوں میں ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر یعنی مرکزی دفتر نائن زیرو پر چھاپہ‘ اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے متعدد اعلیٰ عہدیداروں کو حراست میں لینا‘ اور ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات کا اندراج بھی شامل ہے۔ الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر پر ردعمل کے طور پر کراچی اور سندھ میں ایم کیو ایم کے دفاتر سیل کرنے اور غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ دفاتر مسمار کرنے کی مہم بھی انہی کارروائیوں کا حصہ ہے۔ ایسی کارروائیوں کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس سب کے باوجود آئندہ کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں متعدد سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اس لیے کہ غیر یقینی صورتحال ہے اور جس ابہام کے بارے میں چوہدری نثار علی خاں نے کہا کہ 22 اگست کو الطاف حسین کی تقریر کے بعد دور ہو گیا‘ وہ نہ صرف بدستور موجود ہے بلکہ پہلے سے زیادہ گہرا ہو گیا ہے کیونکہ بے شک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ان تمام اقدامات کی تائید کی جا رہی ہے‘ جو رینجرز فوج کی اعلانیہ حمایت سے کراچی میں ایم کیو ایم کے اراکین‘ رہنمائوں اور دفتروں کے خلاف لے رہے ہیں‘ لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ وفاقی اور سندھ کی صوبائی‘ دونوں حکومتیں دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی بالترتیب پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی نمائندہ ہیں‘ اور سندھ کی سیاست میں دونوں اہم سٹیک ہولڈرز ہیں اور اس حیثیت میں صوبے کے دیگر سٹیک ہولڈرز‘ جن میں ایم کیو ایم وفاقی اور صوبائی سطح کے منتخب اداروں یعنی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں اپنی بھاری نمائندگی کی وجہ سے سرفہرست ہے‘ کے ساتھ انٹرایکٹ کرنا پڑتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ الطاف حسین کی تقریر سے صرف ایک دو دن پہلے ہو چکا تھا‘ جب مسلم لیگ نون کے ایک نمائندہ وفد نے ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا‘ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی اور ڈاکٹر فاروق ستار کی ہی قیادت میں ایم کیو ایم کے ہی ایک اور وفد نے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے ملاقات کی‘ جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے چھ ارکان کی رہائی عمل میں آئی۔ پرویز رشید اور مراد علی شاہ‘ دونوں نے ایم کیو ایم کے وفود سے اپنی ملاقاتوں کو خوشگوار اور مثبت قرار دیا تھا‘ اور کراچی کے حالات کو مستقل بنیادوں پر بہتر بنانے کے لیے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں پُرامید تھے لیکن الطاف حسین کی تقریر نے ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس سیاق و سباق میں عوام جاننا چاہتے ہیں کہ رینجرز کا ٹارگٹ کیا ہے؟ الطاف حسین یا ایم کیو ایم؟ اگر الطاف حسین ہے تو رینجرز کو ایک مجرم اور سیاسی پارٹی میں فرق کو سامنے رکھتے ہوئے الطاف حسین کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے ہر اقدام کی اجازت ہے‘ لیکن اگر ٹارگٹ ایم کیو ایم ہے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ رینجرز کو کسی سیاسی پارٹی کے خلاف بغیر کسی قانونی جواز کے اقدامات کرنے کا مینڈیٹ حاصل نہیں۔ کسی سیاسی پارٹی کے سینکڑوں دفاتر سیل کرنا ایک اہم اقدام ہے۔ رینجرز کو اقدام لیتے وقت یقین کر لینا چاہیے کہ اس سے الطاف حسین کو اس کے جرم کی سزا ملتی ہے یا ایک کمیونٹی کے جائز سیاسی حقوق سلب ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں