پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد کو لاک ڈائون یعنی مکمل طور پر مفلوج کرنے کا ارادہ ترک کر کے پریڈ گرائونڈ میں جلسہ کرنے او ریوم تشکر منانے کا فیصلہ کیا۔ بہت سے لوگ حیران ہیں کہ خاں صاحب نے اچانک اپنا پروگرام کیوں تبدیل کیا‘ حالانکہ اس سے چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاک ڈائون کو خلافِ قانون قرار دے کر پی ٹی آئی کو پریڈ گرائونڈ میں جلسہ کرنے یا دھرنا دینے کے آپشن کو استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ خود حکومت کے ذمہ دار اہلکار بار بار اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ اگر عمران خاں اسلام آباد جلسہ کرنا چاہیں اور واضح طور پر اعلان کر دیں کہ وہ شہر کو لاک ڈائون نہیں کریں گے تو ان کی اور ان کے ساتھیوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی‘ لیکن خان صاحب اسلام آباد پر یلغار کرنے پر بضد تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے حکومت کی پیش کش رد کرنے کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی مسترد کر کے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ پھر آخر وہ کون سی وجوہ تھیں جن کی بنا پر خان صاحب کو اپنا پروگرام تبدیل کرنا پڑا۔ اس سے بڑھ کر یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں گُھوم رہا ہے کہ اب جبکہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت شروع کر دی ہے اور فریقین نے اس پر اپنے اعتماد کر دیا ہے تو کیا سیاست میں گرما گرمی کم ہو جائے گی؟ عمران خان کا رویہ کیا ہو گا؟ کیا وہ پہلے کی طرح وفاقی حکومت پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھیں گے اور پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی کی سیاست جاری رہے گی؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو اس کا جواب خود عمران خان نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ انہوں نے خُون خرابے کے خدشے کے پیش دھرنا اور لاک ڈائون مؤخر کر دیا‘ لیکن خان صاحب کو یہ خیال اُس وقت کیوں نہیں آیا جب اُنہوں نے لاک ڈائون کا اعلان کیا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے دارالحکومت پر
چڑھائی کی جائے اور خون خرابہ نہ ہو۔ شیخ رشید تو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جب تک لاشیں نہیں گریں گی‘ وہ حالات پیدا نہیں ہوں گے جن میں نواز شریف کو کرسی سے اتارا جا سکے۔ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے سے کچھ دن پہلے بھی شیخ رشید احمد نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس دفعہ دھرنا پرامن نہیں رہے گا اور کئی لاشیں گر سکتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن کے خیال میں اِس کی ذمہ داری وزیر اعظم نواز شریف پر عائدہو گی۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے کیس کی سماعت کا فیصلہ ان کی بہت بڑی فتح ہے اور دھرنے کا مقصد بھی یہی تھا‘ اب جبکہ مقصد حاصل ہو گیا ہے تو پی ٹی آئی اس پر یوم تشکر منائے گی۔ یاد رہے کہ عمران خان نے بنی گالہ میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف استعفیٰ دے دیں تو وہ جشن منائیں گے۔ لیکن عمران خان کا یہ کہنا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں کیس ایڈمٹ ہونے کے بعد لاک ڈائون کا پروگرام ترک کیا ‘ اس لیے بھی کنونسنگ نہیں کہ بہت سے لوگوں نے عمران خان پر زور دیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں اور اگر ان کے نزدیک فیصلہ تسلی بخش نہ ہو تو پھر جو چاہیں لائحہ عمل اختیار کریں‘ مگر اِس مشورے کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں کیس چلتا رہے گا ‘میں اپنے پروگرام کو تبدیل نہیں کروں گا۔ انہوں نے یہ جو بات کی کہ ہماری ایجی ٹیشن کی وجہ سے سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کا فیصلہ کیا ہے‘ اپنی نوعیت کا انتہائی خطرناک بیان ہے۔ اس سے عدلیہ کی ساکھ متاثر اور عوام کا انصاف کے اس اعلیٰ ترین ادارے پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ عمران خان کی طرف سے دھرنا ترک کرنے اور اس کے بجائے
ایک جلسہ کرنے کے حق میں جو وضاحتیں پیش کی گئیں‘وہ اتنی کمزور ہیں اور انہیں عمران خان کے اس اچانک فیصلے کے محرکات تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ تو اصل محرکات کیا ہیں؟ انہیں تلاش کرنا مشکل نہیں۔ سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسی دفعہ حکومت کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ عمران خان کا خیال تھا کہ وہ 2014ء کی طرح اس دفعہ بھی بلا روک نہ صرف جلوس کے ساتھ اسلام آباد پہنچ جائیں گے، بلکہ پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکن بھی ملک کے مختلف حصوں سے اسلام آباد جمع ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔30ستمبر کو رائے ونڈ میں جلسہ ان کے سامنے ایک مثال تھی۔ اس جلسے میں شریک ہونے والے لوگوں کو پنجاب حکومت نے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ عمران خان کا خیال تھا کہ اسلام آباد جانے والے راستے بھی اسی طرح کھلے رہیں گے۔ اوروفاقی حکومت سخت ردّ عمل کے خوف کی وجہ سے اسلام آباد آنے والے جلوسوں کو روکنے کی جرأت نہیں کرے گی‘ لیکن اس دفعہ حکومت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی جس کا اندازہ عمران خان نہ کر سکے۔ حکومت نے شہروں‘ سڑکوں اور مختلف راستوں کی ناکہ بند ی کر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلام آباد جانے سے روک لیا۔ 28اکتوبر کو شیخ رشید کی رہائش گاہ ‘لال حویلی راولپنڈی میں جلسے کا پروگرام تھا‘ جس میں عمران خان نے بنی گالہ سے آ کر شرکت کرنا تھی۔ کچھ ذرائع کے مطابق اسلام آباد لاک ڈائون کا اسی دن پروگرام تھا۔ حکومت کو اس کی اطلاع ہو گئی اور حکام نے فیصلہ کیا کہ جلسے کو کسی قیمت پر نہ ہونے دیا جائے ۔اس مقصد کے لیے ایک طرف حکومت نے عمران خاں کو بنی گالہ سے نہ نکلنے دیا اور دوسری طرف لال حویلی کو جانے والے تمام راستوں پر کنٹینر کھڑے کر کے لوگوںکو جلسے میں شرکت سے روک دیا۔ شیخ رشید چھپ چھپا کر کمیٹی چوک پہنچ توگئے‘ لیکن ان کا یہ کارنامہ کوئی امپیکٹ پیدا نہ کر سکا۔ حکُومت اپنے مقصد میں کامیاب رہی اور عمران خان شیخ رشید کے ساتھ لال حویلی میں جلسہ کرنے میں ناکام رہے۔2نومبر سے قبل عمران خان پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی تھی کہ حکومت کی مؤثر حکمت عملی سے اس کے پاس مطلوبہ تعداد میں لوگ نہیں پہنچ سکیں گے جن کو ساتھ لے کر وہ اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
سب سے تشویش ناک صورت حال پختون خوا سے پی ٹی آئی ورکرز کے قافلے‘ جس کی قیادت خود وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کر رہے تھے ‘ کو پنجاب میں داخل ہونے سے روکنے سے پیدا ہوئی اور میرے خیال میں عمران خان کی طرف سے دھرنا یا لاک ڈائون ترک کرنے میں اس صورت حال نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اسلام آباد کے لیے جلوس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت یقینی بنانے کے لیے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے حلقہ صوابی میں ایک جلسہ بھی منعقد کیا تھا۔ اسی جلسے میں لوگوں کو موٹی ویٹ کرنے کے لیے انہوں نے پختون نیشنلزم اور صوبائی خود مختاری کا نعرہ لگایا۔ پرویز خٹک نے جوش خطابت میں پٹھانوں اور پنجابیوں کے بارے میں جو الفاظ کہے‘ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ لڑائی پی ٹی آئی اور پی ایم ایل(ن) کے درمیان نہیں بلکہ پنجابیوں اور پختونوں کے درمیان ہے۔''پی ٹی آئی کے لوگ پٹھان ہیں اگر ان کا راستہ روکیں گے تو بغاوت کا اعلان کر دیں گے‘ راستے میں آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کر دیں گے‘‘۔ جن لوگوں کو پاکستان کو ابتدائی برسوں میں درپیش مسائل کا علم ہے‘ وہ بخوبی جان سکتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے۔پرویز خٹک کو بجلی کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کے پی کے کے شیئر اور پاک چین اکنامک کوریڈور کے مغربی روٹ کے حوالے سے‘ وفاقی حکومت سے پہلے ہی بہت سی شکایتیں ہیں اور وہ ان شکایتوں کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں‘ بلکہ انہوں نے وفاقی حکومت پر سی پیک کی تعمیر میں پنجاب سے ترجیحی سلوک کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ چونکہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکمران جماعت یعنی پی ایم ایل(ن) پنجاب سے حاصل کردہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی بنیاد پر مرکز میں حکومت کر رہی ہے‘ اسی لیے وفاقی حکومت پر تنقید کا مطلب عام طور پر پنجاب سے شکایت کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ طالبان کے جن دھڑوں کے خلاف فوج نے مؤثر کارروائی کر کے انہیں اپنے اڈوں اور ٹھکانوں سے محروم کیا ہے اُنہوںنے بھی پاک فوج کے خلاف اپنا مذموم پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ ان حالات میں پی ایم ایل(ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کو پٹھان اور پنجابی کے درمیان لڑائی قرار دینا ملک اور قوم کے اتحاد اور یگانگت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر عمران خان اپنا دھرنا اور اسلام آباد کے لاک ڈائون کا پروگرام جاری رکھتے اور پرویز خٹک اپنے جلوس کو نادر شاہ کا لشکر سمجھ کر اسلام آباد کی طرف زبردستی مارچ کرنے پر اصرار کرتے تو معاملات اور بھی بگڑ سکتے تھے‘اور ہو سکتا ہے کہ حالات نہ صرف پرویز خٹک بلکہ عمران خان کے ہاتھ سے بھی نکل جاتے۔ اسی لیے خیال یہ ہے کہ مقتدر حلقوں نے مداخلت کر کے صورت حال کو ٹھنڈا کیا اور یوں عمران خان کا لاک ڈائون‘ ناک ڈائون میں تبدیل ہو کر دھرنے کی بجائے ایک جلسے کی صورت اختیار کر گیا۔