تقریباً18ماہ بعد سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ کراچی ایئر پورٹ کے اولڈ ٹرمینل پر پارٹی کارکنوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ تو دعویٰ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر برسر اقتدار آئے گی لیکن اپنے مخالفین یعنی پی ایم ایل(ن) کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان سخت بیانات سے احتراز کیا جن کی ان سے توقع کی جا رہی تھی، حتیٰ کہ ان کی تقریر میں، جو مبصرین کے مطابق اکھڑی اکھڑی اور بے ربط تھی، کراچی میں ان کے ایک قریبی بزنس مین کے دفتر پر چھاپے اور ملازمین کو حراست میں لیے جانے کے واقعہ کا بھی ذکر نہیں تھا۔ جون 2015ء میں سابق صدر کو جس تقریر کی بنا پر اچانک ملک سے باہر جانا پڑا تھا، اس میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کی تھی اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت یا ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی صورت میں ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی۔ لیکن اپنی آمد کے موقع پر انہوں نے اندرونی مسائل کی بجائے بیرونی مسائل مثلاً کشمیر پر ایک ایسا بیان داغا‘ جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ سابق صدر کی وطن واپسی کے بعد سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ قومی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی اور اس میں آصف علی زرداری کا کیا کردار ہو گا؟ اس ضمن میں خود سابق صدر نے کوئی واضح اشارہ نہیں دیا۔ خیال تھا کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی موجودہ حکومت کے خلاف ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے قیام کا اعلان کریں گے کیونکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات میں اس قسم کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں۔ وطن آنے سے پہلے خود سابق صدر نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ٹیلیفون پر جو رابطے کیے تھے، ان سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت مل رہی تھی، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ زرداری صاحب نے یا تو یہ ارادہ ترک کر دیا ہے یا اس کا اعلان وہ کسی مناسب موقع پر کریںگے۔ اصل
بات کیا ہے، یہ زرداری صاحب ہی جانتے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے ایک وسیع تر اتحاد کے قیام کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ انتخابات کے قریب ہم خیال سیاسی جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے باہمی اتحاد کر لیں۔ جہاں تک ایک پلیٹ فارم سے حکومت کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے تحریک چلانے کا سوال ہے، اس کا کوئی امکان نہیں۔ جو سیاسی پارٹیاں پاناما لیکس پراکٹھی نہیں ہو سکتیں وہ ایک بظاہر مستحکم اور پاپولر حکومت کو گرانے کے لیے مشترکہ طور پر ایک موثر تحریک کیسے چلا سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک ایسے قومی اتحاد کے قیام کا اس لیے بھی امکان کم ہے کہ اپوزیشن کیمپ میں دوسری بڑی سیاسی پارٹی یعنی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اس کے تعلقات پوری طرح ٹھیک نہیں ہیں، بلکہ کراچی ایئر پورٹ پر آصف زرداری نے سیاسی اداروں کا نام لے کر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی پالیسیوں اور رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ سابق صدر نے اپنے خطاب میں یہ کہہ کر کہ جمہوریت کا کوئی متبادل نظام قابل قبول نہیں اور اگر جمہوریت سے روگردانی کی گئی تو یہ ملک کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو گی، بیشتر مبصرین کی اس رائے کی تصدیق کر دی ہے کہ سابق صدر کے واپس وطن آ جانے کے بعد بھی پیپلز پارٹی پی ایم ایل(ن) کی حکومت کے خلاف اس حد تک نہیں جائے گی کہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر جائے۔ سابق صدر کی طرف سے 2013ء کے انتخابات کے بعد اقتدار کی پرامن منتقلی اور جمہوریت کے تسلسل کی تعریف سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں اور موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے؛ تاہم کچھ طاقتیں چاہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آپس میں اسی طرح دست و گریباں ہوں، جس طرح وہ 1990ء کی
دہائی میں ہوئی تھیں کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بقول پاکستان میں سیاسی طاقت کے دو سرچشموں یعنی پنجاب اور سندھ میں علی الترتیب مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے اور جب تک یہ قبضہ قائم ہے تحریک انصاف کا اقتدار میں آنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے کچھ حلقے جن میں وزیر اعظم نواز شریف بھی شامل ہیں، اس حقیقت سے واقف ہیں۔ اسی لیے انہوں نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے بھی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ بلکہ وزیر اعظم نوازشریف نے تو سابق صدر کی وطن واپسی کو خوش آمدید کہتے ہوئے‘ زرداری سے اچھے تعلقات کی اُمید ظاہر کی ہے۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار وزیراعظم کے قریبی ساتھی اور وفاقی کابینہ کے رُکن خواجہ سعد رفیق نے بھی کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی میں آپریشن کے دوران میں جب رینجرز نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے دوران سیاست دانوں کے خلاف اور سرکاری محکموں کے دفاتر پر چھاپے مارنا شروع کئے تھے، تو انہی حلقوں نے یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ وائٹ کالر جرائم کے خلاف کارروائی کرنا رینجرز کا کام نہیں۔ خود وزیراعظم نوازشریف بھی کراچی اور سندھ میں رینجرز کے آپریشن کو صوبائی حکومت کی نگرانی میں جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ دراصل ملکی معاملات چلانے میں، خواہ ان کا تعلق دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہو یا مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات کا مسئلہ‘ وزیراعظم درپیش مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کے حق میں ہیں اور اس سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے کردار کو اہم سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اقتدار کی جنگ میں ایک حریف پارٹی ہے‘ لیکن جمہوریت کے تسلسل‘ آئین کے تقدس اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے وزیر اعظم اُسے اپنا حلیف سمجھتے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم نوازشریف کی پوری کوشش ہو گی کہ پیپلز پارٹی حزب اختلاف کی ایک اہم جماعت ہونے کی حیثیت سے آئین کی حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے۔
لیکن پیپلز پارٹی کے سامنے دو بڑے چینلجز ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے سابق صدر کیا حکمت عملی اپناتے ہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ان میں سے ایک چیلنج یہ ہے کہ اندرون سندھ کے علاوہ پیپلز پارٹی کا ملک کے دیگر حصوں خصوصاً پنجاب میں وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے سابق صدر نے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ پنجاب میں مستقل پڑائو ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن یہ پندرہویں اور سولہویں صدی کا زمانہ نہیں جب ایک حملہ آور اپنی فوجوں سمیت کسی ملک پر چڑھ دوڑتا تھا اور قبضہ کر لیتا تھا۔ اب یہ جنگ انسانوں کے دل و دماغ جیتنے کی جنگ ہے، جس کے لیے محض پڑائو کافی نہیں۔ اگر سابق صدر یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی محض مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر وہ کوئی جگہ بنا سکتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہو گی۔ پنجاب کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ لا اینڈ آرڈر کی خراب صورت حال‘ دیہی علاقوں کی ناگفتہ بہ صورتحال اور خاندان اور برادری پر مبنی مسلم لیگ نون کی گورننس کے مقابلے میں کوئی ایسی متبادل حکمت عملی اور پروگرام عوام کے سامنے پیش کریں جو انہیں اپیل کر جائے۔ پیپلز پارٹی کو درپیش دوسرا چیلنج کراچی میں رینجرز کا آپریشن ہے۔ سابق صدر کی آمد سے صرف چند گھنٹے قبل رینجرز کی طرف سے سابق صدر کے ایک قریبی بزنس مین کے دفتر پر رینجرز کے چھاپے سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ کراچی آپریشن نہ صرف جاری رہے گا بلکہ زرداری صاحب کی آمد کے بعد اس میں تیزی بھی آ سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک ان چھاپوں کا مقصد سابق صدر کو مقتدر حلقوں کی طرف سے اسی نوع کا پیغام بھیجنا ہے کہ اُن کی آمد سے آپریشن کی سمت اور رفتار پر اثر نہیں پڑے گا۔ سندھ کی حکومت نے ان چھاپوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ قرار دیا ہے جس کا مقصد سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو اشتعال دلا کر اقدامات پر مجبور کرنا ہے اور جن کو جواز بنا کر مرکزی حکومت صوبائی حکومت کے خلاف کارروائی کرے، جس میں گورنر راج کا نفاذ بھی شامل ہو سکتا ہے اور اگر ایسی نوبت نہ آئے تو سندھ حکومت کو بائی پاس کر کے رینجرز کے ذریعے ایسے اقدامات کروائے جائیں جن سے سندھ کی حکومت مفلوج ہو کر رہ جائے‘ اس سے اس کی ساکھ متاثر ہو گی جس کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں کو اندرون سندھ میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کا موقع مل سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی کارروائی کے بعد‘ پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ اُس کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک ہونے والا ہے، جس کی ایک مثال ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور متواتر قید ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا الزام ہے کہ اُس کے خلاف اس مہم کی قیادت وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے ہاتھ میں ہے اور اس میں چونکہ انہیں مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہے اس لیے وزیراعظم نوازشریف بھی بے بس ہیں۔ پنجاب میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کے آخری مرحلے یعنی ڈسٹرکٹ کونسلز کے چیئرمین/ ڈپٹی چیئرمین اور میونسپل کارپوریشنز کے میئرز کے چنائو میں مسلم لیگ نون کی بھاری کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں اس کی پوزیشن مضبوط ہے اور آئندہ انتخابات تک کسی قسم کی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس لیے سابق صدر زرداری کی آمد سے ملکی سیاست میں کوئی طلاطم نہیں آئے گا۔ کسی قسم کے قومی سیاسی اتحاد کا کوئی امکان نہیں‘ دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح پیپلز پارٹی کی توجہ کا مرکز بھی 2018ء کے انتخابات ہوںگے۔ ان میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے البتہ زرداری صاحب پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔