بھارت میں جن ریاستی(صوبائی) انتخابات کے نتائج کا عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا وہ آخر آ ہی گئے ہیں ۔یہ انتخابات بھارت کے شمال‘ شمال مغرب‘ شمال مشرق اور جنوب مغرب میں واقع ریاستوں یعنی علی الترتیب اتر پردیش‘ مشرقی پنجاب ‘ منی پور‘ اُترکھنڈ اور گوا میں ہوئے تھے ان ریاستوں میں دو یعنی اتر پردیش اور اُترکھنڈ میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کی ہے ۔ پنجاب میں کانگرس نے میدان مارا ہے اور باقی دو ریاستوں یعنی منی پور اور گوا میں کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ لیکن سب کی نظریں اتر پردیش پر لگی ہوئی تھیں ‘جو آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی (22کروڑ) ریاست ہے۔ ان انتخابات میں بی جے پی ‘مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) اور سماج وادی پارٹی(ایس پی) اور کانگریس پر مشتمل اتحاد کے درمیان معرکہ تھا۔ یہ معرکہ بی جے پی نے 403نشستوں میں سے 325پر قبضہ کر کے جیت لیا ۔ یہ نشستیں کل نشستوں کی تین چوتھائی سے بھی زیادہ ہیں اور گزشتہ چالیس برس میں اس ریاست میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں کسی سیاسی پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق بی جے پی نے جس انتخابی حلقے میں بھی جلسہ کیا وہاں سے ان کا امیدوار کامیاب ہوا۔ حتیٰ کہ یو پی میں مسلمان ووٹرز کی ایک بڑی تعداد سے بھی بی جے پی کی انتخابی مہم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ جو مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے بقول سونامی بن کر پورے اتر پردیش پر چھا گئی۔
اتر پردیش میں بی جے پی کی فقید المثال کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ اب نریندر مودی ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر بلا روک ٹوک عمل درآمد کر سکیں گے‘ کیونکہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں بی جے پی کو مطلوبہ اکثریت حاصل ہو جائے جسے کام میں لا کر مرکزی حکومت ہر شعبے میں اصلاحات نافذ کرسکے گی۔ اتر پردیش میں اگرچہ ابتدا سے
ہی بی جے پی کا پلڑا بھاری نظر آ رہا تھا اور دیگر سیاسی حریفوں کے مقابلے میں اس کی کامیابی کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں لیکن اتنی بڑی کامیابی نے بی جے پی کے مخالفین کو تو کیا اپنوں کو بھی حیران اور ششدر کر دیا ہے۔ اسی حیران کن کامیابی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ اور اس کے بھارت کے اندر خصوصاً آئندہ(2019) کے پارلیمانی انتخابات اور ملک سے باہر یعنی ہمسایوں خصوصاً پاکستان سے تعلقات پر کیا اثرات پڑیں گے؟اب مختلف حلقوں اور تبصرہ نگاروں کی طرف سے اس پر بحث جاری ہے۔
جہاں تک اس کامیابی کے پیچھے کارفرما محرکات کی بات ہے تو ریاست میں بی جے پی کی فتح کے معمار امیت شاہ نے اس کا سارا کریڈٹ وزیر اعظم مودی اور پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کو دیا ہے جنہوں نے دن رات ایک کر کے پوری ریاست میں بی جے پی کی تاریخی کامیابی کی بنیاد رکھی۔ خود وزیر اعظم نے اتر پردیش میں کامیابی کو اپنی حکومت کی معاشی ترقی اورگڈ گورننس پر مبنی پالیسی کی جیت قرار دیا ہے۔ لیکن بھارت کے ایک اہم اخبار''ہندو‘‘ نے اپنے اداریے میں بی جے پی کی اس کامیابی کو معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ پارٹی کی طرف سے ہندو نیشنلزم کی بہتر مارکیٹنگ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ عمر عبداللہ کے مطابق بی جے پی کی یہ کامیابی دراصل ریاست اتر پردیش میں اس کے مد مقابل سیاسی پارٹیوں یعنی ایس پی کانگرس اور بی ایس پی کی ناکامی زیادہ ہے کیونکہ وہ بہار کے ریاستی انتخابات کے برعکس نہ تو ایک متحدہ محاذ یا گرینڈ الائنس پیش کر سکے اور نہ بی جے پی کے پروگرام کے مقابلے میں کوئی ایسا متبادل پروگرام پیش کر سکے جو ووٹرز کو اپیل کر سکتا تھا۔ بی جے پی نے اتر پردیش میں اپنے سیاسی مخالفین کو جس طرح پچھاڑ ہے اس نے اس کے دیگر حریفوں کو بھی تشویش سے دوچار کر دیا ہے ان میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی بھی شامل ہیں جنہوں نے اتر پردیش میں بی جے پی کے مدمقابل ایس پی اور کانگرس کے اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ مغربی بنگال پر بی جے پی نے ایک عرصہ سے نظریں لگا رکھی ہیں اور وہاں اس نے اپنی طاقت اور اثر و نفوذ کو آہستہ آہستہ بڑھانا شروع کر دیا ہے‘ تاہم مبصرین کے مطابق نریندر مودی ابھی ممتا جی کے خلاف محاذ نہیں کھولیں گے کیونکہ مرکزی حکومت کو ابھی ٹرسیٹا دریا کے مسئلے پر ان کی حمایت کی ضرورت ہے ۔یہ مسئلہ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور نریندرمودی اس پر بنگلہ دیش کو رعایت دے کر اس سے تعلقات میں بہتری لانا چاہتے ہیں پانچ ریاستوں کے ان انتخابات کو بھارت کے آئندہ یعنی 2019ء کے پارلیمانی انتخابات کے حوالے سے سیمی فائنل کہا جاتا تھا۔ اس میں کلین سویپ سے بعض مبصرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اب 2019کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ عمر عبداللہ کے مطابق بی جے پی کی مخالف پارٹیوں کو اب 2019ء چھوڑ کر 2024ء کے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے۔ اور انہیں اب یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ محض حکمت پر نکتہ چینی ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں بلکہ انہیں ایک ایسا متبادل پروگرام پیش کرنا چاہیے جو عوام کو اپیل کر سکے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اتر پردیش میں تین چوتھائی سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کا یہ ہرگز مطلب ہیں کہ 2019ء کے انتخابات میں بھی بی جے پی میدان مارے گی۔ ایسا سوچنے والوںمیں کانگرس کے ترجمان مانیش تیواری بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ یعنی 2004ء اور 2009ء کے انتخابات جن میں بی جے پی کو کانگرس کے ہاتھوں شکست کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی انتخابات میں کامیابی سے آنے والے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کی راہ خود بخود ہموار ہو جاتی ہے۔ بلکہ ان کا انحصار حکومت کی کارکردگی اور اس دوران میں وقوع پذیر ہونے والے غیر متوقع واقعات پر بھی ہو سکتا ہے خود اخبار''ہندو‘‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اتر پردیش کے ریاستی انتخابات کے نتائج نے جہاں ایک طرف یہ ثابت کیا ہے کہ 2014ء میں بی جے پی کو اقتدار سے ہمکنار کرنے والی''مودی لہر‘‘ ابھی قائم ہے وہاں یہ بھی حقیقت سامنے آتی ہے کہ 2014ء کے انتخابات کے مقابلے میں 2017ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب قدرے کم ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مودی لہر اپنے عروج پر پہنچ کر ایک نکتے پر ٹھہر گئی ہے ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے الے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو گزشتہ تقریباً ڈھائی برس کے دور اقتدار میں قومی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس سے بے روزگاری کم نہیں ہوئی۔ بی جے پی کے آئندہ ڈھائی برس میں معاشی ترقی کا عام آدمی کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب 2019ء کے انتخابات میں بی جے پی یا اس کے حریفوں کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرے گا۔
اتر پردیش کے معرکے کا فیصلہ ہونے سے قبل یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اس کے بعد پاکستان اور بھارت میں موجودہ کشیدگی میں نمایاں کمی آئے گی۔ کیونکہ یہ کہا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم مودی کی حکومت ان ریاستی انتخابات میں ہندو ووٹ کے حصول کی خاطر پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہے۔ اور انتخابات کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کے موقف میں نہ صرف نمایاں تبدیلی آئے گی بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا بھی قوی امکان ہے لیکن ایسا ہونا اس لیے بھی قرین قیاس نہیں کہ اول تو اتر پردیش میں بی جے پی نے پاکستان کا پتہ نہیں کھیلا۔ اور اگر کہیں ایک آدھ مواقع پر امیت شاہ اور بی جے پی کے ریاستی رہنمائوں نے انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے لیے پاکستان مخالف بیانات بھی دیے ہیں تو ان کا ووٹروں پر فیصلہ کن اثر نہیں پڑا۔ دوسرے پاکستان میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت اگلے سال نئے انتخابات کا سامنا کرنے والی ہے اغلب امکان یہ ہے کہ مودی حکومت پاکستان میں 2018ء کے انتخابات کے نتائج کا انتظار کرے گی اور نئی منتخب حکومت کے ساتھ بات چیت کو ترجیح گی۔ مگر اس سے اگلے سال یعنی2019ء میں بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں پاکستان میں جو حکومت 2018ء کے انتخابات کے بعد تشکیل پائے گی وہ نئی بھارتی حکومت سے بات چیت کرنا زیادہ مناسب سمجھے گی۔ اس لیے اتر پردیش میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی بی جے پی کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔نہ ہی پاکستان بھارت کے ساتھ فوری مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کرے گا۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ دونوں ملکوںمیں تعلقات کی پوزیشن جوں کی توں رہے گی۔ البتہ کشیدگی کو قابو سے باہر جانے سے روکنے کے لیے انسانی بنیادوں پر خیر سگالی کے اقدامات کرتے رہیں گے۔