14 اور 15 مئی کو عوامی جمہوریہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں دنیا کے تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ کو ریل سڑک اور بحری راستوں کے ایک جال کے ذریعے باہمی طور پر مربوط کرنے کے منصوبے پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ منصوبہ سب سے پہلے چین کے موجودہ صدر ژی جن پنگ نے 2013ء میں قازقستان کے دورے کے دوران میں پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد قدیم شاہراہ ریشم کو بحال کرکے چین اور ایشیائی‘ افریقی ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس کیلئے چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے ضروری انفراسٹرکچر یعنی ریلوے لائنز، سڑکیں، توانائی کے منصوبے اور تیل اور گیس کی پائپ لائن تعمیر کرنے کی پیش کش کی ہے۔ یہ منصوبہ چار بڑی تجارتی شاہراہوں (اکنامک کوریڈورز) پر مشتمل ہے۔ ایک شاہراہ چین سے شروع ہو کر وسطی ایشیا کے راستے یورپ تک جائے گی، دوسری وسطی ایشیا، افغانستان اور ایران کے راستے مشرقِ وسطیٰ اور اس سے آگے یورپ اور شمالی افریقہ کو چین سے ملائے گی۔ تیسری شاہراہ وہ ہے جسے ہم پاک چائنا اکنامک کوریڈور کہتے ہیں۔ یہ شاہراہ قراقرم جو دراصل قدیم شاہراہ ریشم کی ہی ایک شاخ تھی، موجودہ اور جدید شکل ہے اور اسی سے چینی صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت کاشغر کو پاکستان کے راستے گوادر اور کراچی سے ملا دیا جائے گا۔ چوتھی تجارتی شاہراہ سمندر کے راستے بحرہند سے گزر کے خلیج فارس کے راستے چین کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریفہ سے ملائے گی۔ ان تجارتی شاہراہوں سے جو ممالک منسلک ہوں گے‘ ان کی آبادی دنیا کی کل آبادی کے نصف سے زیادہ ہے۔ ان کی مجموعی قومی آمدنی (GDP) دنیا کی کل قومی آمدنی کا ایک تہائی حصہ ہے۔ چین کے اس منصوبے کا دنیا بھر میں جس طرح خیر مقدم کیا گیا ہے‘ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیجنگ کانفرنس میں 130ممالک کے نمائندہ وفود‘ جن میں اعلیٰ حکام، سرمایہ کار، اور صحافی بھی شامل تھے‘ نے شرکت کی۔
29 ممالک کی نمائندگی ان کے سربراہ مملکت یا حکومت نے کی۔ جن سربراہان نے اس کانفرنس میں شرکت کی، ان میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن، ترکی کے صدر طیب اردوان اور پاکستان کے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف بھی شامل تھے۔ ایشیا کے ایک اہم ملک بھارت نے اس میں باضابطہ شرکت نہیں کی‘ حالانکہ چین نے سفارتی ذرائع سے بھارت پر اس کانفرنس میں شرکت کیلئے بہت زور دیا تھا‘ اور بھارت کے اندر بھی ایک ایسا بااثر حلقہ موجود ہے‘ جو اس منصوبے سے بھارت کی علیحدگی کو بھارتی قومی مفاد کے منافی سمجھتا ہے۔ پھر بھارت نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جنوبی ایشیا اور خاص طور پر چین اور بھارت کے تعلقات پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق اس کی دو وجوہ ہیں، ایک تو نیوکلیئر سپلائرز (NSG) گروپ میں بھارت کی شمولیت کو بلاک کرنا اور جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر‘ جنہیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے، کو اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دلانے کی بھارتی کوشش کی چین کی جانب سے مخالفت ہے۔ دوسری وجہ بھار ت کا یہ موقف ہے کہ پاک چین اکنامک کوریڈور گلگت بلتستان کے راستے گزرتا ہے، جسے بھارت اپنا حصہ سمجھتا ہے‘ حالانکہ چین نے بھارت کو یقین دلایا تھا کہ اس سے کشمیر پر چین کی پالیسی متاثر نہیں ہوتی۔ اس پالیسی کے تحت چین، کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ سمجھتا ہے‘ جسے حل کرنے کیلئے چین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پرامن اور دو طرفہ مذاکرات پر زور دیا ہے۔ یہ دو وجوہ اپنی جگہ لیکن پاک چین اکنامک کوریڈور کی بھارت کی جانب سے مخالفت کی اصل وجہ بھارت کا وہ خوف ہے جس کے تحت بھارت یہ سمجھتا ہے کہ چین پاکستان کے راستے بحیرہ عرب تک رسائی حاصل کر کے بحر ہند اور اس کے ذریعے پورے جنوبی ایشیا پر غلبہ حاصل کرے گا۔ بھارت آبنائے ملاکا سے لے کر باب الخدمت تک جنوبی ایشیا اور بحر ہند کو اپنا حلقہ اثر سمجھتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کے اردگرد واقع جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک مثلاً پاکستان‘ نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا اپنی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں کوئی بھی اقدام اس کی مرضی کے خلاف نہ کریں۔ اس سے زیادہ خطرہ بھارت بحرہند پر چین کی مبینہ بالادستی سے محسوس کرتا ہے اور اس کی وجہ تاریخی ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی میں جب یورپ کی مختلف قوموں مثلاً پرتگزیوں‘ ولندیزیوں‘ فرانسیسوں اور انگریزوں نے تجارت کی غرض سے بحرہند کے علاقے میں قدم رکھا تھا تو ہندوستان کو زیر تسلط لانے کی دوڑیں سب سے بعد میں آنے والے انگریز اس لیے کامیاب ہوئے کہ انہوں نے بحرہند کے شمال مغربی علاقے میں سری لنکا اور مشرق میں آبنائے ملاکا میں بحری اڈے قائم کرکے بحرہند پر مکمل غلبہ حاصل کر لیا تھا اور پھر اس بحری قوت کے بل بوتے پر انہوں نے اس علاقے سے نہ صرف پرتگیزیوں اور ولندیزیوں کو مار بھگایا بلکہ نپولین کے زمانے میں فرانسیسیوں کو بھی ہندوستان میں شکست دی۔ تاریخ دان اور حربی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستان پر قبضہ کرنے کی دوڑ میں انگریزوں کے ہاتھوں فرانسیسیوں کی شکست کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کے
برعکس ان کے پاس بحرہند میں کوئی بحری اڈہ نہیں تھا جہاں سے وہ ہندوستان میں لڑنے والی فوجوں کی مدد کر سکتے۔ لیکن انگریزوں نے بحرہند کے مغرب مشرق اور وسط میں جنگی لحاظ سے اہم مقامات پر قبضہ کرکے اور وہاں مضبوط بحری اڈے قائم کرکے‘ نہ صرف انیسویں صدی کے وسط تک تمام ہندوستان پر قبضہ کر لیا‘ بلکہ بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دو عظیم جنگوں (جنگ عظیم اول 1918-1914) اور جنگ عظیم دوئم 1945-1939 کے دوران میں نہر سویز کے مشرق میں واقع اپنی تمام مقبوضات کو بیرونی طاقتوں کے حملوں سے محفوظ رکھا۔
ہندوستان‘ جس کا طویل ساحل بحرہند کے پانی سے دھکتا ہے‘ جنوبی ایشیا کی تاریخ کے اس دور سے بہت خوفزدہ ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ بحرہند پر کوئی بیرونی طاقت نہ تو غلبہ حاصل کر سکے اور نہ بھارت کے اردگرد واقع جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ کسی بیرونی طاقت کے قریبی معاشی اور دفاعی تعلقات قائم ہو سکیں۔ انہی وجوہ کی بنا پر بھارت‘ پاکستان‘ نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ چین کے تجارتی اقتصادی اور سرمایہ کاری کے شعبے میں تعلقات کو ہمیشہ تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن بھارت کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ پاک چین اکنامک کوریڈور کے ذریعے چین گوادر کو بطور اڈہ استعمال کرکے آہستہ آہستہ پورے بحرہند پر اپنا غلبہ قائم کر لے گا اور اسی طرح سمندر کے راستے وہ بھارت کے دفاع کے لیے ایک چیلنج بن جائے گا۔ میانمار (سابق برما) کے ساتھ چین کے پہلے ہی قریبی تعلقات ہیں اور اس کی وجہ سے چین آبنائے ملاکا پر اپنے کنٹرول کو اور زیادہ مضبوط کر سکتا ہے۔ اسی طرح سری لنکا کے ساتھ بھی چین کے قریبی تعلقات بھارت کی نیندیں حرام کر رہے ہیں‘ یہاں تک کہ نیپال‘ جو کہ دنیا میں بھارت کے علاوہ واحد ہندو ملک ہے‘ کی طرف سے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شرکت کے اعلان سے بھارت کو اپنے دفاع کے لیے اور بھی زیادہ فکر لاحق ہو گئی ہے۔ نیپال اور چین نے حال ہی میں ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت چین کی مالی اور تکنیکی امداد سے نیپال میں سڑکوں اور دارالحکومت کٹھمنڈو کو تبت کے صدر مقام لاہسا سے ملانے والے ریلوے لائن تعمیر کی جائے گی۔ اس طرح بھارت کو خدشہ ہے کہ چین نہ صرف سمندر بلکہ خشکی کے راستے بھی جنوبی ایشیا میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت نے سی پیک کی مخالفت کا راستہ اپنایا‘ اس کے علاوہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے بھی الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن چین اور پاکستان دونوں سی پیک میں بھارت کی شمولیت کے حق میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی شمولیت سے یہ منصوبہ نہ صرف کامیاب بلکہ زیادہ نفع آور ثابت ہو سکتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ اس سے علاقہ میں کشیدگی اور تصادم کا امکان کم ہونے کی توقع ہے کیونکہ جیسا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی ایک تقریر میں کہا‘ سرحدوں پر کشیدگی اور جنگ کے منڈلاتے ہوئے خطرات کی موجودگی میں علاقائی تعاون اور ترقی محض ایک خواب بن کر ہی رہ جائے گا۔ چین بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے اس لیے اس کی طرف سے بھارت کو منصوبے میں شرکت پر راضی کرنے کیلئے برابر کوششیں جاری ہیں۔ اس کے لیے چین بھارت کو حاصل ہونے والے معاشی فوائد سے آگاہ کرنے کے علاوہ پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر بھی زور دے رہا ہے‘ لیکن پاک بھارت تعلقات کی نوعیت خصوصاً کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلے کے پیشِ نظر اس مقصد کے حصول میں دیر لگ سکتی ہے۔ اس دوران میں بھارت کی طرف سی پیک پر معترض ہونے کی پالیسی جاری رہے گی۔ مگر زیادہ دیر تک چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے الگ نہیں رہ سکتا۔ اس صورت میں اسے سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سی پیک کا ایک اہم پہلو یہی ہے کہ اس سے ہمسایہ ممالک میں کشیدگی اور تصادم کا خطرہ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے چنانچہ سی پیک ترقی کا ہی نہیں بلکہ امن کا بھی ایک پیغام ہے۔