"DRA" (space) message & send to 7575

شام میں امریکہ کی فضائی کارروائی

شام میں گذشتہ چھ برس میں جار ی جنگ کی اصل نوعیت اور خصوصاًاسی میں امریکہ کے کردار کے بارے میں اگر کوئی غلط فہمی تھی ، تو ملک کے جنوبی حصے میں حال میں امریکی فضائی حملوں سے یہ دور ہو جانی چاہیے، ان فضائی حملوں میں صدر بشار الاسد کی سرکاری فوجیوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایاگیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق ان میں فوجی کے علاوہ وہ شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔شام کی حکومت نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ، امریکہ کی اس کارروائی کو جارحیت کا ارتکاب اور شامی عوام کا قتل عام قرار دیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ صدر بشار لاسد کی حکومت کی حکومت پر اپنی مخالف فوجوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کا الزام عائد کر کے ایک شامی ہوائی اڈے کو کروز میزائلوں سے نشانہ بنا چکا ہے بعد میں معلوم ہوا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا الزام محض ڈرامہ تھا۔ اور امریکہ کے نئے صدر شام میں طاقت کے استعمال کا مظاہر ہ کر کے دراصل روس کو تنبیہ کرنا چاہتے تھے۔موجودہ فضائی حملے میں بھی اس وقت کئے گئے ہیں جب صدر ٹرمپ سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے اسلامی فوجی اتحاد میں شامل اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس میں شر کت کیلئے درالحکومت ریاض پہنچنے والے تھے۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے اس اسلامی فوجی اتحاد کو امریکہ کی مکمل اشیر بار حاصل ہے۔اور اس کا شام میں جاری موجودہ جنگ اور اس میں بیرونی مداخلت سے گہرا تعلق ہے۔ عین اُس وقت جب ٹرمپ اپنے پہلے باقاعدہ بیرونی دورے پر سعودی عرب پہنچنے والے تھے، امریکی طیاروں کے ذریعہ شام میں سرکاری فوجیوں کو نشانہ بنا کر اسلامی اتحاد کے اصل مقاصد اور غرض و غائیت کو آشکار کردیا گیا۔ ان حملوں کے ذریعے امریکہ نے شام اور اُس کے دوست ممالک کوواضح پیغام دیا ہے کہ اسلامی اتحاد کا اصل مقصد شام میں صدر بشار لاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ اِن حملوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے مقاصد کے حصول میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ شام میں سرکاری فوجوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا کر ، امریکہ نے روس کے ساتھ کئے جانے والے اُس معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت شام میں دونوں ممالک کی کارروائیوں کا اصل ہدف '' داعش‘‘ کے جنگجو ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے امریکہ کے ان حملوں پر سخت احتجاج کیا ہے۔ ان حملوں کی ٹائمنگ ایک اور لحاظ سے بھی اہم اور دلچسپ ہے۔ ایران میں صدارتی انتخابات ہو رہے تھے۔ امریکہ ان حملوں کے ذریعے نئے ایرانی صدر کو ایران کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔ جس کے تحت ایران کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کی بجائے، محاذ آرائی اور اشتعال انگیزی کا رویہ روا رکھا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے ابھی چارماہ کا عرصہ گزرا ہے۔ لیکن اس مختصر عرصہ کے دوران میں نئے امریکی صدر نے اپنے پیش رد صدر بارک اوباما کی ایران کے بارے میں پر امن پالیسی کو یک سر بدل دیا ہے۔اس کی کیا وجہ ہے ؟ اور امریکہ اِ س سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات فراہم کرنے کیلئے مشرق وسطیٰ کی حالیہ تاریخ اور خلیج فارس کی تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لینا پڑے گا۔ مشرق وسطیٰ کا وہ علاقہ جو بحیر روم کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ واقع ہے ، اورجس میں شام ، لبنان ، اسرائیل ، اردن اور مصر شامل ہیںوجدل قدیم سے ہی اپنے جیو سٹرٹیجک محل وقوع کی وجہ سے جنگ وجدل کا شکار رہا ہے اس خطے میں جنم لینے والی ہر ایمپائر نے خواہ وہ قدیم ایرانی ، یونانی ، رو س عرب یا برٹش ہواس خطے پر قبضہ کوشش کی ہے۔ 1948میں اسرائیل کے قیام سے 973-74تک اس خطے میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان جنگوں کا جائزہ لینے کے بعد ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میںمصر کے بغیر جنگ نہیں ہو سکتی اور شام کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ جنگ کے امکان کو ختم کرنے کے لیے ، امریکہ نے مصر اور اسرائیل کی صلح کروادی ، اور اب مصر ، اسرائیل کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے زیادہ اہم اور قریبی اتحادی ہے ۔ جہاں تک شام کا تعلق ہے ، اُ سے ایک نہ ختم ہونے والے خلفشار اور خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ گذشتہ چھ برس سے شام میں بد ترین خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت جار ی ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر بیرونی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اِن حالات کے پیدا کرنے کا مقصد شام کی عسکری اور معاشی طاقت کو مفلوج کرنا ہے ۔ تاکہ وہ ، فلسطینیوں اور ہمسایہ عرب ممالک کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ اب اس استعماری طاقتوں کی توجہ خلیج فارس کا خطہ ہے۔ کیونکہ یہ خِطہ نہ صرف تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے ،بلکہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بدولت ایران اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے بحر ہند اور اس سے آگے افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ رابطوں کیلئے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔امریکہ نے اس
خطے کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوششوں کا آغاز 1979میں ہی کر دیا گیا تھا ۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے عراق کو ایران پر حملہ کرنے کیلئے اُکسانا اور پھر آٹھ برسوں تک کے طویل عرصہ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں عراق کو مالی اور سیاسی امداد فراہم کی۔1991کی پہلی خلیج جنگ جس میں امریکہ کی سرکردگی میں 19ملکوں کے اتحاد نے کویت کو عراق کے قبضہ سے چھڑا یا اور 2003میں عراق پر براہ راست امریکی حملہ اس پر امن خطے کو جنگ و جدل اور انتشار سے دوچار کرنے کی امریکی ساز شوں کا ہی تسلسل ہے۔ تازہ ترین حالات کی روشنی میں امریکہ کیلئے خلیج فارس کی بڑھتی ہوئی سٹرٹیجک اہمیت تین و جو ہات کی بنا ء پر ہے ۔ ایک یہ کہ عراق پر احمقانہ حملے کے نتیجے میں خطے میں ایران کے اثرو نفوذ میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ اِس کے آگے بند باندھنے کیلئے امریکہ ایک طرف شام میں بشار الاسد کے خلاف عناصر کی حمایت کر رہا ہے اور دوسری طرف ایران پر فوجی دبائو ڈالنے کیلئے سعودی عرب کی قیادت میں اسلامک الائنس کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔ دوئم امر یکہ کا یہ اعلان کہ وہ افغانستان میں مقیم اپنی فوجوں میں نہ صرف اضافہ کرے گا ، بلکہ انہیں بعض حالات میں طالبان کے خلاف جنگ میں عملی طور پر بھی حصہّ لینے کی اجازت ہو گی، ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں طویل المیعاد بنیادوں پر اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس کیلئے خلیج فارس اور اس کے ارد گرد پانیوں میں امریکہ کو اپنی بحری ، فضائی اور برّی قوت کو موجود رکھنے کی ضرورت محسو س ہوگی ۔ تیسرے پاک چین اکنامک کاریڈور کی تعمیر نے اس پورے خطے کی سٹرٹیجی میں
ایک انقلابی تبدیلی پیدا کردی ہے کیوں کہ اس کا جنوبی ٹرمینل بحر عرب کے ساتھ بلوچستان کے ساحل پر واقع گوادر کی بندر گاہ ہے۔ گوادر خلیج فارس کے دہانے اور آبنائے ہرُنر کے اوپر واقع ہے جہاں سے خلیج فارس میں داخل یا اس سے روانہ ہونے والے جہازوں اور آئل ٹینکروں پر نظر رکھی جاسکتی ہے اگرچہ پاکستان اور چین دونوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ گوادر میں کوئی چینی بحری یا فوجی اڈہ تعمیر نہیں کیا جا رہا ، گوادر میں چینیوں کی محض موجودگی بھی مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ کی نیندیں حرام کرنے کیلئے کافی ہے ۔ کیونکہ پاک چین اکنامک کاریڈور کا دائرہ بحیرہ عرب سے آگے جنوب مغرب میں جزیرہ نما عرب ، بحیر ہ احمر ، شمال مشرقی افریقہ مشرقی افریقہ کی پٹّی کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ تک پھیل سکتا ہے۔ یہ تمام ایسے علاقے ہیں جن کے ساتھ مغربی ممالک اور امریکہ کے اہم دفاعی، سیاسی اور تجارتی مفادات منسلک ہیں۔ شام میں امریکی مداخلت جاری ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی امریکہ نے خلیج فارس کے خطے میں بھی اپنی ریشہ دوانیوں کا آغاز کردیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ بحیرروم کے ساحل سے لے کربحیرہ عرب کے پانیوں تک پورے مشرقی وسطیٰ کو جنگ کے شعلوں میں جلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے ، عالم اسلام کے اس ہارٹ لینڈ کو مکمل تباہی سے بچانے کیلئے پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی مشاورت اور تعاون ضروری ہے ۔ چونکہ چین بھی اس پورے خطے کو کشیدگی اور تصادم سے پاک دیکھنے کا خواہشمند ہے،اس لئے اگر ایران اور پاکستان ملک کر اس خطے میں امن، استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کریں تو یقینا چین کی طرف سے ان اقدامات کی حمایت کی جائے گی ۔ کیونکہ چین اور روس کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستیں بھی جنوبی اور مغربی ایشیامیں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں