شام میں گزشتہ چھ برس سے جاری جنگ کی اصل نوعیت اور خصوصاً اس میں امریکہ کے کردار کے بارے میں اگر کوئی غلط فہمی تھی تو ملک کے جنوبی حصے میں حال ہی میں امریکی فضائی حملوں سے یہ دور ہو جانی چاہئے۔ ان فضائی حملوں میں صدر بشارالاسد کی سرکاری فوجوں اور ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ان میں فوجی کے علاوہ شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ شام کی حکومت نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ کی طرف سے اس کارروائی کو جارحیت کا ارتکاب اور شامی عوام کا قتلِ عام قرار دیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ صدر بشارالاسد کی حکومت پر اپنی مخالف فوجوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کا الزام عائد کرکے ایک شامی ہوائی اڈے کو کروز میزائلوں سے نشانہ بنا چکا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا الزام محض ڈرامہ تھا‘ اور امریکہ کے نئے صدر شام میں طاقت کے استعمال کا مظاہرہ کرکے دراصل روس کو تنبیہہ کرنا چاہتے تھے۔ حالیہ فضائی حملے بھی اس وقت کئے گئے ہیں‘ جب صدر ٹرمپ سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد میں شامل ممالک کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے دارالحکومت ریاض پہنچنے والے تھے۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے اس اسلامی فوجی اتحاد کو امریکہ کی مکمل آشیرباد حاصل ہے‘ اور اس کا شام میں جاری جنگ اور اس میں بیرونی مداخلت سے گہرا تعلق ہے۔ عین اس وقت جبکہ ٹرمپ اپنے پہلے باقاعدہ بیرونی دورے پر سعودی عرب پہنچنے والے تھے‘ امریکہ طیاروں کے ذریعے شام میں سرکاری فوجوں کو نشانہ بنا کر غالباً اسلامی اتحاد کے اصل مقاصد اور غرض و غایت کو آشکار کر دیا گیا ہے۔ ان حملوں کے ذریعے امریکہ نے شام اور اس کے دوست ممالک کو واضح پیغام دیا ہے کہ اسلامی اتحاد کا اصل مقصد شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ ان حملوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے
مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ شام میں سرکاری فوجوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا کر امریکہ نے روس کے ساتھ کئے گئے اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے‘ جس میں طے کیا گیا تھا کہ شام میں دونوں ممالک کی کارروائیوں کا اصل ہدف ''داعش‘‘ کے جنگجو ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے امریکہ کے ان حملوں پر سخت احتجاج کیا۔ ان حملوں کی ٹائمنگ ایک اور لحاظ سے بھی اہم اور دل چسپ ہے۔ ایران میں حال ہی میں صدارتی الیکشن ہوئے ہیں۔ امریکہ ان حملوں کے ذریعے نئے ایرانی صدر کو ایران کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی سے آگاہ کرنا چاہتا ہے‘ جس کے تحت ایران کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کے بجائے محاذ آرائی اور اشتعال انگیزی کا رویہ روا رکھا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے ابھی پانچ ماہ کا عرصہ گزرا ہے‘ لیکن اس مختصر عرصے میں نئے امریکی صدر نے اپنے پیش رو بارک اوباما کی ایران کے بارے میں پرامن پالیسی کو یکسر بدل دیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے اور امریکہ اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات فراہم کرنے کے لئے مشرق وسطیٰ کی حالیہ تاریخ اور خلیج فارس کی تازہ صورتحال کا جائزہ لینا پڑے گا۔ مشرق وسطیٰ کا وہ علاقہ جو بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ واقع ہے اور جس میں شام‘ لبنان‘ اسرائیل‘ اردن اور مصر شامل ہیں‘ ازمنہ قدیم سے ہی اپنے جیوسٹریٹیجک محل وقوع کی وجہ سے جنگ و جدل کا شکار رہا ہے۔ اس خطے میں جنم لینے والی ہر ایمپائر نے‘ خواہ وہ قدیم ایرانی‘ یونانی‘ رومن‘ عرب ایمپائر ہو یا برٹش ایمپائر‘ اس خطے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے 1973-74ء تک اس خطے میں عربوں اور
اسرائیل کے درمیان چار بڑی جنگیں ہوئیں۔ ان جنگوں کا جائزہ لینے کے بعد ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں مصر کے بغیر جنگ نہیں ہو سکتی اور شام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ جنگ کے امکان کو ختم کرنے کے لئے امریکہ نے مصر اور اسرائیل کی صلح کروا دی‘ اور اب مصر اسرائیل کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے زیادہ اہم اور قریبی اتحادی ہے۔ جہاں تک شام کا تعلق ہے‘ اسے ایک نہ ختم ہونے والے خلفشار اور خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ چھ برس سے شام میں بدترین خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت جاری ہے۔ اس جنگ میں چار لاکھ سے زیادہ شامی‘ جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے‘ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔ شہروں‘ قصبوں اور گنجان آبادی والے علاقوں میں تباہی اس کے علاوہ ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر بیرونی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکی ہے۔ ان حالات کے پیدا کرنے کا مقصد شام کی عسکری اور معاشی طاقت کو مفلوج کرنا ہے‘ تاکہ وہ فلسطین اور ہمسایہ عرب ممالک کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اب استعماری طاقتوں کی توجہ کا مرکز خلیج فارس کا خطہ ہے‘ کیونکہ یہ خطہ نہ صرف تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بدولت ایران اور افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے بحر ہند اور اس سے آگے افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ رابطوں کے لئے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ نے اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں کا آغاز 1979ء میں ہی کر دیا تھا۔ اس مقصد کے لئے سب سے پہلے عراق کو ایران پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا گیا اور پھر آٹھ برس تک جاری رہنے والی اس جنگ میں عراق کو مال اور سیاسی امداد فراہم کی۔ 1991ء کی پہلی خلیج جنگ میں امریکہ کی سرکردگی میں 19 ممالک کے اتحاد نے کویت کو عراق کے قبضہ سے چھڑایا اور پھر 2003ء میں عراق پر براہ راست امریکی حملہ اس پُرامن خطے کو جنگ و جدل اور انتشار سے دوچار کرنے کی امریکی سازشوں کا ہی تسلسل ہے۔ تازہ ترین حالات کی روشنی میں امریکہ کے لئے خلیج فارس کی بڑھتی ہوئی سٹریٹیجک اہمیت تین وجوہات کی بنا پر ہے۔ پہلی یہ کہ عراق پر احمقانہ حملے کے نتیجے میں خطے میں ایران کے اثر و نفوذ میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ اس کے آگے بند باندھنے کے لئے امریکہ ایک طرف شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف عناصر کی حمایت کر رہا ہے اور دوسری جانب ایران پر فوجی دبائو ڈالنے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں اسلامک ملٹری الائنس کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ دوئم: امریکہ کا یہ اعلان کہ وہ افغانستان میں مقیم اپنی فوجوں میں نہ صرف اضافہ کرے گا بلکہ انہیں بعض حالات میں طالبان کے خلاف جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے کی اجازت بھی ہو گی‘ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں طویل المیعاد بنیادوں پر اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس کے لئے خلیج فارس اور اس کے ارد گرد پانیوں میں امریکہ کو اپنی بحری‘ فضائی اور بری قوت کو موجود رکھنے کی محسوس ہو گی۔ تیسرے‘ پاک چین اکنامک کوریڈور کی تعمیر نے اس پورے خطے کی سٹریٹیجی میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر دی ہے‘ کیونکہ اس کا جنوبی ٹرمینل بحیرہ عرب کے ساتھ بلوچستان کے ساحل پر واقع گوادر کی بندرگاہ ہے۔ گوادر خلیج فارس کے دھانے اور آبنائے ہرمز کے اوپر واقع ہے‘ جہاں سے خلیج فارس میں داخل یا اس سے روانہ ہونے والے جہازوں اور آئل ٹینکروں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ پاکستان اور چین‘ دونوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ گوادر میں کوئی چینی بحری یا فوجی اڈا تعمیر نہیں کیا جا رہا‘ گوادر میں چینیوں کی محض موجودگی بھی مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ کی نیندیں حرام کرنے کے لئے کافی ہے‘ کیونکہ پاک چین اکنامک کوریڈور کا دائرہ بحیرہ عرب سے آگے جنوب مغرب میں جزیرہ نما عرب‘ بحر احمر‘ شمال مشرقی افریقہ اور مشرقی افریقہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ تک پھیل سکتا ہے۔ یہ تمام ایسے علاقے ہیں جن کے ساتھ مغربی ممالک اور امریکہ کے اہم دفاعی‘ سیاسی اور تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔ شام میں امریکی مداخلت جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی امریکہ نے خلیج فارس کے خطے میں بھی اپنی ریشہ دوانیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر بحیرہ عرب کے پانیوں تک‘ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کے شعلوں میں جلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ عالم اسلام کے اس ہارٹ لینڈ کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی مشاورت اور تعاون ضروری ہے۔ چونکہ چین بھی اس پورے خطے کو کشیدگی اور تصادم سے پاک دیکھنے کا خواہش مند ہے‘ اس لئے ایران اور پاکستان مل کر اس خطے میں امن‘ استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کریں‘ تو یقیناً چین کی طرف سے ان اقدامات کی حمایت کی جائے گی‘ کیونکہ چین اور روس کے علاوہ وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی جنوبی اور مغربی ایشیا میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔