ایک ایسے موقعہ پر جبکہ جنوبی ایشیا کے دوبڑے اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملکوں‘ یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہو اور خطے میں ایک اور جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہو‘ کسی طرف سے امن و آشتی کے حق میں اگر کوئی آواز آجائے تو غنیمت سمجھ کر اسے نہ صرف خوش آمدید کہنا چاہئے بلکہ اس کی پوری طرح حمایت کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے ہر کونے گوشے میں پہنچانا چاہئے تاکہ امن کی دشمن طاقتوں کی حوصلہ شکنی ہو اور امن پسند حلقوں کو تقویت ملے۔ پاک بھارت امن کے حق میں یہ آواز گزشتہ دنوں ایک ایسی تنظیم کی طرف سے آئی جس کے ارکان خود کو ''امن پرست ‘‘قرار دیتے ہیں۔ اس ڈھیلی ڈھالی تنظیم میں دنیا کے مختلف ممالک بشمول پاکستان اور بھارت‘ سے تعلق رکھنے والی تقریباً 800ممتاز شخصیات شامل ہیں۔ یہ مفکر‘ شاعر‘ آرٹسٹ‘ صحافی‘ دانش ور‘ پروفیسر‘ مصنف‘ وکلا‘ سیاستدان ‘ موسیقار اور نوجوان ہیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکر اور مصنف‘ نوم چومسکی‘ شوبھامگل ‘ نین تارا سہپال اور عاصمہ جیانگیر بھی امن کے حق میں اس اہم تحریک سے وابستہ ہیں۔
قرارداد کا عنوان ہے‘ ''پاکستان اور بھارت کے درمیان پرامن تعلقات کا قیام‘‘۔ اس کے نیچے یہ الفاظ درج ہیں ''دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت (ڈائیلاگ) بغیر کسی تعطل کے متواتر جاری رہنی چاہئے‘‘۔یہ قرارداد یا مشترکہ اعلامیہ پاک بھارت تعلقات کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر جاری کیا گیا ہے‘ جس میں دونوں ملکوں کے درمیان سٹرکچرڈ مذاکرات کا سلسلہ تقریباً تین برس سے معطل ہے۔ سب سے بڑھ کر تشویشناک بات یہ ہے کہ 2004ء میں شروع ہونے والے مذاکرات یعنی کمپوزٹ ڈائیلاگ کے پہلے چار رائونڈز میں جو پیش رفت ہوئی تھی‘ اسے موجودہ کشیدگی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ مذاکرات کے اس سلسلے کی سب سے نمایاں کامیابی مختلف سطح پر عوامی رابطوں کا فروغ تھا‘ لیکن اب دونوں طرف سے ویزے کے حصول کو مشکل بنا کر دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔حتیٰ کہ علاج معالجے کے لئے بھی ویزے کے اجرا کو مشکل بنایا جا رہا ہے۔ کرکٹ‘ ہاکی اور کبڈی کے میچوں کا ایک دوسرے کے ہاں انعقاد کا سلسلہ بھی ایک عرصے سے بند ہے۔ پچھلے دنوں پاکستانی طلبا کے ایک وفد کو انتہاپسند عناصر کی دھمکیوں کی وجہ سے بھارت کا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔ اسی سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی تشویشناک کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ پاکستان اور بھارت کے ممتاز دانشوروں نے اپنے اپنے حکمران طبقوں سے اپیل کی ہے کہ پیشتر اس کے کہ موجودہ کشیدگی دونوں ملکوں کے درمیان کسی بڑے اور تباہ کن تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو‘ باہمی بات چیت (ڈائیلاگ)کا سلسلہ فوری طور پر شروع کیا جائے۔ ڈائیلاگ کے آغاز کے بعد دونوں ملک اس بات کا اہتمام کریں کہ بات چیت کا یہ سلسلہ ہر حال میں جاری رہے۔اس کے لئے پاکستان اور بھارت‘ دونوں سرکاری سطح پر کوئی ایسا ادارہ‘ کمیشن یا فریم ورک تشکیل دیں‘ جس کا کام یہ ہو کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے ‘ ڈائیلاگ جاری رہنے چاہئیں‘ کیونکہ بات چیت کے ذریعے ہی نہ صرف موجودہ کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ تمام تنازعات‘ جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے‘ کے حتمی حل کا بھی یہی واحد راستہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے لئے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ 70برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تین بڑی اور دو مقامی جنگیں ہو چکی ہیں۔ کشمیر میں جنگ بندی لائن کے آر پار سے ایک دوسرے پر گولیوں‘ مارٹراور بھاری توپوں کے گولوں کی جو بارش کی جاتی ہے‘ اس سے عام آدمی سب سے زیادہ نقصان اٹھارہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے عوام کو درپیش ان مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے قرارداد میں دونو ں ملکوں کی حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر 2003کے فائر بندی کے معاہدے کا احترام کریں۔ ماضی کے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت جب کبھی امن کی منزل کے قریب پہنچتے ہیں تو کوئی نہ کوئی حادثہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے‘ جس سے امن اور خیر سگالی کی گاڑی پٹڑی سے اتر جاتی ہے۔ اس لئے ایسا میکانزم ضروری ہے جسکے تحت کوئی واقعہ یا حادثہ دونوں ملکوں کے رابطوں کو منقطع نہ کر سکے اور بات چیت باقاعدہ اور تسلسل کیساتھ جاری رہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار بند کر دیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی اس اپیل کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس پر صرف پاکستان اور بھارت یا مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والے دانش وروں اور مفکرین کے دستخط ہی نہیں ہیں بلکہ اس کی کھل کر حمایت کرنے والوں میں بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے صحافی‘ دانشور اور سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف پاکستان اور بھارت کے عوام ہی نہیں ان دونوں ملکوں میں امن کے خواہاں نہیں ہیں‘ بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ‘ خصوصاً چھوٹے ممالک میں بھی پاک بھارت امن کی شدید خواہش پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور عدم تعاون کی وجہ سے ''سارک‘‘ بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ اس تنظیم کے ذریعے اقتصادی تعاون اور باہمی تجارت کا فروغ جنوبی ایشیا کے ممالک کی ایک اہم ضرورت ہے‘ لیکن خطے کے ان دو بڑے ممالک کے باہمی تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے ''سارک‘‘ اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکی۔ ''سارک‘‘ کی ہر سربراہ کانفرنس کے موقعہ پر جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کی طرف سے پاکستان اور بھارت پر باہمی تعلقات کو بہتر بنانے اور تعاون کی راہ اپنانے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ ''سارک‘‘ کا عمل آگے بڑھ سکے۔ 2001-20میں جب بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کی کیل کانٹے سے لیس فوجیں سرحدوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھیں اور جنگ کے کسی بھی وقت شروع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا‘ تو سب سے زیادہ تشویش جنوبی ایشیا کے ان چھوٹے ممالک کی طرف سے ہی ظاہر کی گئی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل اور متواتر ڈائیلاگ کے ذریعے تنازعات کے حل اور دیرپا امن کے قیام کے لئے یہ اپیل نہ صرف بروقت بلکہ موثر اور ہمہ گیر بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا عمل منقطع ہے اور باہمی کشیدگی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔اس کا سب سے نمایاںمظاہرہ کشمیرمیں لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے کی چوکیوں اور شہری آبادی پر فائرنگ کے واقعات ہیں۔پہلے یہ واقعات اکا دکا ہوتے تھے اور ان میں چھوٹے اور خود کار ہتھیار استعمال ہوتے تھے‘ لیکن اب مارٹر اور دور مار توپیں استعمال کی جا رہی ہیں۔ اسی وجہ سے نہ صرف دونوں طرف جانی اور مالی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ جھڑپوں کا سلسلہ اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال اگر اسی طرح جاری رہا تو 2003کا فائر بندی کا معاہدہ غیر موثر ہو جائے گا۔ اس بات کی قوی امید ہے کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کی بڑی اکثریت امن کی اس اپیل کی حمایت کرے گی‘ کیونکہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات کے حل کا واحد راستہ ''ڈائیلاگ‘‘ ہے۔''ڈائیلاگ ‘‘ کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لایا جا سکتا ہے اور ان میں تعاون اور خیر سگالی پیدا کی جا سکتی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور فائرنگ کے باوجود مظفر آباد سری نگر بس سروس اور پونچھ راولا کوٹ کے روٹ پر ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت کا جاری رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کیساتھ نہ صرف رابطے میں رہنا چاہتے ہیں بلکہ ان روابط کو مزید فروغ بھی دینا چاہتے ہیں‘ لیکن اس کا انحصار پاکستان اور بھارت کی حکومتوں پر ہے۔ اس اپیل میں ان دونوں حکومتوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور درخواست کی گئی ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھیں۔ عوام کے بہترین مفاد کو پیش نظر رکھ کے '' ڈائیلاگ‘‘ بحال کریں اور باہمی تنازعات‘ جن میں کشمیر سرِفہرست ہے‘ کے حل کیلئے قدم بہ قدم آگے بڑھنے والی اپروچ اختیار کریں۔