"DRA" (space) message & send to 7575

مودی… امریکہ اور جنوبی ایشیا

1950کے عشرے میں جب پاکستان نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے اور معاہدہ بغداد (بعد میں سینٹو) اور سیٹو کے دفاعی معاہدوں میں شرکت کی تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان پر الزام عاید کیا تھا کہ اس نے عالمی سطح پر امریکہ اور سابق سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کو بھارت کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج اسی ملک کا وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کے نئے صدر سے مل کر ایسی پالیسی پر عمل پیرا اور ایسے اقدامات کرتا نظر آتا ہے جن کا واحد مقصد جنوبی ایشیا ‘ جہاں کشمیر اور افغانستان جیسے مسائل کی وجہ سے سکیورٹی کی صورتحال پہلے ہی مخدوش ہے‘ کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔
نریندر مودی نے حال ہی میں امریکہ کا سرکاری دورہ کیا ۔ انہیں اس دورے کی دعوت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دی تھی۔ وہ بھارتی وزیر اعظم سے ملنے کے لئے اتنے بے چین تھے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا تھا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ موقعہ ملتے ہی بھارتی وزیراعظم کو ایک بہترین دوست کی حیثیت سے وائٹ ہائوس مدعو کریں گے۔ انہیں اگر افسوس ہے تو اس بات کا کہ مودی نے امریکہ پہنچنے میں دیر لگا دی۔ وہ امسال جنوری میں حلف اٹھانے کے فوری بعد مودی سے بغل گیر ہونا چاہتے تھے‘ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ انہوں نے خود بتا دی ۔ یہ کہ بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں فروری سے اپریل تک ریاستی انتخابات ہو رہے تھے اور انہیں ان پر توجہ مبذول رکھنا تھی۔ ان انتخابات میں وزیر اعظم کی پارٹی بی جے پی نے جو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی‘ ٹرمپ نے اس پر مودی کو مبارک باد بھی دی تھی۔ علاقائی معاملات میں صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ بھارت کی ہمنوائی میں کس حد تک جا سکتا ہے‘ اس 
کا اندازہ اس مشترکہ اعلامیہ سے لگایا جا سکتا ہے ‘ جو واشنگٹن میں دونوں رہنمائوں کی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا۔ اس اعلامیہ میں تقریباً تمام اہم شعبوں‘ جیسے سیاسی‘ سفارتی‘ دفاعی‘ معاشی اور ٹیکنالوجی میں امریکہ کی طرف سے بھارت کو وسیع معاونت اور بھرپور تعاون کی پیش کش کی گئی ہے۔ خود امریکی اور بھارتی میڈیا میں اس اعلامیہ پر جن آرا کا اظہار کیا گیا ہے‘ ان کے مطابق اس سے قبل جاری ہونے والے کسی مشترکہ اعلامیہ میں اس قسم کی زبان استعمال نہیں کی گئی تھی‘ حالانکہ امریکہ اور بھارت کے مابین قربتیں بڑھنے کا عمل 2005میں شروع ہوا تھا‘ اور ان دس بارہ برس سے زیادہ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی‘ سائنسی اور معاشی شعبوں میں تعاون کے لئے اہم معاہدات طے پا چکے ہیں۔ دونوں ملکوں کی علاقائی اور عالمی پالیسیوں میں ہم آہنگی آ چکی ہے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان دوستی اور تعاون کے رشتوں کے قیام کا سلسلہ سابق صدر بش کے زمانے میں شروع ہوا تھا‘جسے صدر اوباما کے عہد میں بام عروج تک پہنچا دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں بھارت اور امریکہ کے مشترکہ اعلامیہ 2015کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس میں صدر اوباما نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو باہمی تعاون اور ہم آہنگی کی نئی بلندیوں تک لے جانے کا عہد کیا تھا۔ مودی ٹرمپ مشترکہ اعلامیہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان کے بارے میں بھارت کے موقف کی کھل کر تائید کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے بالکل صحیح کہا کہ امریکہ پاکستان کے بارے میں بھارت کی زبان استعمال کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کو صرف ڈرامائی انداز میں کامیاب بنانے کی ہی کوشش نہیں کی بلکہ بھارت کو 
زیادہ سے زیاددہ خوش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں مودی کے امریکہ پہنچنے سے ایک دو روز قبل دو اہم اقدامات کا اعلان کیا گیا۔ پہلا: حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دینا۔ دوسر: ا بھارت کو 20ڈرون طیاروں کی فروخت کا اعلان۔یہ دونوں اقدامات جنوبی ایشیا کے امن اور سلامتی کے لئے دور رس نتائج‘ اثرات اور مضمرات کے حامل ہیں۔ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر امریکہ نے واضح کر دیا کہ اسے کشمیر میں لگی آگ کو بجھانے میں کوئی دل چسپی نہیں ‘ حالانکہ عالمی برادری کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا‘ نہ صرف یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے مطابق تعلقات قائم نہیں ہو سکتے بلکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کا قیام بھی ناممکن ہے۔ بجائے اس کے کہ امریکی صدر بھارتی وزیر اعظم کو کشمیر اور دیگر تنازعات کے حل کے لئے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ کرتے‘ انہوں نے بھارت کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کشمیری عوام کی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے۔ نہ صرف پاکستان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردی کے مقصد کے لئے استعمال نہ ہونے دے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان 2008میں ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث اور 2015میں پٹھان کوٹ کے فوجی اڈے پر حملہ کرنے والے عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے انہیں قرارواقعی سزا دلائے ۔ بھارت اور امریکہ کے مشترکہ اعلامیہ میں ان الفاظ کے استعمال کے بعد نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کے احیا کا امکان معدوم ہوتا نظر آتا ہے‘ بلکہ جنوبی ایشیا مین امن کا مستقبل بھی مخدوش محسوس ہوتا ہے۔ امریکہ نے علاقائی سطح پر اپنی پالیسی کو بھارت کی پالیسی سے کسی حد تک ہم آہنگ کر لیا ہے۔ اس کا اندازہ مشترکہ اعلامیہ میں چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر امریکہ کے تازہ ترین موقف سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے کو آگے بڑھاتے وقت متعلقہ ملکوں کی آزادی اور علاقائی سلامتی کا احترام کیا جائے۔ یاد رہے کہ بھارت کی طرف سے پاک چین اکنامک کوریڈور کو اس بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ یہ کوریڈور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی گزرے گا اور بھارت ان علاقوں کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ سی پیک پر بھارت کے موقف کی حمایت کرکے ٹرمپ نے برسوں سے جاری کشمیر پر امریکی پالیسی کی نفی کر دی ہے‘ کیونکہ امریکہ نے کشمیر کو کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم نہیں کیا‘ بلکہ اسے ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا‘ جس کا ابھی ایک مستقل اور حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے‘ لیکن بھارت کے موقف کی تائید کرکے صدر ٹرمپ نے کشمیر پر امریکہ کی پرانی اور روایتی پالیسی میں ایک خطرناک یُو ٹرن لیا ہے۔ 
اسی طرح صدر ٹرمپ نے بھارت کے ہاتھ جو 20ڈرون طیارے بیچنے کا اعلان کیا ہے‘ بھارتی اخبار ''ہندوستان ٹائمز‘‘کے مطابق بھارت انہیں بحرِ ہند میں جہازوں کی نقل و حرکت کو نظر میں رکھنے کے لئے استعمال کرے گا۔ بھارت کے نزدیک یہ کارروائی اس لئے اہم ہے کہ چین نے کچھ عرصے سے بحر ہند میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ بھارت چونکہ بحر ہند کو اپنا علاقائی سمندر سمجھتا ہے‘ اس لئے وہ ایک طرف امریکہ کی مدد سے اپنی بحری قوت میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ کے ساتھ مل کر بحرِ ہند میں غیر ملکی خصوصاً چینی بحری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے۔ مودی اور ٹرمپ کے مشترکہ اعلامیہ میں ''مالا بار‘‘کے نام سے بحر ہند میں امریکہ بھارت اور جاپان کی مشترکہ مشقوں کا انعقاد بھی اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں چین نے بحر ہند کے خطے میں واقع اہم ممالک مثلاً پاکستان‘ جبوتی‘ مالدیپ‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور میانمار (برما)کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں جو قریبی تعلقات قائم کئے ہیں‘ بھارت نے انہیں چین کی طرف سے بحرِ ہند پر غلبہ حاصل کرنے کی ایک کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ اس خطے سے چونکہ امریکہ اور جاپان کے بھی اہم مفادات وابستہ ہیں‘ اس لئے ان تینوں ملکوں کی طرف سے اس اہم سمندر میں اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس خطے کے تمام ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات کی نوعیت تجارتی اور اقتصادی ہے اور کہیں بھی چین نے بحری اڈا قائم نہیں کیا۔ لیکن جس طرح مشرق بعید اور جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے مقابلے میں امریکہ کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے‘ امریکہ اور بھارت کو خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے علاقے میں بھی چین کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو جائے گا۔ امریکہ اور بھارت اس کے آگے مل کر بند باندھنا چاہتے ہیں‘ لیکن اس سے علاقے میں‘ جہاں کشمیر اور افغانستان کے بعد یمن‘ قطر اور ایران ‘ سعودی عرب کشیدگی موجود ہے‘ حالات مزید خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں