بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ صرف اسرائیل میں ہی ان کی خصوصی آئو بھگت نہیں کی گئی‘ دنیا بھر میں اس دورے کے سیاسی اور معاشی مضمرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے‘ کیونکہ اس دورے کے نتیجے میں صرف دو ممالک یعنی بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں ہی فروغ نمایاں نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایشیا کے دو بڑے خطوں یعنی جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان قریبی تعلقات کے قیام کی راہ ہموار ہوتی نظر آتی ہے۔ اس لئے وزیر اعظم مودی کے دورہ اسرائیل کو صرف دو ممالک کے باہمی تعلقات کے حوالے سے زیر بحث نہیں لایا جا رہا‘ بلکہ اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک بھارت اور مشرق وسطیٰ میں سب سے طاقتور فوج اور معیشت کے حامل ترقی یافتہ ملک اسرائیل کے ایک دوسرے کے قریب آنے سے ان دونوں خطوں کی جیو پالیٹکس پر کیا اثر پڑے گا؟ کیونکہ عالمی سیاست‘ معاشی ترقی اور سرگرمیوں کا محور اب امریکہ اور یورپ سے ایشیا میں منتقل ہو چکا ہے۔ دنیا میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے سرمایہ کاری کے سب سے بڑے منصوبے‘ یعنی چین کے '' ون بیلٹ‘ ون روڈ‘‘ جس کا سی پیک ایک حصہ ہے‘ کا آغاز ایشیا میں ہو چکا ہے۔ اس میں ایشیا کے علاوہ افریقہ اور یورپ سے تعلق رکھنے والے ممالک بھی حصہ لے رہے ہیں۔ سعودی عرب نے 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے جاپان کے ساتھ مل کر ٹیکنالوجی کی ترقی کے لئے ایک بہت بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
مودی کا دورہ اسرائیل اگرچہ کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 1992‘ جب بھارت نے باقاعدہ اسرائیل کو تسلیم کیا تھا‘ کے بعد بھارت اور اسرائیل کی اعلیٰ ترین قیادت کی سطح پر یہ پہلا رابطہ ہے۔ اسرائیل کے ایک وزیر اعظم ایریل شیرون 2003 میں بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل کے صدر ریون رولن بھارت کے دورے پر تھے۔ ان کا یہ دورہ ایک ہفتے پر محیط تھا۔ اس طرح دو طرفہ بنیادوں پر بھی اسرائیل اور بھارت کے درمیان مختلف شعبوں‘ جن میں دفاع سرفہرست ہے‘ میں بھی نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ روس اور امریکہ کے بعد اسرائیل بھارت کو اسلحہ اور ہتھیار سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ دفاع کے بعد اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے بھارت سائنس‘ زراعت‘ صنعت اور ماحولیاتی کنٹرول کے شعبوں میں بھی جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دو طرفہ تعلقات میں اضافہ وسیع تر علاقائی اور عالمی سطح پر سٹریٹیجک مفادات کے حصول کا ذریعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ 1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے عربوں کی خوشنودی کی خاطر اسرائیل کو برملا تسلیم نہ کرنے کی جو پالیسی اپنائی تھی‘ اس کے دو مقاصد تھے: مشرق وسطیٰ جیسے اہم خطے میں اثرورسوخ قائم کرنا اور پاکستان کو برادر عرب ملکوں سے دور رکھنا۔ اس مقصد کے تحت بھارت نے عربوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے معاہدہ بغداد (بعد میں سینٹو)کی مخالفت کی تھی۔ بھارت کی طرف سے مسئلہ فلسطین پر عربوں کے موقف کی کھل کر حمایت کرنے کے پیچھے بھی یہی مقاصد کارفرما تھے‘ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکاری طور پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود بھارت اور اسرائیل کے درمیان نہ صرف تجارتی اور ثقافتی روابط قائم تھے بلکہ اسرائیل میں بھارت کے لئے نمایاں طور پر خیرسگالی بھی پائی جاتی تھی۔ اس کا مظاہرہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہوا‘ جب اسرائیل کی سابق وزیر اعظم گولڈا میئر کی حکومت نے بھارت کو خفیہ طور پر ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کیا۔
مودی کے حالیہ دورے کا ایک بڑا مقصد مشرق وسطیٰ کے معاملات میں بھارت کی اہمیت کو ایک دفعہ پھر بحال کرنا ہے‘ کیونکہ 1970 کے عشرے کے بعد مشرق وسطیٰ کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جو تبدیلی آئی‘ اس کے نتیجے میں پاکستان اور عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے درمیان مضبوط دو طرفہ تعلقات قائم ہوئے اور عالمِ عرب میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی بھارتی پالیسی ناکام ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوا۔ اس کی ایک وجہ چین کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک مستقل رکن ہونا بھی ہے۔ نریندر مودی نے حال ہی میں سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور ایران کے ساتھ بھارت کے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنایا ہے‘ لیکن اس کا اصل ہدف چین کے مقابلے میں بھارت کو مشرق وسطیٰ میں ایک نمایاں مقام دلوانا ہے اور اس کے لئے اس نے اسرائیل کو چُنا ہے۔ اگرچہ چین کے ساتھ بھی اسرائیل کے دو طرفہ تعلقات خوشگوار ہیں‘ لیکن ایران اور پاکستان کے ساتھ سی پیک کے ذریعے چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات اسرائیل کے لئے باعث تشویش ہیں کیونکہ اس طرح خلیج فارس میں ایران اور بحیرہ عرب سے ملحقہ خلیج عدن اور بحیرہ احمر کے علاقوں میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہو سکتی ہے۔ ان دونوں ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ بھارت سی پیک کو بحر ہند میں اپنے سٹریٹیجک مفادات کے لئے ایک چیلنج سمجھتا ہے اور بحیرہ عرب اور خلیج عدن کے علاقوں میں اگر کوئی ملک بھارت کا سی پیک کے خلاف ساتھ دے سکتا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ بھارت کے لئے بھی یہ علاقے اس وجہ سے سٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ علاقہ بحر ہند کا مغربی گیٹ ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک کے جنوبی ٹرمینل گوادر کے ذریعے سامان یورپ‘ افریقہ اور بحر ہند کے پار دیگر علاقوں تک لے جانے اور لانے کے لئے بھی یہ علاقے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ وسیع تر علاقائی فریم ورک میں باہمی تعاون کے لئے اسرائیل بھارت کا ایک قابل اعتماد ساتھی ثابت ہو سکتا ہے اور اس کی وجہ اسرائیل اور امریکہ کے خصوصی تعلقات ہیں‘ جس طرح بحرالکاہل کے خطے میں امریکی حکمت عملی کا ایک سب سے مضبوط ستون جاپان ہے‘ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کا سب بڑا محافظ اسرائیل ہے۔ ان دونوں خطوں میں اس وقت امریکہ کو چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب تک ایشیا‘ بحرالکاہل میں جاپان اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکی مفادات کے تحفظ میں موثر کردار ادا کرتے رہے ہیں‘ لیکن چین کی طرف سے چیلنج نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ صرف ان دونوں ممالک کی صلاحیت اور وسائل پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے امریکہ نے بھارت کا اپنے ایک نئے سٹریٹیجک اتحادی کی حیثیت سے انتخاب کیا ہے اور اس کے لئے بھارت کے ساتھ نہ صرف دو طرفہ بنیادوں پر دفاعی تعاون میں اضافہ کیا ہے بلکہ جاپان ‘ آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل ایک نیا اتحاد بھی قائم کیا جا رہا ہے‘ جس کا مقصد بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنا ہے۔ اس قسم کی منصوبہ بندی مشرق وسطیٰ‘ خلیج فارس اور بحر احمر کے علاقوں کے لئے بھی کی جا رہی ہے‘ جہاں بحرین‘ قطر اور ڈیاگوگارشیا کے بحری اور فضائی اڈوں کے علاوہ امریکہ کے چھٹے اور ساتویں بحری بیڑے سے تعلق رکھنے والے بحری جہاز‘ آب دوزوں اور طیارہ بردار جہازوں کی صورت میں امریکہ کی ہیبت ناک فوجی قوت پہلے سے ہی موجود ہے‘ مگر اسے مقامی اور سیاسی کوّر اور سپورٹ دینے کے لئے بھارت اسرائیل اتحاد قائم کیا جا رہا ہے۔ اس اتحاد کے ذریعے ایک طرف سی پیک کے ذریعے بحر ہند‘ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کی کوشش کی جائے گی تو دوسری طرف پاکستان اور ایران کی صلاحیتوں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔ وزیر اعظم مودی کے حالیہ دورہ اسرائیل کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سٹریٹیجک تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس تعاون کے تحت بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی سامان‘ ہائی ٹیکنالوجی اور خلائی سائنس میں معلومات کے تبادلے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔