چین کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے مابین جاری تنازعات اور کشیدگی ختم کرانے اور مسئلہ کشمیر حل کرانے میں مصالحتی کردار ادا کرنے کی جو پیش کش کی گئی تھی‘ بھارت نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کے اس ردعمل پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے‘ کیونکہ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ترکی کے صدر اردوان کی طرف سے کی گئی پیشکشوں کو بھی بھارت مسترد کر چکا ہے اور اپنے اقدام کے جواز میں وہی دیرینہ موقف پیش کیا کہ کشمیر سمیت تمام تنازعات بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں اسی فریم ورک میں حل کرنا چاہئے۔ اگرچہ بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تیسرے فریق کی مداخلت کو خارج از امکان قرار دے کر مسترد کر دیا ہے تاہم اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ بین الاقوامی سطح پر جنوبی ایشیا خصوصاً پاک بھارت کشیدگی میں اضافے پر تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے‘ کیونکہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور مبصرین کو خدشہ ہے کہ اگر لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو یہ بڑھتے بڑھتے کہیں ایک بڑے تصادم کی شکل اختیار نہ کر جائے۔ دوسرے: اب یہ حقیقت دنیا پر واضح ہو رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ کشمیر ہے اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا‘ نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان امن خواب رہے گا۔ اس لئے اب بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان اور بھارت پر صرف باہمی کشیدگی کم کرنے یا دو طرفہ تنازعات مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کرنے کا ہی نہیں کہا جا رہا‘ بلکہ کشمیر کا خصوصی طور پر ذکر کرکے اسے ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے پر زور بھی دیا جاتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کشمیری عوام اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جدوجہدِ آزادی کا جو ایک نیا باب رقم کر رہے ہیں‘ دنیا کی اس طرف توجہ مبذول ہوئی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی موقف کی حمایت میں کمی واقع ہو رہی ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارت کو دنیا بھر میں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو مبالغہ نہ ہو گا‘ لیکن اس ضمن میں اہم بات چین کی طرف سے ثالثی کی پیشکش ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران میں چین کی عالمی اور علاقائی پالیسیوں میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ ان کے پیش نظر چین نے ہمیشہ پاک بھارت امن اور تعاون پر زور دیا‘ بلکہ چین کی طرف سے پاکستان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ اپنے اصولی موقف کو ترک کئے بغیر اگر پاک بھارت امن اور تعاون کی خاطر مسئلہ کشمیر کو کچھ عرصہ کے لئے ایک طرف رکھ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں‘ یہ پاکستان کے طویل المیعاد مفادات کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ 2004 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے قیام اور تمام حل طلب تنازعات کے حل کے لئے امن مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا‘ چین کی طرف سے اس کی بھرپور حمایت کی گئی‘ بلکہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کے مطابق ان مذاکرات کی بحالی میں جن ملکوں نے پس پردہ اہم کردار ادا کیا‘ ان میں چین بھی شامل تھا۔ اس کے بعد بھی پاکستان اور بھارت میں جب کبھی کشیدگی میں اضافہ ہوا‘ یا کسی تصادم کے آثار نمایاں ہوئے تو چین نے ہمیشہ دونوں ملکوں کو احتیاط اور ضبط سے کام لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ دونوں ممالک کشیدگی کو بڑھانے سے اجتناب کریں‘ لیکن اس سے قبل ثالثی کی پیشکش کبھی نہیں کی۔ اس لئے اس موقعہ پر چین کی طرف سے اس قسم کی پیشکش ایک اہم پیش رفت ہے‘ جس کا پورے سیاق و سباق میں مفہوم تلاش کرنا ضروری ہے۔ اس کی ایک وضاحت تو یہ ہے کہ چین کی طرف سے حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصالحت کی بھی کوشش کی گئی اور اس سلسلے میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی دونوں ملکوں کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش اس کوشش کا حصہ ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم نہیں ہوتا‘ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا نہیں ہو گی۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل اراکین کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے دونوں ملکوں کے درمیان امن کی جو توقع پیدا ہوئی تھی‘ وہ پوری نہیں ہوئی‘ الٹا دونوں ملک آہستہ آہستہ تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ چونکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کو شامل کرنے میں چین نے نمایاں کردار ادا کیا تھا‘ اس لئے چین کو ان دونوں ملکوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر خصوصی طور پر تشویش ہے‘ اور اسی کی بنا پر چین نے کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ چین جنوبی ایشیا کے امن کو کسی بڑے خطرے سے بچانے کے لئے فوری اقدام کا خواہش مند ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ چین کی پاکستان اور بھارت‘ دونوں سے سرحدیں ملتی ہیں‘ لہٰذا چین کو خطرہ ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتے بڑھتے کسی بڑے تصادم پر منتج ہوئی تو چین اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا۔ اس سے نہ صرف چین کی اپنی قومی ترقی کی حکمت عملی متاثر ہو گی بلکہ اس نے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارتی شاہراہوں کے جال بچھانے کا جو منصوبہ بنا رکھا ہے‘ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خود چین بھی اندرونی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے مغربی صوبے سنکیانگ میں علیحدگی پسند عناصر کسی ایسے موقعہ کی تلاش میں ہیں‘ جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی سرگرمیوں کو برملا بغاوت میں تبدیل کر سکیں۔ ایسا موقعہ انہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بڑے تصادم یا جنگ کی صورت میں دستیاب ہو سکتا ہے کیونکہ جنوبی ایشیا میں خلفشار کی صورت میں ہر ملک
کی سلامتی اور علاقائی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی‘ ترقی کا عمل رک جائے گا اور پورا خطہ ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو جائے گا۔ چین نے اپنی قومی ترقی کے اہداف کے پیش نظر جو علاقائی حکمت عملی وضع کر رکھی ہے‘ اس کے تحفظ اور اس پر کامیابی سے عمل درآمد کے لئے جنوبی ایشیا میں امن یعنی پاک بھارت مصالحت ایک لازمی شرط ہے۔ اس وقت چین کے سامنے سی پیک کی کامیابی سب سے مقدم ہے کیونکہ قدیم شاہراہ ریشم کے احیا کے لئے چین نے ایشیا اور یورپ کو ملانے والی مختلف شاہراہیں تعمیر کرنے کا جو منصوبہ بنا رکھا ہے‘ سی پیک اس میں سب سے اہم ہے۔ پاکستان میں اس پر تسلی بخش طریقے سے عمل ہو رہا ہے‘ لیکن اس سے پوری طرح مستفید ہونے کے لئے چین بھارت کے تعاون کا خواہاں ہے‘ مگر اس میں سب سے بڑی رکاوٹ پاک بھارت اختلافات ہیں۔ چونکہ چین نے پاکستان اور بھارت‘ دونوں سے اہم تجارتی و اقتصادی روابط قائم کر رکھے ہیں‘ اس لئے اسے امید ہے کہ دونوں ممالک اس کی پیشکش کا احترام کریں گے۔ پاکستان نے تو ہمیشہ ایسی ہر پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے‘ اصل مسئلہ بھارت کا رویہ ہے‘ جس کے تحت اس نے باقی پیشکشوں کی طرح چین کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا ہے‘ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جنوبی ایشیا کے مصالحتی عمل میں چین کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ روس‘ امریکہ یا دیگر ملکوں کے برعکس جنوبی ایشیا میں امن چین کے لئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کی سرحدیں اس خطے سے ملتی ہیں۔ یہاں چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس لئے بھارت کی طرف سے پیشکش کے مسترد کئے جانے کے باوجود چین پاکستان کے ساتھ اس کی مصالحت کی کوشش جاری رکھے گا۔