پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ وہ آئندہ یعنی 2018 کے انتخابات ہوتے نہیں دیکھ رہے۔ چودھری صاحب نے یہ بیان کراچی میں دیا‘ جہاں وہ نصف درجن سے زیادہ مسلم لیگی دھڑوں کو ایک دوسرے میں ضم کرکے ایک متحدہ مسلم لیگ تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عین اسی دن ایک اور مسلم لیگ یعنی ن لیگ کے ایک سرکردہ رہنما سعد رفیق نے لاہور میں ایک بیان میں کہا کہ ملک میں منتخب جمہوری حکومت کی جگہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت برداشت نہیں کریں گے۔ ملک کی موجودہ غیریقینی سیاسی صورتحال میں یہ بیانات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں‘ جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ کافی عرصہ سے ملک میں اس قسم کی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت پر مبنی موجودہ سیاسی نظام کی بساط لپیٹ کر اس کی جگہ صدارتی نظام رائج کرنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ پاکستانی حکمران طبقے کے وہ حصے جو پارلیمانی جمہوریت کی موجودگی میں اپنے عزائم پورے نہیں کر سکتے‘ اس منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔ ان میں چند مایوس سیاست دان‘ ریٹائرڈ جج‘ ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور ریٹائرڈ جرنیل شامل ہیں۔ یہ اصحاب اپنے پیشرو یعنی غلام محمد‘ سکندر مرزا اور ایوب خان کے مدفون نظریات اور افکار کو سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لبادے میں لپیٹ کر عوام کے سامنے دوبارہ پیش کر رہے ہیں۔ اور عوام کو اپنا سودا خریدنے پر مائل کرنے کے لئے سب سے پہلے سیاست دانوں کو بدعنوان‘ نااہل‘ جذبہ حب الوطنی سے عاری اور اقربا نواز کہہ کے بدنام کیا گیا۔ پارلیمنٹ ان کے نزدیک چوروں‘ ڈاکوئوں‘ رسہ گیروں اور رشوت خوروں کے ٹولے سے کم نہیں۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے ذریعے اس بیانئے کی اتنی تشہیر کی گئی ہے کہ عام آدمی کے ذہن میں سیاست دان کا تصور کرپٹ‘ جھوٹے‘ بددیانت اور رشوت خور سے کم نہیں۔ اس طرح مسلسل معاندانہ رویے کے ذریعے پارلیمنٹ کے امیج کو بھی اتنا داغدار بنا دیا ہے کہ عوام اسے ایک بے کار ادارہ تصور کرتے ہیں۔ اس سارے پروپیگنڈے کا مقصد 1973کے آئین پر مبنی پارلیمانی جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام کے نام پر ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرنا ہے‘ جس میں اختیارات عوام اور ان کے منتخب اداروں کے بجائے فردِ واحد کے ہاتھ میں ہوں۔ جیکس اینڈ بیلنسز (checks and balances)کا لیبل لگا کر سابق فوجی آمر جنرل مشرف یہ نسخہ ایک عرصے سے بیچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اپنے دور میں انہوں نے سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ فارمولہ پاکستانی عوام پر مسلط کیا تھا۔ لیکن چارٹر آف ڈیموکریسی نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی اہم آہنگی کی جو فضا قائم کر دی تھی‘ اس کی وجہ سے 1973کے پارلیمانی آئین کو صدارتی آئین میں بدلنے کی مشرف کی یہ کوشش ناکام ہو گئی اور 2010میں پارلیمنٹ نے اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کرکے عوامی حاکمیت کے اصول کو ایک دفعہ پھر نافذ کر دیا۔ تاہم سابق وزیر اعظم نوازشریف کی نااہلی سے پیدا ہونے والی صورتحال نے ان عناصر کو ایک دفعہ پھر فعال ہونے کا موقعہ فراہم کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے چند دن پہلے پی ٹی آئی کے ایک رہنما‘ جو عمران خان کے بہت قریب ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں‘ نے کہا تھا کہ نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں ہم ان کی جگہ نیا وزیر اعظم نہیں چاہتے بلکہ نئے الیکشن چاہتے ہیں۔ لیکن جب دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے سخت ردعمل آیا تو پارٹی کی ہائی کمانڈ نے اس مطالبے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے‘ اسے موصوف رہنما کی ذاتی رائے قرار دے دیا۔ لیکن عمران خان کی طرف سے اس مطالبے کی دوٹوک تردید سامنے نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاوید ہاشمی کے بقول عمران خان 2014 کے دھرنے کے دوران نواز شریف کی معزولی کے بعد ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک عبوری حکومت کے قیام کے منصوبے کا انکشاف کر چکے تھے۔ ٹیکنوکریٹس کی اس عبوری حکومت کا کام انتخابات سے پہلے احتساب کا عمل مکمل کرنا تھا‘ تاکہ ''کرپٹ سیاست دان‘‘ پھر اقتدار پر قابض نہ ہو جائیں۔ کچھ حلقوں کے نزدیک یہ اندیشہ اب بھی موجود ہے اور جوں جوں سیاسی درجہ حرارت اوپر چڑھتا جا رہا ہے‘ 2018 کے انتخابات کا اپنے مقررہ وقت پر انعقاد اتنا ہی دور ہوتا جا رہا ہے۔ چودھری شجاعت حسین ان سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں‘ جو اس قسم کا خطرہ جلد بھانپ لیتے ہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیاں بشمول ن لیگ‘ موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کے حق میں نہیں۔ ان میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہیں اترنے دے گی اور موجودہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے۔ تاکہ یہ ثابت ہو کہ جمہوری تسلسل نواز شریف کا محتاج نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود انتخابات کے التوا کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نااہلی کے سبب اقتدار کی کرسی چھوڑنے کے بعد نواز شریف کی ہر دلعزیزی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن خصوصاً پنجاب میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی کے لئے یہ کسی طرح قابل قبول نہیں۔ اس لئے اگر انہیں یقین ہو گیا کہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن پھر بھاری اکثریت سے جیت جائے گی تو وہ انتخابات کو ملتوی کرانے کی پوری پوری کوشش کریں گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے حالات ہیں‘ جنہیں بنیاد بنا کر سال 2018 کے انتخابات کے التوا کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے گا؟ بیشتر حلقوں کی رائے میں تین صورتیں ایسی ہیں‘ جن کو بنیاد بنا کر انتخابات کے التوا کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اول‘ اداروں کے مابین ٹکرائو۔ نااہلی کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ریاستی اداروں کے مابین محاذ آرائی کو تیز کرنے کے الزام کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ سابق وزیر اعظم اور ان کی پارٹی اور حکومت کی طرف سے نہ صرف ان الزامات کی تردید کی جا رہی ہے بلکہ اس قسم کی محاذ آرائی کے وجود سے انکار کیا جا رہا ہے‘ اور اس کے حق میں امورِ مملکت کا حسب معمول جاری رہنا بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے۔ اس دلیل میں وزن بھی ہے۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اداروں کے مابین کشیدگی موجود ہے۔ دوسری وجہ ملک کی گرتی ہوئی معاشی صورتحال ہے۔ ملک کا خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 4.2 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہم ہر سال یہ خسارہ بیرونی مالی ذرائع سے پورا کرتے ہیں‘ جس میں دوست ملکوں کی جانب سے تحفے میں ملنے والی قوم کے علاوہ امریکہ سے حاصل ہونے والی معاشی و فوجی امداد سرفہرست رہی ہے۔ لیکن افغانستان پر اختلاف کے سبب امریکہ کی طرف سے امداد کا یہ سلسلہ رک گیا ہے اور اگر مستقبل قریب میں ان اختلافات کو دور نہ کیا گیا تو پاکستان کے لئے امریکہ کی ہر قسم کی امداد کی بندش کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کی موجودہ مخدوش صورتحال کی وجہ سے فارن ریمٹنس (foreign remittance) میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ معاشی حالات خراب ہونے کی صورت میں اکنامک ایمرجنسی کا بھی اعلان ہو سکتا ہے‘ جس کی آڑ میں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ تیسری وجہ سرحدوں پر منڈلاتے ہوئے خطرات ہیں۔ امریکہ سے آنے والی اطلاعات کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان کے بارے میں حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ اس کے تحت پاکستان کو امریکہ کی طرف سے شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک دبائو یہ ہے کہ پاکستان سے شمال مغربی قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک اور بلوچستان میں افغان طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ پاکستان نے ان علاقوں میں جنگجوئوں کے خلاف اب تک جو کارروائیاں کی ہیں‘ امریکہ ان پر خوش ہے‘ مگر اس کی جانب سے مزید کارروائیوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی نئی حکمت عملی کے تحت اقدامات نہ کئے تو اسے اپنی مغربی سرحد پر سخت کشیدگی اور خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مزاحمت کی صورت میں سرحد پر تصادم کی کیفیت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ان حالات کی روشنی میں بھی 2018 کے انتخابات کا بروقت انعقاد ناممکن ہو جائے گا۔