"DRA" (space) message & send to 7575

خارجہ پالیسی کا جائزہ

چند روز قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریہ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران انکشاف کیا تھا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے پر غور کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں نئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے گزشتہ دنوں دفتر خارجہ کا دورہ کیا اور وزارت خارجہ کے افسران کے ساتھ ملاقات میں خارجہ تعلقات کے بارے میں اپنے خیالات سے انہیں آگاہ بھی کیا۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر پاکستان کو کئی برسوں سے شدید چیلنجوں کا سامنا ہے‘ لیکن بدقسمتی سے نہ صرف یہ کہ ان چیلنجوں کا صحیح معنوں میں ادراک نہیں کیا گیا بلکہ ملک کے قومی سلامتی کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اقدامات بھی نہیں کئے گئے جو ناگزیر تھے۔ اگر کسی شعبے میں حکومت کو اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا‘ تو وہ خارجہ پالیسی ہی ہے۔ اس کی ایک وجہ کل وقتی وزیر خارجہ کا نہ ہونا بھی تھا۔ 
جناب سرتاج عزیز کی قابلیت‘ صلاحیت اور تجربے سے کسی کو انکار نہیں‘ لیکن ایک سابق بیوروکریٹ ہونے کی وجہ سے اس کا کینوس محدود ہے۔ اس کے علاوہ ان کی سوچ‘ نظریات اور اپروچ پر مرحوم جنرل ضیاالحق کے دور کے اثرات گہرے ہیں کیونکہ انہی کے دور میں وہ پبلک ڈومین میں داخل ہوئے تھے۔ خارجہ معاملات میں ان میں فہم و ادراک کی کمی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی ٹرم کے شروع میں ہی افغان طالبان کو پاکستان کے دوست قرار دے کر نہ صرف امریکہ بلکہ پوری عالمی برادری کے اس موقف کی تائید کر دی تھی کہ پاکستان امریکہ سے مالی امداد حاصل کرنے کے باوجود افغان طالبان کو اپنے ہاں محفوظ ٹھکانے فراہم کر رہا ہے۔ سرتاج عزیز چار سال سے زیادہ عرصہ تک سابق وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ رہے‘ لیکن اس دوران میں خارجہ پالیسی کے شعبے میں انہوں نے کوئی اہم اقدام نہیں کیا‘ الٹا ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے‘ حالانکہ دونوں ممالک نہ صرف علاقائی بلکہ باہمی مفادات کے لئے بھی ان تعلقات کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ جیسا کہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پاکستان کے لئے چیلنج اور نئے مواقع بھی پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ جہاں تک چیلنج کا تعلق ہے تو اس کی تازہ ترین صورت ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی قبضہ کے خلاف جدوجہد کرنے والی حزب المجاہدین کو امریکہ کی طرف سے دہشت گرد تنظیم قرار دینا ہے۔ اس سے قبل امریکہ اسی تنظیم کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو بھی دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔ ان فیصلوں سے کشمیری مجاہدین کی تحریک یقینی طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ہے‘ کیونکہ اب بھی عالمی رائے عامہ کا ایک بہت بڑا حصہ اپنا موقف متعین کرتے وقت امریکہ کی طرف دیکھتا ہے‘ اور پاکستان مسئلہ کشمیر میں ایک اہم فریق ہونے کے ناتے سے ان معاملات سے چونکہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اس لئے تسلیم کرنا پڑے گا کہ کشمیر پر امریکہ کے اقدامات پاکستان کے لئے سخت مایوسی اور کشمیری عوام کی جدوجہد کے لئے نقصان کا باعث ہیں۔ اس وقت جبکہ وادی کے تمام کشمیری عوام بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور نہتے ہوتے ہوئے بھی جدید ترین اسلحہ سے لیس بھارتی سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ انہیں بین الاقوامی سطح پر زیادہ سے زیادہ حمایت کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے برعکس امریکہ جیسی عالمی طاقت کی نظر میں ان کی جدوجہد دہشت گردی کی تحریک ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کے لئے امریکہ کی حمایت حاصل کرنے میں پاکستان کی ڈپلومیسی ناکام ہو گئی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ اور سخت غور و فکر کا متقاضی بھی کہ ایسا کیوں ہوا؟ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے ساتھ نئے مواقع بھی دستیاب ہوئے ہیں۔ ملک کو ایک نئے وزیر خارجہ ملے ہیں‘ جو خوش قسمتی سے بیوروکریٹ نہیں‘ سیاستدان ہیں۔ سیاستدان ہونے کی وجہ سے ان کے فہم و ادراک کا کینوس وسیع ہے اور وہ مسائل کو ان کے پورے سیاق و سباق میں دیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے شعبے میں ان کے خیالات سے جس حد تک واقف ہونے کا موقع ملا ہے‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ آصف اس محاذ پر ایسے اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ جو پاکستان کو پیچھے کے بجائے آگے لے جانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے وزارت خارجہ میں اپنی مدد کے لئے ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے‘ جو ملک کی خارجہ پالیسی کے بارے میں فرسودہ اور گھسے پٹے تصورات کے بجائے نئے خیالات اور نئی تجاویز پیش کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ مانا کہ موجودہ حکومت کے پاس اقتدار محدود مدت کے لئے ہے‘ لیکن ملک کے مفاد‘ خصوصاً خارجہ پالیسی کے محاذ پر اس حکومت کو جرات مندانہ اقدامات کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جیسا کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے شرکا نے بھی اتفاق کیا ہے‘ علاقائی اور عالمی سطح پر حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ پاکستان اس سمت اہم اور جرات مندانہ قدم اٹھائے جس کے نتیجے میں امن اور استحکام‘ خصوصاً افغانستان میں‘ کی طرف پیش رفت ہو۔ 
یہ ایک خوش آئند اطلاع ہے کہ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی سرکردگی میں پاکستان کے ایک وفد نے افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ اس وفد نے دونوں ملکوں کے درمیان جاری باہمی مشاورت کے سلسلے میں افغان وفد سے ملاقات کی‘ جس کی قیادت افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کی۔ اطلاعات کے مطابق یہ مشاورت اور تبادلہ خیالات دوستانہ ماحول میں ہوا‘ اور دونوں جانب سے دہشت گردی کو ایک مشترکہ چیلنج قرار دے کر اس سے نمٹنے کے لئے متعدد اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ وطن واپس آنے سے پہلے سیکرٹری خارجہ نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق یہ ملاقات بھی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ بعد ازاں اسلام آباد میں ہونے والے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں‘ جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے‘ سیکرٹری خارجہ نے افغان حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا۔ کمیٹی کے اجلاس کے اختتام پر جو بیان جاری کیا گیا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ملک کو درپیش موجودہ چیلنجوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور نہ صرف ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بلکہ امن اور استحکام کی راہ ہموار کرنے کے لئے بھی ضروری اقدامات کرنے پر تیار ہے۔ سفارتی محاذ پر ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرز نے اپنے پاکستانی ہم منصب خواجہ آصف سے رابطہ قائم کرکے انہیں عہدہ سنبھالنے کی مبارک باد دی اور ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کرنے کے لئے یہ ایک اچھا موقعہ ہو گا۔ اس سے افغانستان میں مصالحت کے عمل کو بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سیکرٹری خارجہ کے دورہ افغانستان کے دوران میں پاکستان اور افغانستان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ افغانستان میں مصالحت کے عمل کا دوبارہ آغاز کرنے کے لئے چہار فریقی کوآرڈی نیشن (QCG)‘ جس میں پاکستان اور افغانستان کے علاوہ چین اور امریکہ بھی شامل ہیں‘ کو بحال کیا جائے۔ اگر پاکستانی اور امریکی وزرائے خارجہ کی ملاقات کے نتیجے میں اس گروپ کو دوبارہ فعال کرنے پر اتفاق ہو جاتا ہے تو پاکستان کی مغربی سرحدوں پر امن اور استحکام کی جانب یہ ایک اہم پیش رفت ہو گی‘ کیونکہ چین بھی اسے آگے بڑھانے میں مستعد کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔ اس ضمن میں چینی وزیر خارجہ پہلے ہی پاکستان اور افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ روس کی طرف سے افغانستان میں امن اور مصالحت کی کوششوں کی پہلے ہی حمایت کی جا چکی ہے اور امریکہ نے بھی چین کے کردار کی حمایت کی ہے۔ اس طرح افغانستان میں گزشتہ تقریباً سولہ برس سے جاری جنگ اور تصادم کے خاتمے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے‘ تاہم امید کی جاتی ہے کہ نئے وزیر خارجہ اپنی نئی ٹیم کے ساتھ پاکستان کو درپیش اس دیرینہ اور پیچیدہ چیلنج سے نمٹنے کے لئے موثر اور کامیاب حکمت عملی وضع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں