امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حکومت کی افغانستان کے بارے میں جس پالیسی کا اعلان کیا ہے‘ اس میں چند باتیں ایسی ہیں‘ جو صدر بش اور صدر اوباما کے دور میں بھی کی جا رہی تھیں‘ اس لئے قطعاً باعثِ حیرت نہیں‘ مثلاً یہ کہ پاکستان دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے‘ ایک طرف افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے امریکہ سے امداد حاصل کر رہا ہے اور دوسری طرف طالبان کو اپنی سرزمین پر پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ اس لئے اگرصدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو پناہ دینے کا الزام عاید کیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ ان کی تقریروں میں کچھ نئی باتیں بھی ہیں‘ مثلاً اوباما کی پالیسی کے برعکس انہوں نے افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے‘ تاہم یہ نہیں بتایا کہ ان کی تعداد کیا ہو گی۔ صدر ٹرمپ کے مطابق اس کا انحصار میدان جنگ کی صورتحال پر ہو گا۔ صدر اوباما نے 2009ء میں جس پالیسی کا اعلان کی تھا‘ اس کے تحت 2014ء میں تمام امریکی اور دیگر غیر ملکی (نیٹو )افواج کو افغانستان سے نکل جانا تھا‘ لیکن دو سال کی تاخیر ہوئی۔ اس کے باوجود امریکہ نے افغانستان سے بتدریج فوجی انخلا کا پروگرام جاری رکھا اور اس سال مزید امریکی فوجی واپس بلانے کا پروگرام تھا۔ ٹرمپ نے یہ پروگرام منسوخ کر دیا اور کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا ئے گا‘ کیونکہ ان کے مطابق اچانک اور یک طرفہ فوجوں کی واپسی کے تباہ کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اوباما کے دور میں اختیار کئے گئے امریکی موقف کے مطابق ہی ٹرمپ نے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن اور مفاہمت کے حصول کیلئے بات چیت شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے مطابق تو نئی امریکی پالیسی کی اصل روح یہی مقصد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس کے حصول کیلئے نہ صرف طالبان بلکہ پاکستان پر بھی اتنا دبائو ڈالنا چاہتی ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہو جائیں۔ پاکستان سے ''ڈو مور‘‘کا مطالبہ پہلے بھی کیا جاتا تھا اور اس کے لئے ترغیبات بھی پیش کی جاتی تھیں۔ ٹرمپ نے البتہ ترغیبات کے ساتھ ساتھ دھمکیوں کا انداز بھی اپنایا ہے۔ یہ کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کے تعاون کا خواہشمند ہے اور اس کے ساتھ مل کر مثبت انداز میں کام کرنے کے لئے تیار ہے‘ مگر اس کے لئے پاکستان کو اپنا انداز بدلنا ہو گا۔ اور اگر نہ بدلا تو اسے امریکہ کی طرف سے مختلف اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اقدامات کیا ہو سکتے ہیں؟ امریکی وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان کیلئے امریکی فوجی امداد کی مکمل بندش اور نان نیٹو اتحادی کے درجے کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی علاقوں خصوصاًخیبر پختونخوا اور بلوچستان کے افغان سرحد کے ساتھ ساتھ علاقوں پر امریکی ڈرون حملے بھی ہو سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے (پاکستان پر)واضح کر دیا ہے کہ جہاں کہیں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہوں گے‘ امریکہ ان پر حملہ کرے گا۔ بش اور اوباما کے ادوار میں امریکہ کی افغان پالیسی کا ایک اہم جزو ‘ افغانستان میں قومی تعمیرِ نو اور جمہوری نظام کا فروغ تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس سے لا تعلقی کا اظہار کیااور کہا ہے کہ امریکہ افغانستان پر اپنی مرضی کا سیاسی نظام مسلط نہیں کرنا چاہتا‘ بلکہ آئندہ امریکی پالیسی کا واحد ٹارگٹ طالبان کے خلاف بھرپور جنگ کرنا ہے‘ تاکہ وہ مجبور ہو کر امن مذاکرات میں شمولیت اختیار کر لیں۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے صدر ٹرمپ کی تقریر میں تین باتیں خصوصی طور پر وجہ تشویش ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجے جائیں گے‘ اور انہیں طالبان کے خلاف جنگ میں ہر حربہ استعمال کرنے کا اختیار ہو گا۔ حتیٰ کہ امریکی بمبار طیاروں کی امداد بھی حاصل ہو گی۔ دفاعی ماہرین کی رائے میں صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ پالیسی کو اگر عملی جامہ پہنایا گیا تو افغانستان‘ جہاں پہلے ہی کشت و خون کی انتہا ہو چکی ہے‘ مزید قتل و غارت کا شکار ہو گا۔ ایک ہمسایہ ملک کیحیثیت سے پاکستان کیلئے یہ صورتحال انتہائی سنگین اور خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ کی تقریر میں بھارت کی بہت تعریف کی گئی ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے کردار خصوصاً معاشی ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ بھارتی میڈیا نے اس سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ نئی امریکی پالیسی کا صرف افغانستان کے مسئلے سے تعلق نہیں‘ بلکہ یہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے پر محیط ہے۔ ایک بھارتی اخبار نے اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے بھارت کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے عوض وہ بھارت کو افغانستان میں اپنے قدم جمانے اور اثر ونفوذ کو وسیع کرنے کا موقعہ دے گا۔ ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں پاک بھارت کشیدہ تعلقات کا ذکر کیا اور کہا کہ خطے کے امن کیلئے یہ کشیدگی بہت خطرناک ہے۔ خصوصاً اس صورت میں کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور تصادم کی صورت میں پورا جنوبی ایشیا اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار انتہا پسندوں اور دہشت گرد عناصر کے ہاتھ نہ لگیں۔ صدر ٹرمپ کی تقریرمیں اس بات پر زور کہ افغانستان کا مسئلہ صرف افغانستان تک محدود نہیں‘ بلکہ یہ ایک علاقائی چیلنج بن چکا ہے‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اپنی پالیسی پر عمل درآمد میں صرف طالبان کے خلاف جنگ تیز کرنے کی ہی نہیں سوچ رہا بلکہ وہ پاکستان میں ان کی مبینہ پناہ گاہوں کے خلاف ہر قسم کی کارروائی کو بھی اس مہم کا لازمی حصہ سمجھتا ہے اور اس کے لئے بھارت کو بھی ساتھ ملانا چاہتا ہے۔ اس وقت کشمیر کی صورتحال اور لائن آف کنٹرول کے آر پار سے آئے دن فائرنگ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات جس حد تک کشیدہ ہیں‘ اس کے پیش نظر امریکہ کی نئی پالیسی پر عمل درآمد نہ صرف پاکستان کی سلامتی بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے کے امن اور استحکام کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔
صدر ٹرمپ کی تقریرمیں ایک نیا اور انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ وہ افغانستان سے آگے جنوبی ایشیا اور جنوبی ایشیا سے آگے ‘ ایشیا بحرالکاہل کے خطوں پر مشتمل ایک بلاک کی بات کی گئی ہے‘ جہاں امریکہ کو سب سے زیادہ فکر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور طاقت سے ہے اور جس کے آگے امریکہ بھارت‘ جاپان اور آسٹریلیا کو ساتھ ملا کر بند باندھنے کی کوشش کررہا ہے۔ آبنائے ملاکا سے آبنائے ہرمز اور بحرِ احمر تک بحر ہند کا یہ علاقہ اس حصار کا ایک اہم حصہ ہے اور امریکہ کی کوشش ہے کہ اس میں بھارت کوزیادہ سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے۔ افغانستان میں بھارت کو اپنے کردار کو وسیع کرنے کی امریکی دعوت کا اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نہیں ۔
ٹرمپ کی طرف سے اعلان کردہ نئی افغان پالیسی نے پاکستان کے لئے ایک سنگین چیلنج ضرور پیدا کر دیا ہے‘ لیکن ایسی صورتحال میں نہیں کہ پاکستان اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ بلکہ یہ ایک موقعہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتیں اور عسکری قیادت‘ مل بیٹھ کر ایک ایسی پاک افغان پالیسی وضع کریں ‘ جس میں امریکہ پر انحصار کے بجائے قومی مفاد پر تکیہ کیا جائے۔ مگر اس کے لئے تین باتوں کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ ایک یہ کہ پاکستان اپنے دوست ہمسایہ ممالک یعنی چین‘ ایران اور روس کو اعتماد میں لے ۔ دوسرے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے جرات مندانہ فیصلے کئے جائیں اور سب سے بڑھ کر اس نئی پالیسی کی تشکیل میں پارلیمنٹ سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ حربی امور کے ایک مشہور جرمن ماہر نے کہا کہ جنگ سیاست کا دوسرا نام ہے۔ جنگ اور سیاست کو الگ نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ مائوزے تنگ کا کہنا ہے کہ جنگ کی صورت میں ملک کی سیاسی قیادات کو رہنمائی کا کردار ادا کرنا چاہئے‘ کیونکہ جنگ سیاست کی ہی ایک شکل ہے۔ صرف طریقے مختلف ہوتے ہیں۔