اپنے خارجہ تعلقات کے محاذ پر پاکستان کو گزشتہ 70برسوں میں متعدد بار اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن 21اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی پالیسی کے اعلان سے پاکستان کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ اپنی نوعیت کا واحد سنگین ترین چیلنج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے ملک یعنی امریکہ کی طرف سے آیا ہے جس کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ اور گہرے تعلقات رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران میں دونوں ملک ایک دوسرے کے اتحادی تھے۔ دونوں نے افغانستان میں دو جنگیں... پہلے افغانستان پر سوویت قبضہ کے خلاف اور اب دہشت گردی کے خلاف ... لڑی ہیں۔ پاکستان کی معیشت اور سکیورٹی کے لئے امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر بھی فراہم کئے ہیں۔ اب بھی دونوں ملک سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت متعدد اہم شعبوں مثلاً توانائی‘ آبی وسائل‘ تعلیم‘ صحت‘ ماحولیات‘ زراعت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی ملک کا درجہ بھی دے رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس تعاون کے نتیجے میں پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہو کر بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی خدمات اور تعاون کو تسلیم کرنے کی بجائے افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی تو پاکستان کی طرف سے سخت ردعمل کا آنا ایک قدرتی بات تھی۔ یہ ردعمل نہ صرف وزارت خارجہ کی طرف سے سخت تردیدی بیان بلکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قراردادوں کی صورت میں بھی ہمارے سامنے آیا تھا۔ اسی طرح کابینہ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے بھی ایک اعلامیہ کے ذریعے امریکی صدر کی طرف سے عائد کردہ الزامات کو مسترد کر دیا اور حکومت کے لئے آئندہ پالیسی گائیڈ لائن بھی متعین کی گئی۔ چونکہ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں پاکستانی خدمات کو نظر انداز کرکے افغانستان کی موجودہ صورتحال کی تمام تر ذمہ داری اس پر ڈال دی تھی اور پاکستان کو سنگین اقدامات کی دھمکی بھی دی تھی‘ جن میں پاکستان کو حاصل نیٹو اتحادی کے درجے کا خاتمہ ‘ سول اور ملٹری امداد کی بندش اور پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے شامل تھے‘ اس لئے پاکستان کے سیاسی اور سکیورٹی حلقوں کی طرف سے پاکستان کے راستے امریکہ کو افغانستان میں اپنی افواج کے لئے ضروری سامان بھیجنے کی سہولت ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان اور امریکہ میں پکی ٹھن گئی ہے‘ کیو نکہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے احتجاجاً اپنا دورہء امریکہ موخر کر دیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم پاکستانی حکام سے دونوں ملکوں کے تعلقات اور موجودہ صورتحال پر بات چیت کے لئے اسلام آباد آ رہی تھی‘ لیکن پاکستان نے اس کی میزبانی سے معذرت کر لی۔ وزیر دفاع خرم دستگیر نے امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل جوزف ووئل سے ملاقات سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف امریکہ کے حصے کی کولیشن سپورٹ فنڈ کی ایک خطیر رقم پہلے ہی روک رکھی تھی۔ موجودہ بحران کے پیدا ہونے کے بعد اس نے پاکستان کے لئے 225ملین ڈالر کی فوجی امداد کو بھی ریلیز کرنے سے انکار کر دیا۔
تاہم اب چند دنوں سے پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں مزید کشیدگی اور بگاڑ کی بجائے ٹھہرائو اور مفاہمت کا رجحان غالب ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دونوں ملکوں کی قیادت کی طرف سے متانت ‘ سنجیدگی اور بالغ نظری کا اظہار ہے۔ مثلاً صدر ٹرمپ کی دھواں دھار اور دھمکی آمیز تقریر کے مقابلے میں سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ ٹلرسن کے وضاحتی ریمارکس مثبت اورحوصلہ افزا تھے۔ ان ریمارکس میں انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کے کلیدی کردار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ امریکہ کی نئی پالیسی کا اولین مقصد پاکستان کے کردار کو یقینی بنانا ہے اور اس کے حصول کے لئے امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر کوشش کرنے کے لئے تیار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے بھی صدر ٹرمپ کی نکتہ چینی کے جواب میں پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ افغانستان میں امن اور استحکام کی خاطر پاکستان اور امریکہ کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ روس نے بھی اپنے بیان میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی کی بجائے تعاون پر زور دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کو یہ دونوں ممالک نہ صرف اپنے بلکہ پورے خطے کے مفادات کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی تقریر کی مزید وضاحت اور پاکستان کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل نے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل (ر)ناصر خان جنجوعہ سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے جنرل جنجوعہ سے کہا کہ امریکہ پاکستان کے خدشات سے آگاہ ہے اور افغانستان میں بھارت کے صرف معاشی کردار کا حامی ہے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس میں پیش کی گئی تجاویز اور ان پر اتفاق نے بھی افغانستان کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں پیدا ہونے والے بحران کو ڈی فیوز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران میں پاکستان اور اس کے ارد گرد جو اہم سیاسی اور جیو سٹریٹیجک تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں‘ ان کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مناسب اور ضروری تبدیلیاں لا کر پاکستان کے قومی مفادات کے دفاع کے لئے بھرپور سفارتی کوششیں شروع کرنی چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے وزیر خارجہ خواجہ آصف اوروزارتِ خارجہ کے دیگر سینئر افسران کے ہمراہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر اپنی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جن سربراہان مملکت اور امریکی شخصیات سے ملاقات کی‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سفارت کاری کے ذریعے اپنے قومی مفادات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ مثلاً انہوں نے امریکی کمپنیوں پر پاکستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری پر زور دیا۔ وزیر اعظم کی امریکی نائب صدر مائیک پنس کے ساتھ ملاقات خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی روابط اور تعلقات برقرار رہنے چاہئیں اور دہشت گردی جیسے مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر جدوجہد کرنی چاہئے۔ اسی طرح وزیر اعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی ایک متوازن اور مثبت تقریر ہے۔ اس میں وزیر اعظم نے افغانستان کے بارے میں امریکہ کی نئی پالیسی کے بعض پہلوئوں پر پاکستان کے تحفظات کے باوجود صدر ٹرمپ کی تقریر کو برملا تنقید کا نشانہ نہیں بنایا‘ لیکن ملک کی سلامتی‘ آزادی اور خود مختاری سے متعلقہ تمام امور پر وزیر اعظم نے پاکستان کے موقف کو کھل کر بیان کیا ہے۔ ان میں کشمیر اور بھارت سے بات چیت کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم نے بالکل درست فرمایا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تنازعات بشمول کشمیر پُر امن طریقے سے حل کرنے کے حوالے سے مذاکرات کے لئے تیار ہے‘ مگر پاکستان کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کا خواہاں ہے۔ اسی طرح افغانستان کے بارے میں پاکستان کے موقف کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اس کے لئے دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال اور برما کے مسلمانوں کو درپیش مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پاکستان کے کروڑوں عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کی جو فضا قائم ہو گئی تھی‘ وہ آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے کیونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی برقراری کو نہ صرف اپنے قومی مفادات بلکہ خطے کے امن کے لئے بھی ضروری سمجھتے ہیں۔