"DRA" (space) message & send to 7575

وزیر خارجہ کی امریکہ یاترا

وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ دورہ اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کی دعوت پر کیا۔ اس دورے میں ان کی مصروفیات میں ایک امریکی تھنک ٹینک سے خطاب اور امریکی صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاون برائے نیشنل سکیورٹی جنرل میکماسٹر کے ساتھ ملاقات بھی شامل تھی۔ ان دو شخصیات کے علاوہ وزیر خارجہ کی کسی اور اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کی تقریر کے خلاف ردعمل کے طور پر پاکستان نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقات میں رتبے کے لحاظ سے پروٹوکول پر سختی سے عمل کرنے کی جس پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے‘ اس کے جواب میں امریکہ نے بھی پاکستانی وزیر خارجہ کی کسی اور اعلیٰ رتبے کے امریکی افسر سے ملاقات نہیں کروائی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عین اس دن جب پاکستانی وزیر خارجہ اپنے امریکی دورے کے آغاز میں واشنگٹن میں موجود تھے‘ میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ امریکہ کے دو اہم عہدے داروں کے پاکستان کے بارے میں بیانات شائع ہوئے۔ ایک چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ڈن فورڈ اور دوسرے وزیر دفاع جم میٹس ہیں۔ دونوں نے اپنے بیانات کانگرس کی متعلقہ کمیٹیوں میں افغانستان اور پاک امریکہ تعلقات پر اظہار خیال کرتے ہوئے دیے۔ جنرل ڈن فورڈ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں سے روابط قائم کر رکھے ہیں۔ جم میٹس نے تو حد کر دی۔ کہا کہ وہ پاکستان کو آخری موقعہ فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان اور بھارت کے خلاف مبینہ طور پر دہشت گردوں کی حمایت ترک کرکے امریکی پالیسی کے مطابق افغانستان میں جنگ کے اختتام اور امن کے قیام پر طالبان کو راضی کرے۔ جم میٹس کے بیان کے مطابق‘ اور اگر بھرپور کوششوں کے باوجود امریکہ کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی‘ تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں جو سوچا ہوا ہے‘ اس پر عمل کیا جائے گا۔ امریکہ کی طرف سے کون کون سے اقدامات ممکن ہیں؟ اب تک اس ضمن میں جو قیاس آرائیاں کی گئی ہیں‘ ان کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی ہونے کا جو رتبہ دے رکھا ہے‘ وہ واپس لے لیا جائے گا۔ پاکستانی علاقوں میں دور اندر تک دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو امریکہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف معاشی پابندیوں کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب پاکستان کو امریکہ کی طرف سے ملنے والی فوجی اور اقتصادی امداد کی بندش بھی ہو سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد امریکہ کے پالیسی ساز حلقوں میں ان اقدامات کے ممکنہ اثرات پر تقریباً چھ سات ماہ خوب بحث رہی۔ ایک رائے یہ تھی کہ اگر امریکی انتظامیہ کا مقصد افغانستان کے بارے میں پاکستان کے رویے میں تبدیلی لانا ہے تو ماضی گواہ ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا‘ بلکہ اس کا الٹا نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے اور پاکستان چین کے مزید قریب چلا جائے گا۔ پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کا واحد طریقہ وہ ہے جو خواجہ آصف نے بیان کیا‘ یہ کہ خطے میں پاکستان کی سلامتی کو لاحق خدشات کو تسلیم کیا جائے۔ ان میں بھارت کی طرف سے تنازع کشمیر کو حل کرنے سے مسلسل انکار‘ اور خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش ہے۔ خواجہ آصف اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کسی قیمت پر علاقے میں بھارت کو اپنی اجارہ داری قائم ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور اگر افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکہ کی نئی حکمت عملی کا یہی مقصد ہے تو پاکستان اس کے لئے تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا۔
لیکن معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں پر خواجہ آصف کے دلائل کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے‘ خواجہ آصف کو کہنا پڑا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود غلط فہمیوں اور اختلافات کو دور کرنے کے لئے اعلیٰ سطح پر مزید مذاکرات ہونے چاہئیں۔ امریکیوں نے پاکستانی وزیر خارجہ کی یہ تجویز قبول کر لی ہے اور چند ہفتوں میں امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن اور سیکرٹری دفاع جم میٹس‘ دونوں پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ کے ان اعلیٰ اور اہم عہدے داروں کا پاکستان آنے کا مقصد صدر ٹرمپ کی 21 اگست کی تقریر کی روشنی میں پاکستان کو افغانستان کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنے پر رضامند کرنا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی موقع کی نزاکت کا احساس ہو چکا ہے‘ اور اس سلسلے میں متعدد سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا حالیہ دورہ افغانستان اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرچہ پاکستان اور افغانستان کے سیاسی اور عسکری حکام کے درمیان رابطوں اور مذاکرات سے دونوں ملکوں کی گزشتہ 70 سالہ تاریخ بھری پڑی ہے‘ لیکن آرمی چیف کا حالیہ دورہ افغانستان منفرد نوعیت کا دورہ تھا‘ کیونکہ اس کا مقصد افغانستان کے بارے میں امریکہ کی نئی حکمت عملی کے اعلان سے پیدا ہونے والی صورتحال کے نقصان دہ اثرات سے پاکستان کے بنیادی مفادات کا تحفظ ہے۔ اور کابل سے آنے والی خبروں کے مطابق آرمی چیف اس مقصد کے حصول میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ کیونکہ آرمی چیف نے نہ صرف افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی‘ بلکہ بعد میں دونوں کے درمیان وفود کی سطح پر بھی بات چیت ہوئی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلیٰ سطح کی اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ وعدے اور اعلانات کی بجائے‘ اسلام آباد اور کابل نے عملی اقدام اور ان کی نگرانی کے لئے ٹاسک ٹیمیں تشکیل دینے پر اتفاق کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں مختلف سطح پر پاکستان اورافغانستان کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تیز کرنے اور سرحدوں پر امن و سکون کے قیام کی خاطر ملاقاتوں میں محض اعلانات کئے جاتے تھے یا بلند بانگ دعوے کئے جاتے تھے۔ عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا تھا۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ پاکستان اور افغانستان نے جن اقدامات پر اتفاق کیا‘ انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی ایک تفصیلی روڈ میپ پر رضامندی کا اعلان کیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کر لی ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان حائل بداعتمادی کی خلیج اگر پاٹ لی جاتی ہے اور دونوں ملک قیام امن کی طرف پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے خلاف اعلان کردہ چارج سیٹ بے معنی ہو جاتی ہے اور افغانستان کا مسئلہ بالکل ایک نئی اور مختلف شکل اختیار کر جائے گا۔ پاکستان کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان سے براہ راست یا چین کی وساطت سے رابطہ کرکے معاملات کو سلجھا لیا جائے۔ اس صورت میں پاکستان پر امریکہ کے الزامات کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا‘ لیکن افغانستان میں امریکہ اپنے اثر و رسوخ کو ختم نہیں کرنا چاہتا‘ بلکہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں امریکہ کے جو مفادات ہیں‘ ان کے تحفظ کے پیش نظر امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی ضروری سمجھتا ہے۔ اسے یقینی بنانے کیلئے پہلے امریکہ پاکستان پر تکیہ کرتا تھا‘ اب وہ بھارت کا سہارا لے کر یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو بائی پاس کرکے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ افغانستان میں ایک بہت اہم سٹیک ہولڈر کی حیثیت حاصل کر چکا ہے اور باقی تمام سٹیک ہولڈر مثلاً چین‘ روس‘ ایران اوروسط ایشیا ئی ریاستوں کی مانند‘ امریکہ کو بھی اس گرینڈ کوشش میں شامل کرنا پڑے گا‘ جس کا مقصد افغانستان میں جنگ بند کرنا اور امن قائم کرنا ہے۔ اس لئے افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام کے لئے محض پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ کوششیں کافی نہیں‘ بلکہ امریکہ کو بھی ان کوششوں میں ایک اہم فریق کی حیثیت سے شامل کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے چہار فریقی رابطہ گروپ (QCG)کو بحال کرنے اور دوبارہ فعال بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور چین اس پر راضی ہیں‘ لیکن اس سے پہلے یہ گروپ اپنے کام کا آغاز کر دے‘ جہاں ایک طرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی ضروری ہے‘ وہاں پاکستان اور امریکہ کے درمیان بھی اختلافات کا خاتمہ اور تعاون لازمی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں