"DRA" (space) message & send to 7575

محاذ آرائی سے اجتناب

سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ٹیکسلا میں اپنی تازہ ترین پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت اور شریف خاندان کو درپیش چیلنجز کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ ممکن ہے ان کی پارٹی کے بعض ارکان ان سے اتفاق نہ کریں لیکن سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اس وقت جس مشکل صورتحال سے دوچار ہیں‘ اس کے پیش نظر ان کے سامنے کوئی اور چارہ کار نہیں کہ وہ عدلیہ اور اداروں سے محاذ آرائی ترک کرکے مقدمات کا سامنا کریں اور امید رکھیں کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ ایک لحاظ سے وہ عدلیہ سے تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی علالت کے باوجود وہ خود اور ان کے بچے بھی احتساب عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ انہوں نے نہ تو مقدمے کا بائیکاٹ کیا ہے اور نہ عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس سے پہلے ہی میاں نواز شریف اداروں کے بارے میںا پنے لہجے میں نرمی لا چکے ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی اپنی کابینہ کے ارکان کو اداروں پر تنقید سے احتراز کی تلقین کر چکے ہیں۔ وزیر دفاع خرم دستگیر کا جی ایچ کیو میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرنا اور اس ملاقات میں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق‘ اندرونی اور بیرونی سلامتی سے متعلق مسائل پر تفصیلی گفتگو سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ برف پگھل رہی ہے ۔ کراچی میں ''معیشت اور سکیورٹی‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف نے پاکستان مسلم لیگ کے چار سالہ دور حکومت میں معیشت کے بعض شعبوں مثلاً توانائی‘ انفراسٹرکچر اور میکرو اکنامک سطح پر حاصل ہونے والی کامیابیوں کا جس طرح اعتراف کیا‘ اس سے بھی اس نوع کے اشارے ملتے ہیں کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان تعلقات ٹھیک نہج پر جا رہے ہیں۔ حالانکہ 2 اکتوبر کو احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر رینجرز کی بلا اطلاع تعیناتی اور وزیر داخلہ احسن اقبال کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ نے فضا کو کافی تلخ بنا دیا تھا۔ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ اندرونی سیاست میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو جس طرح ناموافق سیاسی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بیرونی محاذ پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو جن خطرات کا سامنا ہے‘ اس کے پیش نظر فریقین نے محاذ آرائی سے اجتناب کو نہ صرف اپنے بلکہ ملک کے مفاد میں بھی بہتر تسلیم کرکے اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مثلاً داخلی سطح پر مسلم لیگ ن اور سابق وزیراعظم کو پاناما اور نااہلیت کے کیس پر تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے متفقہ اور متحدہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اپوزیشن کا موقف یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کو اپنی نااہلیت کا فیصلہ قبول کرکے اپنے خاند ان سمیت عدالتوں کا سامنا کرنا چاہئے۔
ان پارٹیوں میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پارٹی پیپلز پارٹی بھی ہے‘ جس نے 2014 کے دھرنا نمبر ایک کے موقع پر حکمران جماعت کا ساتھ دے کر پارلیمنٹ اور حکومت کو غیر سیاسی طاقتوں کی دست برد سے بچا لیا تھا۔ اب وہی پارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر سابق وزیراعظم کے بطور صدر مسلم لیگ ن کی مخالفت کر رہی ہے۔ اس کا مظاہرہ حال ہی میں سینیٹ میں ہوا‘ جہاں تمام اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی قراردادکو اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا‘ جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کی دفعہ 63ایف کے تحت نااہل قرار دئیے گئے شخص کو کسی پارٹی کے عہدے پر منتخب نہیں ہونا چاہئے۔ سینیٹ کی اس قرارداد کی اگرچہ کوئی قانونی حیثیت نہیں‘ تاہم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم کو اپوزیشن کی اُس طرح حمایت حاصل نہیں ہے‘ جس طرح 2014 میں حاصل تھی۔ چودھری نثار کی پریس کانفرنس سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ ن کے چھوٹے بڑوں کی ایک کثیر تعداد شریف خاندان کی طرف سے مبینہ طور پر عدلیہ پر تنقید اور اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے حق میں نہیں۔ ان میں چودھری نثار اور بقول ان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی شامل ہیں۔ کچھ حلقوں نے ٹیکسلا پریس کانفرنس میں چودھری نثار کے بیانات کو مسلم لیگ ن میں دھڑے بندی اور اس میں ٹوٹ پھوٹ کا پیش خیمہ قرار دیا ہے‘ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اختلاف رائے ضرور موجود ہے‘ مگر جب تک نواز شریف ایک موثر قیادت فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘ مسلم لیگ ن متحد رہے گی۔ جہاں تک خارجہ محاذ کا تعلق ہے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ اس پر خطرے کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔ امریکی ڈیفنس سیکرٹری کانگریس کو بتا چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکہ کی نئی حکمت عملی کے مطابق پاکستان کے تعاون کو حاصل کرنے کی ایک کوشش اور کریں گے اور اگر اس میں وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے تو صدر ٹرمپ کے ذہن میں اس کے لئے جو روڈ میپ ہے، اس پر عمل کیا جائے گا۔ پاکستان میں اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ لیز کرٹس کی قیادت میں حال ہی میں جس امریکی وفد نے اعلیٰ حکام سے بات چیت کی‘ وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 
افغانستان کے بارے میں نئی امریکی حکمت عملی دو ایسے نکات ہیں‘ جو پاکستان کے لئے نہ صرف خطرناک بلکہ ناقابل قبول ہیں۔ اس میں ایک افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کو گرائونڈ ایکشن میں ہر ضروری اقدام کی آزادی ہے اور دوسرا نکتہ افغانستان میں بھارت کے کردار میں توسیع کی حمایت ہے۔ اگر ان دو امور پر امریکہ نے پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش نہ کی تو ہماری مغربی سرحدوں پر سکیورٹی صورتحال مخدوش ہو سکتی ہے۔ ہماری عسکری قیادت کو بھی اس خطرے کا احساس ہے‘ اس لئے ان کی طرف سے سیاسی قیادت کے ساتھ مفاہمت اور تعاون پر آمادگی کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس لئے طاقت کے ان دو مراکز‘ جنہوں نے عملی طور پر متوازی حیثیت اختیار کر لی ہے‘ کے درمیان اگر معاہدہ نہیں تو ایک سیز فائر کا امکان ضرور موجود ہے۔ موجودہ حکومت اور مسلم لیگ ن کی طرف سے اس کو ویلکم کیا جائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں ایک طرف تو حکومت اپنے معاملات بغیر کسی رکاوٹ اور خطرے کے جاری رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی اور دوسری طرف مارچ میں سینیٹ کے انتخابات اور جون کے بعد نئے پارلیمانی انتخابات کی پاورگیم میں اٹھائے ہوئے بنیادی سوالات دب کر رہ جائیں گے، ان سوالات میں مرکزی حیثیت اس سوال کو حاصل ہو گی جو سابق وزیر اعظم نواز شریف بار بار اٹھاتے ہیں کہ اس ملک پر حکومت کرنے کا حق کسے حاصل ہے؟ بانیانِ پاکستان نے قرادادِ مقاصد (1949) میں اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کر دیا تھا کہ پاکستان سمیت تمام کائنات پر حاکمیت/اقتدارِ اعلیٰ اللہ ہی کو حاصل ہے۔ مملکت پاکستان میں حکومت کا حق عوام کے نمائندوں کو ہے‘ جو اسے مقدس امانت کے طور پر خدا اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں اور ارشادات کے مطابق اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کریں گے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 70 برس میں قراردادِ مقاصد کی اس اہم شق کی بار بار خلاف ورزی کی گئی اور منتخب جمہوری حکومتوں کو ہٹا کر غیر منتخب حکمران بر سرِ اقتدار آتے رہے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک افسوسناک مگر ناقابل تردید پہلو ہے کہ بار بار جمہوی عمل کو معطل کیا گیا۔
اگرچہ اپوزیشن‘ جس میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف پیش پیش ہیں‘ نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے ہٹانا چاہتی ہے‘ اور اس کے لئے انہوں نے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 کو بھی چیلنج کر رکھا ہے۔ مگر نواز شریف خواہ مسلم لیگ (ن) کے صدر رہیں یا نہ رہیں‘ اپنی پارٹی کے لئے قیمتی اثاثہ رہیں گے۔ پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط رہے گی اورحکومت بھی انہی سے رہنمائی حاصل کرتی رہے گی۔ اغلب امکان یہی ہے کہ 2018کے پارلیمانی انتخابات کے معرکے میں مسلم لیگ ن نواز شریف کی قیادت میں ہی حصہ لے گی۔ جن حلقوں کا خیال ہے کہ نااہلی کے بعد نواز شریف قومی سیاست کے لئے غیر اہم ہو جائیں گے‘ انہیںمایوسی ہو گی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ یہ قوتیں مختلف طریقوں سے نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی قیاددت سے الگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کا مقصد آئندہ انتخابات سے پہلے موجودہ حکومت کو مفلوج کرنا اور مسلم لیگ کے اندر دھڑے بندی اور توڑ پھوڑ کے عمل کو ہوا دے کر اپنی کامیابی کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے۔ اور یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک مسلم لیگ‘ نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں