امریکہ عالمی طاقت ہے اور عالمی طاقت ہونے کی حیثیت سے اس کے مفادات بھی عالمی ہیں‘ یعنی دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جس سے کسی نہ کسی حد تک امریکی مفادات وابستہ نہ ہوں‘ تاہم دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے کافی عرصہ تک امریکہ کی توجہ پہلے یورپ‘ پھر مشرقِ بعید اور جنوب مشرقی ایشیا اور اس کے بعد مشرقِ وسطیٰ پر مرکوز رہی۔ اس کی متعدد وجوہات تھیں‘ تاہم ان میں سب سے نمایاں وجہ سابق سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان دوسری جنگِ عظیم کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ تھی۔ 1990ء میں کیمونزم کے زوال‘ سابق سوویت یونین کے شیرازہ بکھرنے اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد امریکہ کی توجہ دنیا کے دیگر حصوں کی طرف مبذول ہونے لگی۔ ان میں جنوبی ایشیا بھی شامل ہے۔ سرد جنگ کے خاتمہ سے قبل جنوبی ایشیا کے بارے امریکی پالیسی صرف کسی خاص مسئلے کے حوالے سے اور قلیل المیعاد مقاصد پر مبنی ہوتی تھی۔ مثلاً 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں امریکہ نے پاکستان کو اپنا اتحادی اسی لئے بنایا کہ کمیونزم کے خلاف جنگ میں اسے جنوبی ایشیا میں کسی دوست ملک کی ضرورت تھی لیکن جونہی سرد جنگ کا زور ٹوٹا‘ امریکہ نے پاکستان سے آنکھیں پھیر لیں۔ 1980ء کی دہائی میں پاکستان اور امریکہ ایک دفعہ پھر سٹرٹیجک پارٹنر تھے لیکن 1989ء میں جونہی روسی فوجیں‘ افغانستان سے نکلیں پاک، امریکہ تعلقات ایک دفعہ پھر سردمہری کا شکار ہوگئے۔ نائن الیون (9/11) کا واقعہ ہوا تو امریکہ کو پاکستان کی ایک دفعہ پھر ضرورت پڑ گئی اور دونوں ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بن گئے۔ کہنے کو توپاکستان اب بھی امریکہ کا اتحادی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور اس کی سب سے اہم وجہ جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکہ کی موجودہ پالیسی ہے جس کا اظہار صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی 21 اگست کی تقریریں کر چکے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ نے پہلی دفعہ جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی پالیسی کو طویل المیعاد بنیادوں پر استوار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مثلاً افغانستان کو چھوڑ کر نہیں جا رہا۔ بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے‘ ٹرمپ کی حکومت اسے امریکہ کا قدرتی اتحادی سمجھتی ہے اور اس کے ساتھ سو سالہ معاہدے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اس نئی حکمت عملی، جس کا اصل مقصد خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنا ہے، میں ، امریکہ پاکستان کی اہمیت کا بھی قائل ہے۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن نے اپنے حالیہ دورہ کے دوران پاکستان کی اہمیت اور خطے کے امن اور سلامتی کی بحالی میں اس کے کلیدی کردار کا برملا ذکر کیا‘ تاہم جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکی پالیسی کے بعض پہلوئوں پر پاکستان نے تحفظات کا اظہار کردیا ہے اور جب تک ان تحفظات کو دور نہیں کیا جاتا جنوبی ایشیا اور خصوصاً افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے فروغ کیلئے پاکستان کے تعاون کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ جن پہلوئوں پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں ان میں امریکہ کی طرف سے بھارت پر خطے اور افغانستان میں خصوصی کردار ادا کرنے پر اصرار ہے۔ اسے ممکن بنانے کیلئے امریکہ بھارت کو معاشی طورپر طاقت ور اور عسکری لحاظ سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے بھارت کو مسلح ڈرون طیاروں اور اس کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا فیصلہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاک بھارت موجودہ تعلقات کی روشنی میں‘ پاکستان کیلئے جنوبی ایشیا میں بھارت کے سیاسی کردار کو قبول کرنا ممکن نہیں۔ پاکستانی حکام نے اپنے اس موقف سے ریکس ٹلرسن کو پوری طرح آگاہ بھی کر دیا ہے لیکن پاکستانی تحفظات کے باوجود امریکہ بھارت کو خطے میں ایک بالادست طاقت بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے بات چیت کے بعد نئی دہلی میںٹلرسن کے بیانات ہیں، جن میں انہوں نے بھارت اور امریکہ کو قدرتی حلیف قرار دیتے ہوئے باہمی تعلقات اور تعاون کو مزید وسیع اور گہرا بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی امریکی حکمت عملی پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تنائو برقرار رہے گا۔
جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی امریکی حکمت عملی کے تحت پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کی ایک اور وجہ علاقائی سلامتی پر دونوں ملکوں کے نکتہ نظر میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ اگست میں صدر ٹرمپ کی تقریر اور اس کے بعد مختلف امریکی حکام ،جن میں ٹیلرسن ‘ سیکرٹری آف ڈیفنس جم میٹسی اور چیف آف جائنٹ سٹاف جنرل ڈنفورڈ شامل ہیں کے بیانات سے ظاہر ہے۔ امریکیوں کے نزدیک جنوبی ایشیا کی سلامتی کو پاکستان میں موجود بعض دہشت گرد گروپوں سے خطرہ ہے ۔ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ گروپ پاکستان کی سرزمین کو دیگر ممالک مثلاً افغانستان اور بھارت کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے استعمال کرتے ہیں چنانچہ امریکی پاکستانیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تنظیموں کیخلاف کارروائی کی جائے اور انہیں پاکستان میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے نکل کر افغانستان میں حملے کرنے سے روکا جائے۔ اس کا جواب وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے یوں دیا کہ پاکستان میں نہ تو حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور نہ پاکستان نے افغان طالبان کو ملک کے کسی حصے میں پناہ دے رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کیخلاف کارروائیوں کیلئے امریکی مطالبے پر خواجہ آصف کا یہ جواب تھا کہ پاکستان کسی کی پراکسی جنگ نہیں لڑ سکتا۔ جہاں تک افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کا تعلق ہے تو اس بارے میں حکومت پاکستان کا واضح موقف یہ ہے کہ اب افغان طالبان پاکستان کے زیراثر نہیں کیونکہ افغانستان کا 45 فیصد رقبہ ان کے کنٹرول میں ہے لہٰذا پاکستان انہیں مذاکرات پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر مسلسل دبائو ڈال رہی ہے۔ کابل میں اپنے قیام کے دوران ٹلرسن نے کہا کہ اگر افغانستان کے بارے میں پاکستان نے اپنا رویہ نہ بدلا اور ہماری مرضی کے مطابق عملی اقدامات نہ کیے تو اسے نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ٹلرسن کے اس بیان پر پاکستان میں سخت ردعمل پیدا ہوا ۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اس کی مذمت کرتے ہوئے وزیر خارجہ کو اس پر سینیٹ میں بریفنگ دینے کی درخواست کی تھی۔ افغانستان اورجنوبی ایشیا کے بارے میں امریکہ کی نئی پالیسی کے اعلان کے بعد اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستانی تحفظات اور خدشات کو نظرانداز کر کے اس کو عملی جامہ پہنایا تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس صورتحال میں اگر کوئی امید افزا پہلو ہے تو وہ یہ کہ پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات میں ابھی تک کوئی بڑا رخنہ پیدا نہیں ہوا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ''سٹریٹجک ڈائیلاگ‘‘ کے تحت متعدد شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور امریکی نائب صدر پنس کے درمیان نیویارک میں ملاقات کے دوران میں فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا تھاکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون جاری رہنا چاہئے۔ خود ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح افغانستان میں پاکستان کے تعاون کا حصول ہے۔ٹلرسن کے دورۂ پاکستان کے دوران میں دونوں ملکوں کے درمیان وفود کی سطح پر یہ طے پایا تھا کہ فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنا چاہئے۔ وزیراعظم عباسی نے بھی اپنے بیان میں ٹلرسن کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھے گا۔ دونوں ملکوں میں پالیسی ایشوز پر اختلافات کے اظہار کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اختتام کو پہنچ رہے ہیں۔ آئندہ کیا ہوگا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان افغانستان‘ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں اپنی سابقہ پالیسی میں کس حد تک تبدیلی لاتا ہے اور اگر پاکستان امریکہ کو مطمئن کرنے میں ناکام رہتا ہے تو امریکہ ،صدر ٹرمپ کی حکمت عملی کے تحت پاکستان کیخلاف کیا اقدامات کرتاہے۔