"DRA" (space) message & send to 7575

پاکستان اور ایس سی او

ماہ رواں کے آخر میں وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی روس کے دورے پر روانہ ہوں گے۔ ان کے دورے کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا ہے۔ اس اجلاس میں تنظیم کے ساتوں ممبر ممالک کے سربراہانِ مملکت/حکومت شرکت کریں گے‘ جن میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ وزیر اعظم عباسی اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کریں گے یا نہیں تاہم ایس سی او کے اس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے آنے والے چینی وزیر اعظم لی چی کیانگ اور کانفرنس کی میزبانی کرنے والے روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات یقینی ہے۔ گزشتہ برس جون میں بھارت کے ہمراہ باقاعدہ رکن منتخب ہونے کے بعد پاکستان کی ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں یہ پہلی شرکت ہے۔ اس لحاظ سے تنظیم کا یہ سربراہی اجلاس اور اس میں پاکستان کی شرکت خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کو نہ صرف ایس سی او کے ایجنڈے میں شامل منصوبوں کی تشکیل اور تکمیل کے عمل میں شرکت کا موقعہ میسر آئے گا بلکہ تنظیم کے ڈھانچے اور اس کی سرگرمیوں کا مکمل حصہ بننے کے لئے ضروری اقدامات سے آگاہی بھی ہو جائے گی‘ کیونکہ پاکستان اور بھارت کو ایس سی او میں مکمل طور پر ضم کرنے کا عمل ابھی جاری ہے۔ اس کے لئے چند ٹیکنیکل رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہے۔ اس سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں جو آئیٹم شامل ہیں‘ ان میں ممبر ملکوں کے درمیان تجارت اور معاشی تعاون کا فروغ‘ عالمی سطح پر معاشی شعبے میں جدید رجحانات کا جائزہ اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر باہمی روابط کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔ تنظیم کی باقاعدہ رکنیت کے لئے ایران کی درخواست بھی ایجنڈے میںشامل ہے۔ ایران نے اس کے لئے 2005ء سے درخواست دے رکھی ہے‘ لیکن اس کے مبینہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام کے تحت اسے جن عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا تھا‘ ان کی وجہ سے ایران کو ایس سی او کا باقاعدہ مستقل رکن نہیں بنایا جا سکا۔ لیکن 2015ء میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ اور پانچ دیگر مغربی ممالک کے درمیان‘ جن میں جرمنی بھی شامل ہے‘ سمجھوتے کے بعد بیشتر اقتصادی پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔ اس لئے اب ایس سی او میں باقاعدہ رکن کی حیثیت سے ایران کی شمولیت کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ جس طرح پاکستان اور بھارت کی باقاعدہ رکنیت ایس سی او کی وسعت اور ترقی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے‘ ایران کی شمولیت بھی تنظیم کے لئے ایک تاریخی موقعہ ہو گا کیونکہ پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد ایس سی او کی سرحدیں بحر ہند اور خلیج بنگال سے جا ملی ہیں۔ اور ایران کی رکنیت سے ایس سی او کے دائرہ کار میں خلیج فارس اور بحیرہ عرب کے خطے بھی شامل ہو جائیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے ایس سی او میں داخل ہونے کے بعد وسطی اور جنوبی ایشیا میں قریبی راطہ قائم ہو گیا ہے۔ ایران کی شمولیت کے بعد وسطی اور مغربی ایشیا کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ علاقائی تعاون کی اس ابھرتی ہوئی سکیم میں پاکستان کا کردار خسوصی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی وجہ اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ ایک طرف پاکستان کو وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک پل کی حیثیت حاصل ہے اور دوسری طرف خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان وسطی ایشیا میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ وسطی ایشیا کی طرح مغربی ایشیا بھی قدرتی وسائل یعنی گیس اورتیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ جنوبی ایشیا ‘ جہاں اقتصادی ترقی کا عمل تیز ہے‘ مگر توانائی کی کمی ہے‘ کے لئے ان دونوں خطوں کے ساتھ ایس سی او کے ذریعے روابط کا قیام ان تینوں خطوں کے عوام کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایس سی او ان علاقائی تنظیموں میں سے ایک ہے‘ جنہوں نے گزشتہ 16 برس میں اپنے اہداف کے حصول میں اور اپنی سرگرمیوں کو وسعت دینے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس بنا پر ایس سی او کو عالمی سطح پر بڑی پذیرائی ملی ہے۔ جن شعبوں میں ایس سی او نے نمایاں ترقی کی ہے‘ ان میں علاقائی تعاون میں مدد گار ثابت ہونے والے ٹرانسپورٹ اور ذرائع آمدورفت میں ترقی ‘ توانائی کے میدان میں مختلف منصوبوں کی تکمیل اور عوامی سطح پر روابط کو فروغ دینا شامل ہے۔ ایس سی او کے فریم ورک میں وسطی ایشیا میں سرمایہ کاری میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں اس خطے کے ممالک میں ترقی کا عمل تیز ہو گیا ہے‘ جس کی وجہ سے قومی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے‘ لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ثقافتی سطح پر لوگوں کے آپس میں میل جول سے امن اور دوستی کی حامی قوتوں کو تقویت ملی ہے۔ ایک دہائی قبل وسطی ایشیا میں داخلی سلامتی کی صورتحال بہت مخدوش تھی‘ لیکن ایس سی او کے تحت مختلف ترقیاتی سرگرمیاں کے آغاز کی وجہ سے سکیورٹی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ ایس سی او کا دائرہ جنوبی اور مغربی ایشیا کے خطوں تک وسیع ہونے کے بعد ان خطوں کے ممالک اور عوام بھی ایک ایسے ماحول میں زندگیاں بسر کرنے کے قابل ہو جائیں گے‘ جو امن‘ تعاون‘ ترقی اور خیرسگالی پر مبنی ہو گا۔ پاکستان کیلئے ایس سی او کا یہ سربراہی اجلاس اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہو گا کہ اس کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جو خطرات منڈلا رہے ہیں ان کی وجہ سے یہ خطہ کسی بڑے تصادم سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس تصادم سے مغربی ایشیا کے خطے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مثلاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد افغانستان میں جنگ تیز ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر پاکستان کو ہی نہیں بلکہ ایس سی او کے رکن ممالک کو بھی تشویش لاحق ہونی چاہئے۔ روس اور چین اس ممکنہ خطرے پر پہلے ہی اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں‘ جس میں انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہے‘ جن کی وجہ سے افغانستان کی جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔ دونوں ممالک نے امریکہ کی طرف سے پاکستان پر تنقید اور اس پر دبائو ڈالنے کے امریکی اقدامات کی مخالفت کی اور اس کی بجائے پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیر اعظم عباسی اس کانفرنس کے موقعہ پر شرکا کو اس اہم مسئلہ پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کریں گے۔ اس طرح ایس سی او کا یہ سربراہی اجلاس اور اس میں وزیر اعظم عباسی کی شرکت ‘ پاکستان کیلئے علاقائی سلامتی کے امور پر سفارت کاری کا ایک اہم موقعہ ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم عباسی اور بھارتی وزیر اعظم مودی کے درمیان دو طرفہ تنازعات پر بات چیت کی کوئی گنجائش نہں تاہم دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کا ایک ساتھ ایک مقام پر ہونا ایک ایسا موقعہ ہے‘ جس سے ان کے درمیان مفاہمت اور خیرسگالی کو فروغ دینے کیلئے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ایسی صورتحال میں جبکہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت کا عمل ایک عرصے سے معطل ہے اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار فائرنگ اور گولی باری کی وجہ سے سخت کشیدگی پائی جاتی ہے‘ ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں دونوں رہنمائوں کے درمیان براہ راست نہ سہی مگر بالواسطہ طور پر امن اور مفاہمت کیلئے ضروری اقدام کی ترغیب مل سکتی ہے‘ کیونکہ ایس سی او کے تمام رکن ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک اپنے تنازعات کو پُرامن طریقے سے اور باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ روس اور چین تو اس مقصد کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کرچکے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس کا فوکس اگرچہ ایجنڈے میں شامل آئٹمز ہو گا اور دیگر رکن ممالک سمیت پاکستان کی توجہ بھی انہی امور پر مرکوز ہو گی تاہم علاقائی سلامتی اور امن کو لاحق خطرات سے تنظیم اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکتی۔ اس لئے وزیر اعظم عباسی کی اس میں شرکت پاکستان کیلئے علاقائی امن سے متعلقہ مسائل خصوصاً افغانستان کے بارے میں پاکستان کے موقف سے اس تنظیم کے ارکان کو آگاہ کرنے کا ایک اہم اور مفید موقعہ ثابت ہو گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں