بھارت نے ایک دفعہ پھر اُن لوگوں کو مایوس کیا ہے جو جنوبی ایشیاء خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی میں کمی اور باہمی تنازعات کے پرامن حل کے لیے دونوں ملکوں میں جلد مذاکرات کے خواہش مند ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے اپنے ایک حالیہ بیان میں پاکستان کے ساتھ اس وقت کسی قسم کے مذاکرات سے صاف انکار کر دیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی حکومت کے اس موقف سے نئی دہلی میں مقیم پاکستان ہائی کمشنر سہیل محمود کو اس وقت مطلع کیا تھا جب انہوں نے حال ہی میں اول الذکر سے نئی دہلی میں رسمی ملاقات کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی ہائی کمشنر نے اپنی رپورٹ میں پاکستانی وزارت خارجہ کو بھارتی وزیر خارجہ سے اپنی ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کر دیا ہے۔ پاکستان کے فارن آفس نے بھارتی حکومت کے اس موقف پر افسوس کا اظہار کیا ہے کیونکہ سشما جی سے پاکستانی ہائی کمشنر کی ملاقات اگرچہ رسمی تھی اور وہ نئی دہلی میں تعیناتی کے بعد پہلی مرتبہ کرٹسی کال کے طور پر بھارتی حکام سے ملاقات کر رہے تھے۔ تاہم انہوں نے پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی ہدایت پر بھارتی حکام سے دونوں ملکوں کے درمیان امن بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے بات چیت کی تھی۔ پاکستان کے ہائی کمشنر کو بھارتی وزیر خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ ان کا ملک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تو پاکستان کے ساتھ معاملات جاری رکھے گا لیکن سیاسی تنازعات کے لیے بات چیت کا کوئی امکان نہیں کیونکہ بھارتی وزیر خارجہ کے بقول اس کے لیے ابھی فضاسازگار نہیں۔ جب بھارتی حکام اس قسم کی ڈپلومیٹک زبان استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بھارت اپنی شرائط پر پاکستان سے بات چیت دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے اور ان شرائط میں اولین حیثیت پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی دخل اندازی ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ بات چیت سے صاف انکار اس لیے بھی افسوسناک اور مایوس کن ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران میں دونوں ملکوں کی طرف سے خیرسگالی کے چند ایسے اقدامات کئے گئے تھے جن سے سرحدوں پر امن‘ کشیدگی میں کمی اور مذاکرات کی احیا کی امیدیں پیدا ہو گئی تھیں۔ ان اقدامات میں دیوالی کے موقع پر بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کیلئے میڈیکل بنیادوں پر ویزوں کے اجرا میں نرمی کا اعلان شامل تھا۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کی جیلوں سے ایک دوسرے کے قیدی رہا کرنے کے اقدامات بھی خوش آئند تھے۔ اس کے علاوہ بھارتی میڈیا میں بھی کچھ امن پسند حلقوں کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی اور مذاکرات کے جلد آغاز کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ ان شواہد کی روشنی میں امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ اسلام آباد اور نئی دہلی آہستہ آہستہ باہمی مذاکرات کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے بیان کے ذریعے ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
پاکستان کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے اُن حلقوں میں بھی بھارت کے اس منفی موقف پر افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا جائے گا جو جنوبی ایشیا کے خطے میں خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان امن‘ خیرسگالی اور تعاون کے خواہشمند ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی اس خواہش بلکہ خطے کے امن اور استحکام کے بارے میں تشویش کا بڑا سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی ہے۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری سے دونوں اطراف میں جو جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے اس سے اس کشیدگی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ دنیا کو ڈر ہے کہ یہ کشیدگی بڑھتے بڑھتے کسی بڑے تصادم کی صورت نہ اختیار کر جائے اور چونکہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اس لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی قسم کا تصادم نہ صرف ان دونوں ملکوں کے لیے بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی تنازعات کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ انہیں صرف مذاکرات کے ذریعے اور پرامن طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ مگر ماضی کے تجربات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ مذاکرات غیر مشروط ہونے چاہئیں۔ بھارت کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان پر دبائو ڈال کر اسے مشروط مذاکرات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ 1990ء کی دہائی میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ایک عرصہ تک محض اس لیے بند رہا کیونکہ دونوں طرف سے مذاکرات کے لیے شرائط عائد کی جا رہی تھیں۔ لیکن نوازشریف کی دوسری حکومت (1997-1999) کے دوران جب دونوں ملک اپنی اپنی شرائط واپس لینے پر آمادہ ہوئے تو دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا جو فروری 1999ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد پر منتج ہوا۔ اسی طرح بھارت نے 2001-2002ء کے بحران کے دوران بھی دیکھ لیا کہ پاکستان پر کسی قسم کا دبائو کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ اس وقت بھارت نے کیل کانٹے سے لیس لاکھوں بھارتی فوجی پاکستان کی سرحد پر جمع کر دیئے تھے۔ لیکن پاکستان کو مرعوب نہ کیا جا سکا اور بالآخر بھارت کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں۔ اس کے نتیجے میں 2004ء میں دوطرفہ بنیادوں پر دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔اب مذاکرات کا سلسلہ اگرچہ گزشتہ دو ڈھائی برس سے معطل ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ مذاکرات بغیر کسی پیشگی شرائط کے شروع ہوئے تھے اور اب بھی شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے غیر مشروط ہونا ضروری ہے۔ معلوم نہیں بھارتی حکومت اس حقیقت اور ماضی کے تجربات سے حاصل کردہ اس اہم سبق کو کیوں نظرانداز کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی حمایت کی ہے پاکستان کا یہ موقف نہ صرف جنوبی ایشیا میں معروضی حالات کے مطابق ہے بلکہ بین الاقوامی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں یعنی چین‘ روس اور امریکہ کی خواہش کا آئینہ داربھی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ چند ماہ پیشتر چین کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تنازعات بشمول کشمیر کو حل کرانے میں مدد کی پیشکش کی گئی تھی۔ پاکستان نے اس پیشکش کا خیرمقدم کیا تھا لیکن بھارت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح حال ہی میں پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بھارت پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے دبائو ڈالا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری آہستہ آہستہ اس بات کی قائل ہوتی جا رہی ہے کہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی‘ عدم استحکام اور سلامتی کی مخدوش صورتحال کا بڑا سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک عرصہ سے چلے آنے والے باہمی تنازعات ہیں ۔جب تک ان کا تسلی بخش اور دیرپا حل تلاش نہیں کر لیا جاتا خطے میں امن کا خواب ادھورا رہے گا۔لیکن بھارت بدستور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور ایسے اقدام کر رہا ہے جن سے دنیا کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہو جائے۔ مثلاً مودی حکومت نے حال ہی میں کشمیر میں متحارب گروپوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنے کے لیے انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈی جی شرما کو سری نگر بھیجا ہے۔ لیکن خود بھارتی حلقے مسٹر شرما کی تقرری کو ایک بے سود کوشش قرار دے چکے ہیں کیونکہ امن بات چیت کے لیے ایک ریٹائرڈ انٹیلی جنس افسر کی تعیناتی بالکل غیر مناسب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے حریت پسند حلقوں نے مسٹر شرما کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
جلد یا بدیر بھارت کو کشمیر سمیت تمام دوطرفہ تنازعات کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑے گا۔ اس کے بغیر اور کوئی چارہ کار نہیں کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم مذاکرات اور لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کیلئے پیچیدگیوں کا باعث بن رہی ہے۔ امن اور تعاون کی فضا میں جنوبی ایشیا کے عوام جن فوائد اور سہولتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں وہ پاکستان اور بھارت کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے ناپید ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام بھی پاک بھارت تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام بنیادی تنازعات خصوصاً کشمیر اطمینان بخش طریقے سے حل ہو جائیں تو افغانستان میں امن کے قیام کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ چونکہ عالمی رائے عامہ ان حقیقتوں سے آگاہ ہوتی جا رہی ہے اس لیے پاکستان اور بھارت دونوں پر دوطرفہ مذاکرات کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔