"DRA" (space) message & send to 7575

جنرل (ر) پرویز مشرف کا تازہ بیان

سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو اگرچہ عدالت میں ملک اور آئین سے سنگین غداری کے الزام کا سامنا ہے‘ تاہم وہ دوبئی میں گزشتہ کئی ماہ سے مقیم ہیں۔ موصوف سپریم کورٹ کی اجازت سے بیماری کی بنیاد پر بیرون ملک گئے تھے اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ علاج کے بعد وطن واپس آ کر اپنے خلاف تمام مقدمات کا سامنا کریں گے‘ لیکن اپنے وعدے پر عمل کرنے کے بجائے وہ بدستور دوبئی میں مقیم ہیں، اور جہاں تک ان کی بیماری‘ جس کا بہانہ بنا کر انہوں نے ملک سے راہ فرار اختیار کی تھی‘ کا حال ہے تو وہ نہ صرف اپنی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کے معاملات کو پوری طرح چلا رہے ہیں‘ بلکہ ملکی سیاست پر بھی بڑھ چڑھ کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں میڈیا میں ان کے حوالے سے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال‘ آئندہ انتخابات اور ملک کے آئینی اور قانونی ڈھانچے کے متعلق ایک بیان جاری ہوا۔ پاکستان کے سابق فوجی آمر کا یہ بیان ان کی ایک تقریر پر مبنی ہے‘ جو انہوں نے لندن میں اپنے پارٹی ورکرز اور چند دیگر افراد پر مشتمل حاضرین سے مخاطب ہو کر کی تھی۔ جنرل صاحب نے پاکستان کی سیاست‘ سیاسی پارٹیوں اور سیاسی نظام کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا‘ وہ نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی حیران کن ہیں؛ تاہم جس وضاحت کے ساتھ اور جس موقعہ پر انہوں نے پاکستان کے جمہوری نظام پر اظہار خیال کیا ہے انہیں ہلکے انداز میں نہیں لینا چاہیے‘ بلکہ پاکستان کے تمام جمہوری حلقوں اور خاص طور پر عوامی حاکمیت پر یقین رکھنے والی قوتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ سابق صدر نے تجویز پیش کی ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کو ہٹا کر ایک عبوری حکومت قائم کی جائے‘ جو سیاستدانوں کے بجائے ٹینکوکریٹس پر مشتمل ہو‘ اور اس عبوری حکومت کو چند سال تک برسر اقتدار رہنے دینا چاہیے۔ اس دوران میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت پر مبنی موجودہ نظام کی جگہ نیا نظام قائم کیا جائے۔ یہ نیا نظام کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں جنرل صاحب نے کوئی واضح خاکہ پیش نہیں کیا؛ تاہم انہوں نے نئے نظام کو چیکس اور بیلنسز کی بنیاد پر قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ یہ چیکس اور بیلنسز کیا ہیں؟ اگر ہم جنرل مشرف کے سابقہ بیانات اور خصوصاً اُن کے اپنے دور حکومت میں کئے گئے اقدامات پر پیش کی گئی تجاویز کا جائزہ لیں تو ان کا مفہوم واضح ہو جائے گا۔ اپنے دور اقتدار میں جنرل صاحب اکثر یونٹی آف کمانڈ (Unity of Command) پر اصرار کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اختیارات کا سرچشمہ ہیڈ آف سٹیٹ ہونا چاہیے‘ اور باقی تمام ادارے‘ جن میں پارلیمنٹ بھی شامل ہے‘ اس کے ماتحت ہوں۔ اپنے دور اقتدار میں جنرل مشرف نے اپنی اس خواہش کو یوں عملی جامہ پہنایا کہ انہوں نے ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پہلے تین برسوں کے لیے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے آمرانہ اختیارات‘ جن میں آئین میں ترمیم کا حق بھی شامل تھا‘ کے ساتھ حکومت کی۔ تین سال کی مدت ختم ہونے کے بعد اور آئین کی بحالی سے پہلے جنرل مشرف نے 2002ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والی اسمبلی سے ایک لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) منظور کروا لیا‘ جس کی سب سے بڑی خصوصیت سترہویں آئینی ترمیم تھی۔ اس ترمیم کے ذریعے صدر مملکت کے اس اختیار کو بحال کر دیا گیا‘ جو آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت جنرل ضیاء کو حاصل تھا‘ اور جس کو استعمال کر کے صدر اپنی صوابدید پر اسمبلیوں اور حکومت کو برخاست کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ جنرل ضیاء کی تقلید کرتے ہوئے جنرل مشرف نے پارلیمنٹ کے مزید اہم اختیارات‘ جن میں وزیر اعظم کے پاس حکومت اور مملکت کے بعض اعلیٰ حکام یعنی تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تقرری شامل تھی‘ بھی پارلیمنٹ سے منتقل کر کے صدر مملکت کے ہاتھ میں دے دیئے۔ آئین میں ان ترامیم کی وجہ سے پاکستان میں عملی طور پر صدارتی نظام نافذ ہو چکا تھا‘ اور جنرل مشرف نے 2008ء میں اسمبلی منتخب ہونے تک اپنے اختیارات کو جس طرح استعمال کیا‘ وہ ایک صدارتی نظام میں ہی ممکن تھا۔ جنرل مشرف ان دنوں میانمار (برما) کے سیاسی نظام سے بہت متاثر تھے‘ اور پاکستان میں اس کی طرز پر ایک نیا سیاسی نظام نافذ کرنے کا بھی جائزہ لے رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے کچھ ''ماہرین‘‘ کو برما کے سیاسی نظام‘ جس میں فوج کو بالا دست پوزیشن حاصل تھی‘ کا مطالعہ کرنے اور اُسے پاکستان میں رائج کرنے کا جائزہ لینے کے لئے میانمار بھی بھیجا گیا تھا۔ جنرل مشرف سیاست میں فوج کے مستقل کردار کے حامی تھے‘ اور اس کے لیے وہ آئینی گارنٹی چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پارلیمنٹ سے بالا نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل کی تجویز لیگل فریم ورک آرڈر میں شامل کی تھی۔ جنرل مشرف اسے ایک آئینی ادارہ بنانے پر مصر تھے اور اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر 2002ء کے انتخابات میں منتخب اسمبلی نے ان کی اس تجویز کو تسلیم نہ کیا تو وہ اسمبلی کو تحلیل کر دیں گے‘ لیکن اسمبلی نے سترہویں آئینی ترمیم اور لیگل فریم آرڈر کے تحت دیگر آئینی تبدیلیوں کی منظوری دے دی‘ مگر نیشنل سکیورٹی کونسل کی تجویز کو قبول نہ کیا۔ اس کے بجائے پارلیمنٹ ایک نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے قیام پر راضی ہوئی‘ جسے آئین کا حصہ بنانے کی بجائے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت وزیر اعظم کی قیادت میں تشکیل دیا گیا۔ اسی دوران ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی اور وہ کافی عرصہ تک سیاسی اور عملی حلقوں میں گردش کرتی رہی کہ پاکستان کا سیاسی نظام ایسا ہونا چاہیے جس میں چیف آف دی آرمی سٹاف فوج کے ساتھ ساتھ سربراہ مملکت بھی ہو؛ البتہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کا نمائندہ ہو سکتا ہے؛ تاہم 1956ء کے آئین کی طرح اسے نامزد کرنے کا اختیار صدر مملکت کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ ان تجاویز کے حق میں جنرل مشرف کی دلیل یہ تھی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کے قیام اور بار بار کے مارشل لاء کے نفاذ سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فوج کو آئینی طور پر سیاست میں ایک اہم اور مستقل کردار عطا کر دیا جائے۔ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی پوری پوری کوشش کی لیکن انہیں سترہویں آئینی ترمیم سے آگے کامیابی حاصل نہیں ہوئی‘ اس لیے کہ عوام اور سیاسی پارٹیوں کی پاکستان میں ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریت سے وابستگی اس قدر مضبوط ہے کہ جنرل مشرف کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘ لیکن جنرل مشرف کے عزائم میں تبدیلی نہیں آئی‘ اور ایک دفعہ پھر انہوں نے 1973ء کے آئین کے تحت پارلیمانی جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کر ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی تجویز پیش کی ہے جو عملی طور پر صدارتی ہو اور وفاقی ریاست کی جگہ وحدانی ریاست وجود میں آئے گی۔ اپنی تجاویز کے حق میں انہوں نے جو تجویز پیش کی ہے وہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر 2018ء کے انتخابات وقت پر ہوئے تو پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی کامیابی یقینی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ عبوری حکومت کو کسی طور پر بھی آئندہ انتخابات وقت پر منعقد نہیں ہونا دینا چاہیے‘ اور اس کے بجائے موجودہ سیاسی نظام اور ریاستی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں بروئے کار لانا چاہئیں۔ لیکن جنرل مشرف صاحب کو یہ احساس نہیں کہ ان کی تجاویز کو ایک خاص مگر محدود حلقے میں پذیرائی تو حاصل ہو سکتی ہے لیکن عوام انہیں ایک دفعہ پھر مسترد کر دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں