اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مدد سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز‘ خصوصاً فوج اور پولیس نے مربوط کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ملک کے قبائلی علاقوں میں قائم دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے۔ ان کی منصوبہ بندی اور بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کو بڑی حد تک کمزور کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود گزشتہ چند ماہ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ اس کی تازہ مثال پشاور میں ایگری کلچرل ٹریننگ ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہے۔ اس بزدلانہ کارروائی کا ایک انتہائی قابل مذمت پہلو یہ ہے کہ اس کے لئے دہشت گردوں نے عید میلادالنبیؐ کے مبارک دن کا انتخاب کیا۔ دوسرا یہ کہ اس میں معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا۔ تیسرا؛ اس کے لئے ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا‘ جب پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ سرحدوں پر نئے خطرات منڈلا رہے ہیں اور اندرونِ ملک دھرنوں کی سیاست اور سیاسی قوتوں کی آپس کی رقابت نے غیر یقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ تاہم پولیس اور فوج نے جس مستعدی اور مربوط طریقے سے بروقت کارروائی کرکے باقی طلبا کی جان بچائی ہے اور پیشتر اس کے کہ دہشت گرد اپنی تمام تیاریوں اور ساز و سامان کو بروئے کار لاتے ہوئے مزید جانی اور مالی نقصان پہنچاتے‘ تمام دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ صوبہ پختونخوا میں دہشت گردی کی اس کارروائی سے صرف ایک ہفتہ پہلے کوئٹہ میں سریاب روڈ پر ایف سی کی گاڑی پر ایک خود کش حملے میں پانچ افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ اور اس سے ایک روز قبل یعنی 24 نومبر کو خیبر پختونخوا میں ہی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اشرف نور بھی ایک حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ کوئٹہ اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس پر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی جبکہ پشاور میں ایگری کلچرل ڈائریکٹوریٹ پر حملے کا دعویٰ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے کیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے اس دعوے کو بنیاد بناتے ہوئے اور دیگر شواہد کے ساتھ‘ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ ماضی کے متعدد دہشت گردی کے حملوں کی طرح اس منصوبے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان کے ان علاقوں میں کی گئی‘ جو پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ واقع ہیں اور جہاں اس کالعدم تنظیم نے اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چونکہ افغانستان کے ڈی جی ایم او ان دنوں پاکستان میں ہیں‘ اس لئے ان سے اس مسئلے پر بات کی جائے گی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی طرف سے ایک عرصے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں‘ جن کو استعمال میں لا کر دہشت گرد پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اس دعوے میں کافی صداقت ہے کیونکہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں نے جو اڈے اور محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں‘ وہ تمام کی تمام تباہ کی جا چکی ہیں اور دہشت گرد گروپ اور تنظیمیں اپنے ساتھیوں اور ساز و سامان کے ساتھ سرحد کے اُس پار‘ افغانستان کے ایسے علاقوں میں منتقل ہو گئی ہیں‘ جہاں افغان حکومت کی عمل داری ناپید ہے۔ افغان سرزمین پر پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کا خود امریکی حکام نے بھی اعتراف کیا ہے۔ اس لئے پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے یہ بیان کہ پشاور میں ایگری کلچرل ڈائریکٹوریٹ پر حملہ کرنے والے دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے‘ حقائق کے عین مطابق ہے۔ لیکن یہاں دو اہم سوال پیدا ہوتے ہیں: اول‘ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے تو وہ راستے میں پولیس‘ ایف سی اور دیگر سکیورٹی فورسز کی طرف سے درجن بھر سے بھی زائد قائم چیک پوسٹوں سے بچ بچا کر کیسے اپنے ٹارگٹ پر پہنچ پائے؟ اور دوسرے‘ جیسا کہ میڈیا کی اطلاعات سے ظاہر ہے‘ دہشت گرد برقع پہن کر رکشہ میں سوار ہو کر جائے واردات پر پہنچے‘ تو انٹیلی جنس ادارے کہاں تھے؟ اگرچہ پولیس اور فوج نے موقع پر پہنچنے میں دیر نہیں لگائی اور دونوں کے درمیان جس طرح کی کوارڈی نیشن سے کام لیا گیا ہے‘ وہ قابل ستائش ہے‘ لیکن خفیہ ایجنسیوں سے کہیں نہ کہیں کوتاہی ہوئی ہے جس کی بنا پر دہشت گرد آسانی سے اپنے ٹارگٹ پر پہنچ گئے۔ اس موقع پر ایک دفعہ دہشت گردی کے خلاف صوبوں کی استعداد کار اور صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے‘ کیونکہ آئین کے مطابق لا اینڈ آرڈر صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ دہشت گردی نے صوبوں کی ذمہ داریوں میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے‘ لیکن صوبوں کے پاس اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ تو وسائل ہیں‘ نہ تربیت اور نہ ہی مہارت۔ اس بنا پہ فوج کو آگے آنا پڑتا ہے‘ لیکن فوج کی بنیادی ذمہ داری تو سرحدوں کی حفاظت ہے۔ 20 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ہیومن انٹیلی جنس کی بہت ضرورت ہے‘ اور اس کے لئے پولیس اور سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کا حجم اور استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ چند ماہ سے ملک کے اندر سیاسی غیر یقینی‘ محاذ آرائی اور دھرنوں کی بھرمار سے ملک میں افراتفری کا جو ماحول پیدا ہوا ہے دہشت گرد اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے پوری قوم پاناما لیکس کے بخار میں مبتلا چلی آ رہی ہے۔ اور ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بیماری کب پیچھا چھوڑے گی۔ حکومت اور ریاستی ادارے‘ جن کی تمام تر توجہ دہشت گردی کے عفریت کو ناپید کرنے پر مرکوز ہونی چاہئے، نیب‘ احتساب عدالتوں اور دھرنوں کی قیادت سے مذاکرات کے ساتھ معاملات طے کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ حقیقت تو سب پر ظاہر ہے کہ متحد ہوئے بغیر قوم دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکتی‘ لیکن گزشتہ ایک دو برسوں میں قومی اتحاد جس طرح پارہ پارہ ہوا ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی یقیناً متاثر ہوئی ہے۔ اس سے پہلے قومی سطح پر انسداد دہشت گردی پر یکسوئی نظر آتی تھی۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کامیابی پہ کامیابی حاصل کر رہی تھی‘ اور دہشت گرد ڈر کے مارے اپنے بلوں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے‘ لیکن اب جبکہ ملک میں افراتفری‘ لاقانونیت اور حکومت کی بے بسی ہر طرف نظر آتی ہے‘ دہشت گرد اپنے بلوں سے نکل کر پھر مستعد ہو گئے ہیں اور موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر عوام کی حفاظت کے لئے ڈیوٹی پر مامور پولیس والوں اور معصوم شہریوں کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اب یہ حقیقت نمایاں طور پر ثابت ہو رہی ہے کہ پاناما کیس کو جس طرح ایک خاص جہت میں چلایا گیا‘ نواز شریف کو جن کمزور بنیادوں پر نااہل قرار دے کر عہدے سے ہٹایا گیا اور نیب کے ذریعے حکمران جماعت کے اراکین کو پرانے مقدمات میں جس طرح طلب کیا جا رہا ہے‘ اس سے ملک کی معیشت ہی متاثر نہیں ہوئی بلکہ سیاسی عدم استحکام کی فضا بھی پیدا ہوئی ہے‘ اس کے نتیجے میں پاکستان نہ صرف خارجہ امور کے محاذ پر بعض اہم مسائل پر اصولی‘ مضبوط اور درست موقف اختیار کرنے کے قابل نہیں رہا‘ بلکہ اندرونی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جس توجہ‘ یکسوئی اور قومی عزم کی ضرورت ہے‘ وہ بھی نظر نہیں آتی۔