"DRA" (space) message & send to 7575

امریکی وزیر دفاع کا دورۂ پاکستان

امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ (وزیر دفاع) جیمز میٹس حال ہی میں پاکستان کے سرکاری دورے پر تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد‘ ان کا یہ پہلا دورۂ پاکستان تھا۔ اگست سے آج تک‘ امریکہ کی نئی انتظامیہ کے کئی اہم ارکان اور حکام پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان میں سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن‘ سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل اور امریکی صدر کے مشیر برائے جنوبی ایشیا لیزا کرٹس بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطح کے یہ رابطے اور مذاکرات اس لئے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ 21 اگست کو صدر ٹرمپ نے پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کی پشت پناہی کرنے اور انہیں افغانستان میں دہشت گردی کے حملے کرنے کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت کا الزام عائد کیا تھا۔ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں یہ بھی دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے‘ بقول ان کے افغان طالبان اورحقانی نیٹ ورک کی دہشت گردی کی حمایت سے ہاتھ نہ کھینچا تو امریکہ پاکستان کے خلاف سخت اقدام کرے گا‘ لیکن اپنی تقریر میں صدر ٹرمپ نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ان کی اوّلین ترجیح پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کے قیام اور مصالحت کے فروغ کے لئے کوشش کرنا ہے۔ اور اس کے لئے امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسلام آباد اور واشنگٹن میں جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں‘ ان سب کا مقصد پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں اختلافات کی خیلج کم کرکے‘ افغان مسئلے کے حل کے لئے ایک متفقہ اپروچ کا حصول تھا۔ جنرل جیمز میٹس کا گزشتہ دنوں کا دورہ پاکستان اور وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں بھی ان کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ جنرل جیمز میٹس بھی ان امریکی حکام میں شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان کے خلاف سخت بیانات دئیے تھے۔ اکتوبر میں‘ ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو ''اپنا رویہ تبدیل کرنے کا ایک موقع دیں گے‘‘ اور اگر پاکستان اپنے رویے میں تبدیلی میں ناکام رہا تو امریکہ پاکستان کے خلاف ہر وہ اقدام کرے گا‘ جو وہ کر سکتا ہے۔ ان کے دورے سے چند دن پہلے سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پامیو نے بھی ایک بیان میں دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے اپنی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم نہ کیا تو امریکی حکومت پاکستان کے خلاف ہر وہ اقدام کرے گی‘ جسے کرنے کی اس کے پاس صلاحیت موجود ہے۔ ان بیانات کی روشنی میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جنرل میٹس بھی صدر ٹرمپ اور پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی حکام کی طرح پاکستان کے لئے سخت پیغام لائیں گے لیکن پاکستانی اور امریکی حلقوں کی طرف سے جنرل میٹس کے دورے پر جو تبصرے کئے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے سخت رویے میں نرمی اختیار کی ہے۔ خود جنرل میٹس نے پاکستان پہنچنے سے قبل ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ دھمکیاں دینا اور دبائو ڈالنا ان کا سٹائل نہیں ہے بلکہ وہ پاکستان کے دورے کے دوران پاکستانی حکام سے ملاقات کرکے‘ دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ مفادات کے حامل امور تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ان کے حل کے لئے پاکستان اور امریکہ مل کر کوشش کریں۔ دورے کے اختتام پر دونوں جانب سے جو بیانات اور تبصرے جاری کئے گئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جانب کچھ پیش قدمی ہوئی ہے۔ مثلاً وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل میٹس نے جنرل باجوہ کے ساتھ ملاقات میں یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ افغانستان کے مسئلے کے متعلق پاکستان کے خدشات دور کرنے کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ اس کی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی جو محفوظ پناہ گاہیں تھیں‘ وہ ختم کر دی گئی ہیں تاہم اگر کچھ شرپسند عناصر پاکستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی کی شکل میں‘ پاکستان کی مہمان نوازی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں تو پاکستان ان کے خلاف اقدام کرنے کو تیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے باہمی خدشات کو دور کرنے کے لئے ''کچھ مخصوص اقدامات‘ مستقل بنیادوں پر‘‘ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اگرچہ جنرل میٹس کے دورے کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان بدگمانی اور اختلافات کی خلیج بدستور حائل ہے تاہم یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دونوں کے درمیان برف پگھلنی شروع ہو گئی ہے اور سخت اقدامات کی دھمکیوں اور پریشر ڈالنے کی باتوں کی جگہ کامن گرائونڈ اور باہمی خدشات دور کرنے کے پیرائے میں مکالمہ ہو رہا ہے۔ یہ پیش رفت محدود لیکن اہم ہے۔ کیونکہ پاکستان کے لئے امریکہ اور امریکہ کے لئے پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعاون پر مبنی تعلقات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان تعلقات سے دونوں ملکوں کے باہمی مفادات ہی نہیں‘ خطے کا امن بھی وابستہ ہے۔ اس لئے نہ امریکہ اور نہ پاکستان‘ ان تعلقات کو منقطع کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں امن اور جنگ بندی کے لئے بیک وقت کئی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان میں چین نمایاں کردار ادا کر رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین نے پاکستان اور چین کے اکنامک کوریڈور کے ساتھ ون بیلٹ‘ ون روڈ اور قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی کے لئے اور دنیا بھر میں تجارت اور معاشی تعاون کو فروغ دینے کے لئے سڑکوں‘ شاہراہوں اور آبی گزرگاہوں کا جو عالمگیر منصوبہ شروع کر رکھا ہے اس کی کامیابی کے لئے جنوبی ایشیا میں امن اشد ضروری ہے اور جب تک افغانستان کی جنگ جاری ہے‘ جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ افغانستان میں متحارب فریقین پر یہ حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اس جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اگرچہ ملک کا 40 فیصد حصہ کابل کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور وہ طالبان کے زیرِ کنٹرول ہے‘ لیکن طالبان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی شہر یا آبادی والے علاقے پر اپنے قبضے کو دیر تک برقرار رکھ سکیں۔ نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ وہ سرکاری یا امریکی کمانڈ میں نیٹو افواج کو میدان جنگ میں شکست دے سکیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی جانب سے افغانستان میں مزید امریکی افواج بھیجنے اور امریکہ کے فوجی دستوں کو افغان نیشنل آرمی کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف میدان جنگ میں شریک ہونے کی اجازت کے بعد‘ افغانستان میں جنگ کی آگ مزید بھڑکنے کا قوی امکان ہے۔ اس کے نتیجے میں افغان عوام کو مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتیں اس سے قبل کے برسوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھیں۔ اس لئے نہ صرف امریکہ بلکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں بھی یہ احساس تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ جتنی جلدی افغانستان کی جنگ اختتام پذیر ہو‘ اتنا ہی بہتر ہے۔ امید ہے کہ امریکہ وزیر دفاع کے دورے کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان جن اقدامات پر اتفاق ہوا ہے‘ ان پر عمل درآمد سے افغانستان میں جنگ بندی اور امن کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں