"DRA" (space) message & send to 7575

بیت المقدس کے بارے میں صدر ٹرمپ کا فیصلہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اقدام اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے منتقل کرنے کا حکم اگرچہ انتہائی خطرناک مضمرات کا حامل ہے‘ لیکن حیران کن اور غیر متوقع نہیں۔ اس لئے کہ 1948ء میں اسرائیل کی یہودی ریاست کے قیام سے لے کر اب تک امریکہ اس کی مکمل پشت پناہی کرتا چلا آیا ہے۔ خود صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں اس کا وعدہ کر چکے ہیں۔ اس طرح صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ دراصل امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسیوں کا تسلسل اور صدر ٹرمپ کی حکومت کی اسلام دشمنی کا ثبوت ہے‘ لیکن فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یہ کہا کہ ان سے پہلے امریکہ کے تمام صدور یہ قدم اٹھانا چاہتے تھے‘ مگر انہیں ہمت نہیں ہوئی‘ اور انہوں نے یہ معرکہ سرانجام دے دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس بیان کی روشنی میں تین باتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ سے پہلے کوئی امریکی حکومت یہ اقدام کیوں نہ کر سکی؟ کوئی دوسرا امریکی صدر ایسا قدم اٹھانے کی ہمت کیوں نہ کر سکا۔ اور اب ٹرمپ نے ایسا کیا ہے تو اس کے کیا محرکات ہیں اور تیسری بات یہ کہ اس اقدام سے مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سطح پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ لیکن ان سوالات کے جوابات سے پہلے اس مسئلے کے ماضی خصوصاً یروشلم کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینا مفید ہو گا۔ اس سے اس سارے معاملے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یروشلم کی حضرت دائود ؑ نے بنیاد رکھی تھی اور یہ شہر ان کی قدیم ریاست کا دارالحکومت تھا‘ لیکن یروشلم دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یعنی اسلام‘ عیسائیت اور یہودیت کے پیروکاروں کے لئے بھی برابر کا مقدس شہر ہے۔ اس لئے کہ اس میں یہودیوں کے علاوہ مسلمانوں اور مسیحیوں کی بھی متبرک یادگاریں موجود ہیں۔ اسے مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حیثیت حاصل تھی اور مسجد اقصیٰ‘ جہاں سے حضورِ اکرمؐ معراج پر تشریف لے گئے تھے‘ بھی بیت المقدس میں واقع ہے۔ یہی وجہ تھی کہ 1947ء میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک یہودی ریاست اور دوسری عربوں کے لئے قائم کرنے کے حق میں قرارداد منظور کی تو یروشلم کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دینے کی رائے پیش کی گئی‘ لیکن اس تجویز کو نہ عربوں نے اور نہ ہی یہودیوں نے تسلیم کیا۔ 15 مئی 1948ء کو جب اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی پہلی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہو گیا‘ جس میں عرب اور یہودی‘ دونوں فوجوں نے یروشلم پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ یہودی فوج شہر کے مغربی حصے پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی‘ مگر مشرقی حصہ بدستور اردن کی فوج کے پاس رہا‘ کیونکہ اردن کی فوج باقی عرب افواج سے بہتر طور پر تربیت یافتہ تھی اور اس نے یہودیوں کو آگے نہ بڑھنے دیا‘ لیکن یہودیوں کو مشرقی یروشلم کے ہاتھ سے نکل جانے کا بہت قلق تھا‘ کیونکہ یہودیوں کے تمام اہم مذہبی اور مقدس مقامات‘ جن میں انبیا کرام کی قبریں اور دیوارِ گریہ بھی شامل ہیں‘ یروشلم کے مشرقی حصے میں واقع تھے۔ اسرائیلیوں کی بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا جائے۔ بالآخر جون 1967ء یعنی عرب اسرائیل تیسری جنگ کے دوران میں یہ موقع ان کے ہاتھ آ گیا‘ جب انہوں نے صرف چھ دن میں شام‘ مصر اور اردن کی مشترکہ افواج کو شکست دے کر شمال میں سطح مرتفع گولان‘ جنوب میں صحرائے سینائی اور مشرق میں دریائے اردن کے مغربی کنارے اور یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل نے اسے اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کر دیا‘ لیکن دنیا نے اسرائیل کا یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ امریکہ‘ جو اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے‘ نے بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اپنا سفارت خانہ یہاں منتقل کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسے عرب مسلمان ملکوں کی طرف سے سخت ردعمل کا خطرہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ زوروں پر تھی اور امریکہ ویت نام کی جنگ میں بری طرح الجھا ہوا تھا۔ اگر اس وقت امریکہ اسرائیل نوازی میں حد سے بڑھ کر یروشلم کو اس کا دارالحکومت تسلیم کر لیتا تو نہ صرف مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس بلکہ پوری مسلم دنیا میں امریکی مفادات خطرے میں پڑ سکتے تھے اور جن مسلم ملکوں میں اس کے لئے خیر سگالی کے جو بچے کھچے جذبات تھے‘ وہ بھی ختم ہو جاتے۔ یہ وہ وجوہات تھیں‘ جن کی بنا پر ٹرمپ سے پہلے کے امریکی صدور نے اس انتہائی اشتعال انگیز اقدام سے گریز کیا۔ مگر ٹرمپ کی طرف سے کئے گئے اقدام کے پیچھے کون سے محرکات ہیں؟ یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ کانگریس میں اس کے خلاف مواخذے کی تحریک لائے جانے کے بڑھتے ہوئے امکانات اور خود ان کی اپنی پارٹی یعنی ری پبلکن پارٹی میں ان کے خلاف بغاوت کے آثار اس اقدام کا باعث بنے ہیں‘ کیونکہ موجودہ کانگریس میں اسرائیل نواز ارکان کی بھاری تعداد موجود ہے۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں اسرائیل کی حامی کانگریس نے جس طرح اسرائیلی وزیر اعظم کا اپنے مشترکہ اجلاس میں استقبال کیا تھا‘ وہ امریکی قانون ساز ادارے کی یہود نواز پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے کانگریس کو خوش کرنے اور اپنے خلاف مواخذے کی تحریک لانے سے منع کرنے کی لئے یہ فیصلہ کیا ہے‘ لیکن اس فیصلے میں ٹرمپ کی اپنی سوچ‘ تعصب اور اسرائیل کی حمایت کا بھی بڑا دخل ہے۔ ان کا یہ اقدام ایران دشمنی کا بھی آئینہ دار ہے‘ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اس وقت امریکہ ایران کو اپنے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ 
علاوہ ازیں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرکے اور وہاں بیٹھ کر وہ مشرق وسطیٰ کی زیادہ بہتر طریقے سے نگرانی کر سکے گا اور اس خطے میں اپنی پالیسیاں اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھا سکے گا۔ ٹرمپ نے اب یہ قدم اٹھایا اور ماضی کے امریکی صدور اب تک نہ اٹھا سکے تو اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں واقع ممالک اب اس قابل نہیں رہے کہ امریکہ یا اسرائیل کو مزاحمت پیش کرسکیں۔
جہاں تک اس اقدام کے نتائج کا تعلق ہے‘ تو اس ضمن میں اس بات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ 1967ء میں بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کے بعد ہی پوری اسلامی دنیا متحد ہو کر حرکت میں آ گئی تھی۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی بھی اس کے بعد ہی وجود میں آئی تھی۔ ٹرمپ کے فیصلے سے عالم اسلام میں غم و غصہ اور احتجاج کی ایک نئی لہر پیدا ہو گی‘ لیکن مسلم دنیا میں اس وقت جو تقسیم پائی جاتی ہے‘ اس کے پیش نظر عوامی اور سرکاری سطح پر احتجاج کا سلسلہ زور پکڑ سکتا ہے‘ مگر امریکہ کے خلاف کسی متحدہ اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی البتہ امریکہ کو سیاسی اور سفارتی سطح پر نہ صرف مخالفت بلکہ تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا‘ کیونکہ اس کے اپنے مغربی اور یورپی اتحادی بھی اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ اقدام مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور عرب اسرائیل تنازع کے حل کے امکانات پر کاری ضرب ہے۔ اس سے فلسطینی اور عرب بنیاد پرست تنظیموں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طاقت کے زعم میں اور امریکہ کی بھرپور حمایت کے بل بوتے پر اسرائیل اس وقت شاید اس مزاحمت کو خاطر میں نہ لائے‘ لیکن اسے آگے چل کر پہلے سے زیادہ بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں