امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کانگرس کو ایک رپورٹ ارسال کی ہے جس میں افغانستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف امریکی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نئے اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کا اعلان صدر ٹرمپ نے اس سال 21 اگست کو کیا تھا اور اس کا مقصد طالبان کو عسکری محاذ پر شکست دے کر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کرنا ہے؛ چونکہ اس رپورٹ میں پاکستان کا بھی بار بار ذکر آتا ہے اس لئے قومی سلامتی اور علاقائی امن کے حوالے سے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی حکمت عملی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون انتہائی ضروری ہے لیکن اس کے لئے لازمی ہے کہ اسلام آباد دہشت گردی خصوصاً افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کرے۔ اس کا غالباً مطلب یہ ہے کہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران امریکہ کی طرف سے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کی جو تجویز پیش کی گئی تھی‘ وہ پاکستان نے مسترد کر دی تھی اور امریکہ کو یہ بات ناگوار گزری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے انکار کے بعد امریکہ کے لئے اور کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ ان اختلافی امور پر یکطرفہ کارروائی کرے؛ تاہم جن شعبوں میں پاکستان اور امریکہ کے مفادات مشترک ہیں‘ وہاں تعاون جاری رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے مابین دو طرفہ تعلقات کا معاملہ ہے‘ ان میں رخنہ نہیں پڑے گا۔ محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن پاکستان کے لئے امریکہ کی فوجی اور اقتصادی امداد جاری رہے گی۔ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے تحت جن شعبوں مثلاً تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘ گھریلو صنعتیں‘ توانائی‘ لائیو سٹاک اور پانی کے ذخائر بہتر بنانے میں دونوں ملک اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔ اسی طرح امریکہ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا جو مقام دے رکھا ہے‘ اسے بھی ختم نہیں کیا جائے گا، نہ ہی اس بات کا کوئی امکان ہے کہ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دیدے۔ اس سے صاف نظر آتا ہے کہ متعدد اختلافات اور شکایات کے باوجود امریکہ پاکستان سے ناتا نہیں توڑنا چاہتا بلکہ پہلے سے موجود تعلقات کو مزید بہتر بنانا چاہتا ہے۔
امریکہ کے وزیر دفاع جیمز میٹس اور اس سے قبل وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دوروں کے دوران میں بھی دونوں جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف سخت گیر رویہ اختیار کیا گیا اور دو طرفہ سطح پر جو تعاون جاری ہے‘ اسے ختم کیا گیا تو پاکستان‘ جو پہلے ہی چین کے بہت قریب ہے‘ مکمل طور پر اس کی گود میں چلا جائے گا۔ امریکی پالیسی سازوں اور سٹرٹیجک تھنکرز کے نزدیک ایسی صورت میں امریکہ کے علاقائی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے میں جہاں چین کے اثر و رسوخ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بھی بڑے اہم مفادات موجود ہیں اور ان کے تحفظ کے لئے علاقائی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اہم ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے‘ جنہیں نہ صرف خیلج فارس بلکہ بحر ہند کی دفاعی حکمت عملی میں بھی ایک اہم مقام حاصل ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم کئے گئے اسلامی فوجی اتحاد کا ایک حصہ ہونے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان فاصلہ اور بھی کم ہو گیا ہے کیونکہ اس اتحاد کو امریکہ کی بھی پوری حمایت حاصل ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان نہ صرف سیاسی اور فوجی بلکہ ثقافتی اور تجارتی شعبوں میں اتنے دیرینہ اور گہرے تعلقات ہیں کہ شکوک و شبہات اور بدگمانی کے باوجود انہیں مکمل طور پر ختم کرنا نہ تو آسان ہے اور نہ ہی مناسب۔ لیکن اس رپورٹ میں امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے تحت جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے‘ کیا ان کے بعد پاکستان اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوئے بغیر رہ سکیں گے؟ مثلاً امریکہ کے فوجی اور سیاسی حلقوں کی رائے میں صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو صدر براک اوباما کی افغان پالیسی کو یکسر بدل دیا ہے۔ صدر اوباما نے 2015ء میں افغانستان میں امریکی افواج کی نہ صرف تعداد کو بہت زیادہ کم کر دیا تھا بلکہ امریکی فوجی دستے کے فرائض کو بھی صرف افغان افواج کی تربیت اور مشاورت تک محدود کر دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں نہ صرف مزید امریکی افواج بھیجنے کا اعلان کیا ہے بلکہ انہیں جنگ میں حصہ لینے اور طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیوں میں براہ راست حصہ لینے کا بھی اختیار دے دیا ہے۔
قبل ازیں صدر ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی کا مقصد افغان فوج کی استعداد کار میں اضافہ قرار دیا تھا‘ لیکن کانگرس کی ارسال کردہ رپورٹ میں صدر ٹرمپ نے افغانستان میں نئے عسکری اہداف کا اعلان کیا ہے۔ اب افغانستان میں امریکی افواج نہ صرف افغان افواج کو تربیت دیں گی بلکہ طالبان‘ داعش اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف براہ راست کارروائیوں میں شریک ہو کر ہر اس قوت کے خلاف آپریشنز کریں گی جو افغان فوج اور حکومت سے برسرپیکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اپنا پورا وزن افغان فوج اور حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ یہاں تک کہ رپورٹ میں امریکہ اور افغانستان پر مشتمل ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے قیام کا بھی ارادہ ظاہر کیا گیا ہے‘ جس کا مقصد صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرکے امن کا قیام ہے۔
امریکی دعوے کے مطابق اس وقت پاکستان اور افغانستان کی بین الاقوامی سرحد کے ارد گرد علاقوں میں 20 کے قریب دہشت گرد گروہ اور تنظیمیں سرگرم ہیں۔ ان میں پاکستانی طالبان کے علاوہ افغان طالبان‘ حقانی نیٹ ورک‘ القاعدہ (برصغیر پاک و ہند)‘ القاعدہ خراسانی اور ازبکستان کی اسلامی تحریک (آئی ایم یو) شامل ہیں۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ ان گروپوں اور تنظیموں کی وجہ سے نہ صرف افغانستان اور پاکستان کو خطرہ ہے‘ بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں ہے۔ لیکن پاکستان ان کے خلاف مؤثر کاروائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس لئے امریکہ نے خود ان کے خلاف اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس پالیسی کے تحت امریکہ افغان افواج کے ساتھ مل کر دشمن کے ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کے علاوہ دور مار توپوں سے بھی نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن خدشہ یہ ہے کہ ان کارروائیوں اور زمینی حملوں کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔ اور افغان سرحد کے ساتھ ساتھ واقع پاکستانی علاقے بھی ان کی زد میں آ سکتے ہیں۔ امریکہ نے اس امکان کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ امریکی سی آئی اے اور محکمہ دفاع کے متعلقہ حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ نئی افغان پالیسی کے تحت امریکہ افغان سرحد کے ساتھ واقع پاکستانی علاقوں میں مبینہ طور پر حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنا سکتا ہے۔ اگر امریکہ ایسا کرتا ہے تو اس سے پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ پاکستان کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو گی۔ امریکہ اور پاکستان‘ دونوں کے لئے لازم ہے کہ وہ کوشش کریں کہ اس کی نوبت نہ آئے۔