یکم جنوری کو اپنے ٹویٹ کے بعداب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ایک اور اقدام کیا ہے۔ 2001ء سے پاکستان کو امریکہ کی طرف سے فارن ملٹری امداد کے پروگرام اور کولیشن فنڈ کے تحت جو فوجی امداد مل رہی تھی‘ اسے روک دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نورٹ نے واشنگٹن میں ایک بریفنگ میں ملکی اور غیر ملکی نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس اقدام کا مقصد پاکستان کو افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے‘ خصوصاً حقانی نیٹ ورک کی امداد بند کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان لفظوں اور بیانات کی جنگ پہلے سے جاری تھی‘ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر افغانستان میں عدم تعاون اور طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی خفیہ اعانت کا الزام عاید کیا جا رہا تھا اور پاکستان کی طرف سے مسلسل ان الزامات کی تردید کی جا رہی تھی۔ صدر ٹرمپ نے پہلے تو دھمکیاں دیں اور اس کے بعد ان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا ہے۔ فوجی امداد کی بندش ان اقدامات کے سلسلے کی پہلی کڑی ہے‘ کیونکہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان نے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے اپنی روش نہ بدلی اور امریکہ سے برسر پیکار افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کی مبینہ امداد بند نہ کی تو امریکہ پاکستان کے خلاف مزید اقدامات کرے گا۔ ایک اور امریکی ترجمان نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں‘ اس لئے پاکستان کے خلاف امریکہ کی طرف سے مزید اقدامات کی توقع رکھنی چاہئے۔
ان حالات میں یہ سوال جائز طور پر پوچھا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا مستقبل کیا ہو گا؟ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ناگزیر طور پر ایک بریک کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ کیونکہ جس قسم کا تعاون امریکہ پاکستان سے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں چاہتا ہے‘ اسے پیش کرنا پاکستان کے بس میں نہیں۔ اسی لئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی یہ کہا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ یہی مؤقف حکومت سے باہر بیشتر سیاسی پارٹیوں اور رہنمائوں کا بھی ہے۔ ان کے خیال میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کی وجہ سے پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔ دونوں کے درمیان اعتماد کا پہلے ہی فقدان تھا‘ لیکن ٹرمپ کے بیانات اور اقدامات نے بچے کھچے اعتماد کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اس لئے اب یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات پہلے جیسی سطح پر کبھی نہیں آئیں گے‘ اگرچہ امریکہ میں سابق سفارت کاروں‘ دانشوروں اور ریٹائرڈ فوجی افسروں پر مشتمل ایک اہم حلقہ اب بھی پاکستان کی علاقائی معاملات میں اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ احتیاط کے ساتھ معاملات طے کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ ان میں سابق سیکرٹری دفاع لیون پنیٹا بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں خبردار کیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے امداد بند کرنے یا دبائو کے دیگر طریقوں کے استعمال سے پاکستان‘ چین اور روس کے مزید قریب ہو جائے گا‘ اور یہ صورت حال اس خطے میں امریکی مفاد کے خلاف جائے گی‘ کیونکہ روس اور چین‘ دونوں وسطی‘ جنوبی اور مغربی ایشیاء کے خطوں سے امریکہ کے اثر و نفوذ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے اور فوجی امداد کی معطلی کے باوجود‘ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ فوجی امداد کی بندش کا اعلان کرتے ہوئے‘ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کی ترجمان ہیتھر نورٹ نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ اب بھی پاکستان سے مذاکرات کی خواہاں ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان اپنا مؤثر کردار ادا کر سکے‘ لیکن اب تک پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے والی امریکی اور نیٹو افواج کو رسد پہنچانے میں جو مدد فراہم کی ہے‘ امریکہ کی طرف سے اسے نظر انداز کرنے سے پاکستان کے اعتماد کو دھچکا لگا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان علاقے میں القاعدہ کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں بھی پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی ان تمام خدمات کو پس پشت ڈال کر ٹرمپ انتظامیہ نے اسلام آباد کے لئے امریکہ کو مزید تعاون فراہم کرنے کے لئے کوئی Incentive نہیں چھوڑا۔ جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل کا تعلق ہے‘ آنے والے چند ہفتے بلکہ دن فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد معطل کرنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے خلاف مزید کیا اقدامات کرتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو حکومت کے ساتھ ساتھ سیاسی و عسکری اداروں اور تمام سیاسی پارٹیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنیادی قومی مفاد‘ سلامتی اور خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اس لئے اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان کے خلاف مزید اقدامات کر سکتے ہیں۔ یہ اقدامات کیا ہوں گے؟ ان کے بارے میں اب تک جو قیاس آرائیاں کی گئی ہیں ان کے مطابق امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا دائرہ وسیع کر سکتا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع‘ دونوں نے اس امکان کو تسلیم کیا ہے‘ اور ساتھ ہی یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ پاکستان ان کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کے خلاف دیگر امریکی اقدامات میں‘ بعض اہم شخصیتوں پر حقانی نیٹ ورک سے رابطوں کے الزام میں پابندیاں عاید کرنے کا فیصلہ اور عالمی مالیاتی اداروں مثلاً ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف‘ جن میں امریکہ کو خاصا اثر و رسوخ حاصل ہے‘ سے پاکستان کو قرضے فراہم کرنے سے روکنا‘ شامل ہو سکتے ہیں۔ موخر الذکر اقدام پاکستان کے لئے خصوصی طور پر پریشانی کا باعث ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کے لئے اپنی مالی مشکلات کے حوالے سے آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو دو باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔ اول: ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف جن اقدامات کا اعلان کیا ہے‘ وہ کسی اچانک خیال یا ٹرمپ کی متلون مزاجی کا نتیجہ نہیں ہیں‘ بلکہ امریکہ کو پاکستان سے شکائتیں ایک عرصے سے چلی آ رہی ہیں اور امریکہ کی دونوں پارٹیوں‘ یعنی ری پبلکن اور ڈیموکریٹ‘ اس معاملے میں ایک ہی پیج پر ہیں۔ دوئم: 2011ء کے مقابلے میں 2017ء میں افغانستان میں جنگ کے حوالے سے امریکہ کا انحصار پاکستان پر بہت کم رہ گیا ہے‘ کیونکہ 2011ء میں افغانستان امریکی اور نیٹو افواج کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی‘ جو اب گھٹ کر محض 11 ہزار رہ گئی ہے۔ اس لئے پاکستان کے راستے افغانستان میں لڑنے والی امریکی افواج کو رسد کی فراہمی میں رکاوٹ امریکہ کے لئے پہلے جیسا بڑا مسئلہ نہیں ہو گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف حالیہ اقدامات سے دونوں ملکوں کے تعلقات کے افق پر سیاہ اور گہرے بادل چھا گئے ہیں‘ لیکن روشنی کی اب بھی ایک کرن باقی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان اور امریکہ‘ دونوں تاحال بات چیت کا دروازہ کھلا رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے یہ اقدامات پاکستان کو سزا دینے کے لئے نہیں بلکہ سبق سکھانے کے لئے کئے ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی برادری‘ جس میں چین‘ روس‘ جاپان اور یورپی ممالک بھی شامل ہیں‘ اس بات کی خواہش مند ہے کہ محاذ آرائی کی بجائے پاکستان اور امریکہ‘ دونوں مل کر افغانستان میں امن اور استحکام کا مقصد حاصل کریں۔