"DRA" (space) message & send to 7575

لودھراں کا معرکہ

ضمنی الیکشن کے بارے میں دو باتیں مسلمہ طور پر مشہور ہیں۔ پہلی یہ کہ عام انتخابات کی طرح ان میں رائے دہندگان زور و شور سے حصہ نہیں لیتے‘اس لئے ٹرن آئوٹ کم رہتا ہے۔ دوسری یہ کہ وقت کی حکمران پارٹی کے امیدوار کی جیت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اور اگر اسمبلی کی مدت میں محض چند ماہ رہتے ہوں‘ آئندہ انتخابات سر پر ہوں تو عوام کی دلچسپی میں کمی اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے‘ لیکن حال ہی میں این اے 154‘ لودھراں کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی ہے۔ اس انتخابی معرکے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار یعنی محمد اقبال شاہ کی جیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اس لئے کہ 2002 کے انتخابات سے اب تک یہ حلقہ کبھی بھی نون لیگ کے قبضے میں نہیں رہا تھا۔ 2002 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار نواب امان اللہ خان کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ق سے تھا۔ 2008 میں اس حلقے سے محمد صدیق خان بلوچ کامیاب ہوئے‘ اور ان کا تعلق بھی پاکستان مسلم لیگ ق سے تھا۔ 2013 کے انتخابات میں بھی صدیق بلوچ کامیاب ہوئے مگر اس دفعہ انہوں نے اس انتخاب میں آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا۔ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین تھے‘ جنہوں نے 72089 ووٹ حاصل کئے۔ صدیق بلوچ کو 81993 ووٹ ملے۔ جہانگیر ترین کی پٹیشن پر الیکشن کمیشن نے صدیق بلوچ کو نااہل قرار دے دیا اور یوں یہ نشست خالی ہو گئی۔ اس پر دسمبر 2015 میں دوبارہ انتخاب ہوا‘ جس میں صدیق بلوچ‘ جسے اب مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل تھی اور جہانگیر ترین ایک دفعہ پھر آمنے سامنے تھے‘ لیکن اس بار جہانگیر ترین نے 138719 ووٹ لے کر صدیق بلوچ کو ہرا دیا۔ صدیق بلوچ نے 99933 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح جہانگیر ترین کو اپنے مدمقابل پر تقریباً 40 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔ جہانگیر ترین کو نااہل قرار دئیے جانے کے بعد 12 فروری 2018 کو اس حلقے میں ایک دفعہ پھر انتخاب ہوا۔ جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر کی حیثیت سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار اقبال شاہ کا مقابلہ کیا اور 26 ہزار ووٹوں سے شکست کھائی۔
یہ انتخابی نتیجہ انتہائی غیر متوقع اور حیران کن ہے۔ خود پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر‘ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری کا کہنا ہے کہ یہ نتیجہ ان کی پارٹی کی توقعات کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اس بڑے اپ سیٹ کی تحقیقات کیلئے خود جہانگیر ترین کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ یہ کمیٹی انتخابی معرکے میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی غیر متوقع شکست کے اسباب تلاش کرے گی۔ میڈیا بھی اس ضمنی انتخاب کے حیران کن نتیجے کے اسباب اور ممکنہ مضمرات پر بحث جاری ہے۔ اس بحث میں اس سوال کا خصوصی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا اس ضمنی انتخاب کا آئندہ ہونے والے (اگر ہوئے تو) پارلیمانی انتخابات پر اثر پڑے گا۔ اگر لودھراں این اے 154 کے 12 فروری والے الیکشن کی جگہ کوئی اور ضمنی انتخاب ہوتا‘ تو اس سوال کا جواب بآسانی ''نہیں‘‘ میں دیا جا سکتا تھا‘ کیونکہ عام انتخابات کے مقابلے میں ضمنی انتخابات کے محرکات مختلف ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی پارٹی عام انتخابات میں بھی کامیاب ہو‘ لیکن 12 فروری کے ضمنی انتخاب کے مخصوص سیاق و سباق کی روشنی میں اس سوال کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ انتخاب ایک ایسے موقعہ پر منعقد ہوا ہے جب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اقتدار کے لئے رسہ کشی اپنے عروج پر ہے۔ اس انتخاب کو دو امیدواروں کے درمیان مقابلے کی بجائے‘ دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان محاذ آرائی کا نام دیا جا رہا تھا۔ اس لئے اس میں ایک امیدوار کی جیت اور ہار کو پارٹی کی جیت اور ہار قرار دیا جا رہا تھا۔ دوسرے‘ ابتدا میں یہ تاثر تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار علی ترین کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار اقبال شاہ کا سرے سے کامیابی کا کوئی امکان ہی نہیں۔ جو لوگ اس رائے کے حامی تھے‘ وہ دسمبر 2015 کے اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین کی زبردست کامیابی کا حوالہ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ نون کے امیدوار اقبال شاہ کی انتخابی مہم روایتی دھوم دھڑکے‘ شور شرابے اور رونق سے محروم تھی۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار نے خاموشی سے ووٹرز کے گھروں پر باری باری دستک کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا اور یہ مہم کامیاب رہی۔ اس کامیابی کے نتیجے میں آئندہ پارلیمانی انتخاب میں کس پارٹی کا پلڑا بھاری رہتا ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں پنجاب میں جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے‘ ان میں مسلم لیگ ن کے امیدوار جیتے ہیں اور پہلے کے مقابلے میں دوسرا اور دوسرے کے مقابلے میں تیسرا زیادہ اکثریت سے کامیاب ہوا۔ ستمبر 2017 میں لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی امیدوار بیگم کلثوم نواز کو اپنی مدمقابل پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد پر 4188 ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت نواز شریف کے خلاف نااہلیت کے فیصلے کو دو ماہ سے بھی کم عرصہ گزرا تھا۔ اس کے بعد 9 جنوری کو چکوال کے صوبائی حلقہ پی پی 20 کا ضمنی انتخاب بھی اس لحاظ سے اہم اور دلچسپ ہے کہ اس میں مسلم لیگ کے امیدوار چودھری سلطان حیدر علی نے اپنے حریف پی ٹی آئی کے امیدوار طارق افضل کو تقریباً 29 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے شکست دی تھی۔ اس طرح لاہور چکوال اور لودھران کے ضمنی انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کو نہ صرف وسطی‘ بلکہ شمالی اور جنوبی پنجاب میں بھی سپورٹ حاصل ہے اور اس سپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ 2018 کے انتخابات کے نتائج ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے مختلف نہیں ہوں گے اور مسلم ن دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کرے گی۔ بیشتر سیاسی اور صحافتی حلقے بھی اس رائے کے حامی ہیں کہ نااہلیت کے فیصلے سے نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ نواز شریف کے اس بیانیے کو عوام میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے کہ انہیں احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ کیونکہ انہوں نے یہ نعرہ بلندکیا تھا کہ ملک پر حکمرانی کا حق صرف عوام کو حاصل ہے اور یہ کہ ان پر مقدمات دراصل انہیں سزا دینے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کا اپنے مقدمے کو عوام کے سامنے رکھنے کا فیصلہ درست تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جو حکمت عملی اپنائی تھی‘ وہ کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں عمران خان کا بیانیہ پٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ان کی طرف سے انتخابی دھاندلی کے خلاف دھرنے اور پانامہ لیکس کی بنیاد پر نواز شریف کو جیل بھجوانے کی مہم کا کوئی سیاسی اثر نظر نہیں آتا۔ نواز شریف اب زیادہ اعتماد بلکہ جارحانہ انداز میں عوام کے سامنے اپنا بیانیہ پیش کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے انہیں اسلام آباد سے لاہور براستہ جی ٹی روڈ سفر کے خلاف مشورہ دیا تھا‘ وہ لوگ بیک گرائونڈ میں چلے گئے ہیں اور جنہوں نے عام جلسوں اور جلوسوں میں تقرریں کر کے عوام کی سوچ بدل دی ہے‘ وہ اس وقت مطمئن اور خوش ہیں‘ اور ان کا خیال ہے کہ نواز شریف کی ہردلعزیزی کی یہ لہر بلند ہوتی جائے گی اور آئندہ انتخابات میں اپنا اثر دکھائے گی۔ لودھراں کے ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ کی غیر متوقع اور بھاری اکثریت سے کامیابی کو آئندہ انتخابات کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں