آزاد جموں و کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی 130ممتاز سیاسی‘ سماجی اور صحافتی شخصیتوں نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے نام ایک پٹیشن جاری کی ہے‘ جس میں استدعا کی گئی ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر لگاتار فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بند کیا جائے‘ کیونکہ اس کی وجہ سے سرحد کے دونوں اطراف نہ صرف شہریوں کے جانی اور مالی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اگر یہ سلسلہ نہ تھما تو دونوں ملکوں میں ایک بڑی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ ان شخصیات میں جموں سے شائع ہونے والے انگریزی زبان کے ایک اخبار ''کشمیر ٹائمز‘‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھاسن‘ سنٹر فار پیس‘ ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز (Center for peace development and reforms) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ارشاد محمود‘ آزاد جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر چودھری لطیف اکبر‘ جسٹس (ر) حسنین مسعودی‘ سابق وائس چانسلر صدیق واحد‘ ایڈیٹر ''رائزنگ کشمیر‘‘ ڈاکٹر نتاشا کول‘ صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ ایئر وائس مارشل کپیل کک‘ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین عبدالخالق واسی‘ کشمیر کونسل کے ممبر شکیل قلندر‘ سابق سفیر عارف کمال اور آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر‘ شاہین کوثر ڈار شامل ہیں۔ پٹیشن پر مزید دستخط حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک اس پر جن لوگوں نے دستخط کئے ہیں‘ ان میں سینئر سیاسی رہنما‘ صحافی‘ شاعر‘ مصنفین‘ سول سوسائٹی ورکرز‘ سابقہ سرکاری ملازم‘ سابقہ سفیر‘ ریٹائرڈ فوجی افسران کے علاوہ یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ شامل ہیں۔ پٹیشن میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے آر پار سے فائرنگ اور اس کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرنے کے علاوہ پاکستان اور بھارت میں انتہا پسند اور جنگی جنون میں مبتلا عناصر کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے‘ اور یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ سرحد کے دونوں جانب پائے جانے والے یہ عناصر لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی آڑ میں دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے پٹیشن میں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سرحدوں پر تعینات اپنی فوجوں کو نومبر 2003 کے معاہدے کے تحت جنگ بندی کا پابند بنائیں‘ کیونکہ اگر فائرنگ کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہو گی جو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بجائے جنگ چاہتے ہیں۔
لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر پاکستان اور بھارت کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بہت پُرانا ہے۔ اس کی وجہ سے سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے شہریوں کو جو مشکلات پیش آ رہی تھیں اور پاک بھارت تعلقات میں جس قدر کشیدگی پیدا ہو رہی تھی‘ اس کے پیش نظر دونوں ملکوں نے نومبر 2003 میں جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا‘ جس پر عمل درآمد سے نہ صرف سرحد کے قریبی علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ‘ بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں بھی نمایاں کمی ہوئی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاست کے دونوں حصوں میں رہنے والے کشمیریوں کے درمیان میل جول اور تجارت کے راستے کھل گئے۔ اپریل 2005 میں مظفر آباد اور سری نگر کے درمیان بس سروس کا اجرا ہوا اور اکتوبر 2008 میں پونچھ اور راولا کوٹ کے درمیان تجارت کی غرض سے ٹرک سروس بھی شروع کر دی گئی۔ 2003 کے جنگ بندی معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر کافی عرصہ تک امن رہا اور 2004 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والے امن مذاکرات کے سلسلے کے تحت طے پا جانے والے اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs) میں اس معاہدے کو سب سے کامیاب CBM قرار دیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ سے سرحدی علاقوں کی رونقیں دوبارہ بحال ہو گئیں۔ جو لوگ فائرنگ اور گولہ باری سے گھبرا کر سرحدوں سے پیچھے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے‘ اپنے بال بچوں اور مال مویشی سمیت واپس لوٹ آئے۔ خالی زمینوں پر ہری بھری فصلیں پھر سے لہلہانے لگیں‘ بچے بلا خوف و خطر سکول جانے لگ گئے‘ ہسپتال کھل گئے اور دیگر کاروبارِ زندگی بھی دوبارہ شروع ہو گئے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ موت کے سوداگروں کو زندگی کی یہ رونقیں ایک آنکھ نہیں بھائیں اور آج سے تقریباً پانچ سال قبل لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ ایک دفعہ پھر سرحدوں کے دونوں اطراف لوگوں‘ جن میں اکثریت زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں‘ پرچون فروشوں اور سکولوں‘ ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے نچلے درجے کے ملازمین اور ان کے کنبوں کے افراد پر مشتمل ہے‘ کو سرحد کی لکیر سے میلوں دور پیچھے ہٹ کر یا تو اپنے رشتے داروں اور واقف کاروں کے ہاں پناہ لینی پڑتی ہے یا پھر کھلے آسمان تلے خیمہ بستیوں میں اپنے محدود سازو سامان کے ساتھ مہینوں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود ان کی زندگیاں محفوظ نہیں اور مخالف سمت سے آنے والے مارٹر یا دور مار توپوں کے گولے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ بچے اور عورتیں متاثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں لائن آف کنٹرول پر آزاد کشمیر کے ایک سیکٹر میں بچوں کی ایک سکول وین بھارتی فائرنگ کی زد میں آ گئی اور اس کا ڈرائیور شہید ہو گیا۔ اب تک لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے آر پار سے فائرنگ اور شیلنگ میں دونوں طرف جتنے بھی شہری جاں بحق ہوئے‘ ان میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر پاکستانی اور بھارتی سرحدی محافظوں کے درمیان فائرنگ کا سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس میں تیزی آنے کے ساتھ ساتھ بھاری ہتھیاروں یعنی مارٹر اور دور مار توپوں کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے‘ جس کی وجہ سے دونوں طرف نہ صرف وسیع سرحدی علاقے خالی ہو رہے ہیں بلکہ جانی نقصان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اب حال یہ ہو گیا ہے کہ اگر ایک طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں چند فوجی جوان یا آفیسر ہلاک ہوتے ہیں تو دوسری طرف سے فوری جوابی کارروائی یقینی ہوتی ہے۔ فائرنگ اور جوابی فائرنگ کے اس کھیل میں پاکستان اور بھارت کے متعدد فوجی جوان اور آفیسر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز اور مجاہدین کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں جموں کے قریب ایک فوجی اڈے پر مجاہدین کے حملے میں 9 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں 5 فوجی اور ایک شہری بھی شامل تھا اور حسب روایت بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر پاکستان پر ڈال دی اور دعویٰ کیا کہ ان کی خفیہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق حملہ آوروں کو پاکستان سے ہدایات موصول ہو رہی تھیں۔ اس بیان کے ساتھ بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتارام نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اسے بہت جلد اس حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ اس بیان کے دو دن بعد پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس ریلیز جاری کی‘ جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج نے سکول وین پر بھارتی حملے کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے سرحد پر ایک فوجی چوکی کو تباہ کر دیا‘ جس میں موجود پانچ بھارتی فوجی ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے تھے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحدی فوجوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے اور جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں دونوں طرف جانی نقصان میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کے پیش نظر بہت سے ملکی اور غیر ملکی حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو یہ جھڑپیں بڑھتے بڑھتے ایک بڑی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا بلکہ پورے خطے کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ چونکہ پاکستان اور بھارت ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہیں‘ اس لئے روائتی جنگ ایک ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ مغربی دنیا کے عسکری حلقوں اور تھنک ٹینکس کی رپورٹوں اور تبصروں میں پاک بھارت ایٹمی جنگ کے قوی امکانات کا اظہار کیا جا رہاہے۔ ان حالات میں ریاست جموں و کشمیر کے دونوں حصوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کی طرف سے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں پر لائن آف کنٹرول پرامن کے فوری قیام کیلئے اقدامات کرنے کے حوالے سے دبائو نہ صرف ایک بروقت بلکہ انتہائی اہم تحریک ہے‘ جس کی پوری پوری حمایت کرنی چاہئے۔