ایک ایسے وقت میں جب پاکستان پر سیاسی پارٹیوں کے باہمی اختلافات اور اداروں کے باہمی ٹکرائو سے سیاسی غیر یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے‘ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی میں خطرناک رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور امریکہ کے ایما پر پاکستان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکامی کا الزام عاید کیا جا رہا ہے‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے چار اہم ممالک یعنی پاکستان‘ بھارت‘ افغانستان اور ترکمانستان کے نمائندوں نے تقریباً پندرہ کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کی تعمیر کا آغاز کرکے علاقائی امن و سلامتی اور تعاون کیلئے امید کی ایک کرن پیدا کر دی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی‘ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور بھارت کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور ایم جے اکبر نے پہلے ترکمانستان اور پھر افغانستان میں اس پائپ لائن کی تعمیر کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اس موقعہ پر اس گیس پائپ لائن کی تکمیل سے خطے کے ممالک کو جو فوائد حاصل ہوں گے‘ ان کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم عباسی نے کہا کہ یہ فوائد ان ممالک کی صرف توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے تک محدود نہیں رہیں گے‘ بلکہ اس منصوبے کے ساتھ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن‘ فائبر آپٹک کیبل‘ سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا جو سلسلہ تعمیر ہو گا‘ اس سے یہ پائپ لائن منصوبہ ایک انرجی اور کمیونی کیشن کوریڈور میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے دو بڑے خطوں یعنی جنوبی اور وسطی ایشیا کے مابین اور ان چار ممالک کے درمیان تعاون‘ دوستی‘ امن‘ ثقافتی تعلقات اور مفاہمت کی فضا پروان چڑھے گی۔ یہ پائپ لائن ترکمانستان کی 33 بلین کیوبک میٹر گیس کو افغانستان کے راستے پاکستا ن اور اس سے آگے بھارت تک پہنچائے گی۔ 33 بلین کیوبک میٹر میں سے 5 بلین کیوبک میٹر گیس افغانستان استعمال کرے گا اور باقی 28 بلین کیوبک میٹر گیس پاکستان اور بھارت آدھی آدھی اپنے استعمال میں لائیں گے۔
پاکستان کیلئے یہ منصوبہ‘ جو امید ہے 2019 تک مکمل ہو جائے گا‘ خاص اہمیت کا حامل ہے‘ کیونکہ جیسا کہ وزیر اعظم عباسی نے کہا ہے کہ اس سے پاکستان کی قدرتی گیس کی 20 فیصد ضروریات پوری ہوں گی۔ اس وقت پاکستان اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی گیس سے ملکی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے‘ اور باہر سے مائع قدرتی گیس درآمد کرکے گیس کی کمی پوری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ لیکن 8 بلین ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والی گیس پائپ لائن‘ جو تاپی (TAPI) کے نام سے جانی جاتی ہے‘ کی اہمیت منصوبے میں شامل ممالک کی صرف توانائی کی ضروریات پوری کرنے تک محدود نہیں‘ بلکہ مکمل ہونے کی صورت میں یہ ایشیا میں ایک خوشگوار سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے‘ کیونکہ جیسا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ ''تاپی‘‘ صرف ایک گیس پائپ لائن کا نام نہیں ہے‘ بلکہ دنیا کے دو بڑے خطوں کو معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی شعبوں میں باہم جوڑنے کا نام ہے اور آگے چل کر یہ امن کا پیغام ثابت ہو گی۔ ترکمانستان کے صدر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت کو گیس کی فراہمی سیاسی اہمیت کا اقدام ہے۔ یاد رہے کہ ترکمانستان میں دنیا میں قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ روس‘ چین اور یورپ اپنی گیس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ترکمانستان کے ساتھ معاہدات کے خواہاں ہیں۔ اس وقت چین 35 بلین کیوبک فٹ گیس خرید کر ترکمانستان کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ مبصرین کی نظر میں ترکمانستان کی طرف سے افغانستان‘ پاکستان اور بھارت کے ہاتھ تقریباً اتنی ہی مقدار میں گیس فروخت کرنے کا اقدام دراصل چین پر اپنے انحصار کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ اور غالباً اسی وجہ سے امریکہ اس منصوبے میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا تھا‘ تاکہ وسطی ایشیا‘ جہاں چین کے اثر و رسوخ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ کے روابط جنوبی ایشیا کے ساتھ قائم کئے جائیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے اس منصوبے کی تعمیر میں مالی امداد کا فیصلہ بھی ایسی پالیسی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی طرف سے اس منصوبے میں غیر معمولی دلچسپی کے اظہار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت نے ایران سے گیس خریدنے کیلئے بلوچستان کے راستے گیس پائپ لائن بچھانے کا جو منصوبہ طے کیا تھا‘ وہ کامیاب نہ ہو سکا‘ کیونکہ امریکہ ایران کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔ اس معاہدے پر پاکستان نے پیپلز پارٹی کے سابقہ حکومت کے دوران دستخط کئے تھے۔ ایران اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کر چکا ہے‘ لیکن پاکستان نے اپنی طرف اس پائپ لائن کی تعمیر کا ابھی تک آغاز نہیں کیا۔ اگرچہ پاکستان ابھی تک اس منصوبے کے ساتھ کمیٹڈ ہے‘ لیکن بھارت کے نکل جانے کے بعد ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن (IPI) کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ اس تناظر میں TAPI کی سیاسی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے‘ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پاکستان اور بھارت امریکہ کے ایما پر TAPI میں شامل ہوئے ہیں‘ یا انہوں نے امریکہ کے دبائو میں آ کر آئی پی آئی کی تعمیر میں سرگرمی دکھانا بند کر دی ہے۔ آئی پی آئی کی موجودہ مشکلات کا تعلق زیادہ تر پاک بھارت کشیدگی‘ مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات اور ایرانی گیس کی قیمت جیسے مسائل سے ہے۔ جونہی خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں حالات بہتر ہوئے‘ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کم ہوئی اور ایران کے ساتھ گیس کی قیمت طے ہو گئی‘ آئی پی آئی کے منصوبے میں بھی جان پڑ جائے گی۔ لیکن تاپی منصوبے کے افتتاح کی اصل اہمیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے خطوں کی حکومتیں اور عوام‘ دونوں خطوں کے درمیان نہ صرف تجارت‘ توانائی اور مواصلاتی رابطوں کے خواہش مند ہیں بلکہ وہ سیاست‘ ثقافت‘ سیاحت‘ علوم و فنون اور اقدار کے شعبوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ بالکل اسی طرح میل جول اور تبادلے کے حامی ہیں‘ جس طرح قدیم شاہراہ ریشم اپنے وقت میں مشرق اور مغرب کے درمیان نہ صرف قدرتی اشیا اور مصنوعات کی تجارت بلکہ علم‘ ایجاد‘ فلسفے اور مذہب کے پھیلائو کا ذریعہ بھی تھی۔
افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور بھارت کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور ایم جے اکبر نے بھی اس موقعہ پر جن خیالات کا اظہار کیا‘ ان میں انہی مقاصد کی جھلک نظر آتی ہے۔ مثلاً ایم جے اکبر نے کہا کہ یہ منصوبہ اس خطے کے ملکوں کے درمیان تعاون کا سمبل ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں خوشی ہے‘ افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان پُل کا کام دے رہا ہے۔ ان کی تقریر میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ اس پائپ لائن کی تعمیر سے خطے میں نہ صرف اقتصادی شعبے میں تعاون کو فروغ ملے گا اور ہماری آئندہ نسلوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئے گی بلکہ یہ امن کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو گا۔ افغان صدر کا اشارہ غالباً پائپ لائن کے حوالے سے ایک اہم اطلاع کی طرف ہے‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان نے اپنے زیر اثر علاقوں سے گزرنے والی پائپ لائن کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو یہ ایک غیر معمولی اور دور رس اہمیت کی حامل خبر ہے‘ کیونکہ ماضی میں اس پائپ لائن کی تعمیر اس لئے شروع نہ ہو سکی تھی کہ اس پر طالبان کی طرف سے حملوں کا خطرہ تھا‘ لیکن افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے سے ایک بیان سامنے آیا ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے نزدیک چونکہ یہ منصوبہ افغانستان کے مفاد میں ہے‘ اس لئے وہ اسے سکیورٹی فراہم کرنے پر تیار ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر کابل انتظامیہ اور امریکی فوجوں سے برسر پیکار افغان طالبان تاپی کی سکیورٹی کے حوالے سے افغان حکومت کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں‘ تو ملک میں جنگ بند کرنے اور امن کے قیام اور مصالحت کے فروغ کیلئے بھی وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ امکان اس لئے بھی قرین قیاس نظر آتا ہے کہ اس وقت افغانستان میں جنگ کو مزید تیز ہونے سے روکنے اور امن مذاکرات شروع کرنے کیلئے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے اہم ممالک مثلاً چین اور روس سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ خود افغان طالبان کی طرف سے بھی حال ہی میں ایک بیان جاری ہوا کہ وہ افغانستان کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حامی ہیں۔ ان حالات میں ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان اور انڈیا پائپ لائن جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان توانائی اور تجارت کے شعبوں میں تعاون کیلئے ہی نہیں بلکہ افغان مسئلہ پر مذاکرات کے ذریعے علاقائی سلامتی کے فروغ کا بھی ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔